یوتھ کارنیوال کا اختتام پنجاب کیوں آگے رہا ۔۔ اے وسیم خٹک

سپورٹس کمپلیکس قیوم سٹیڈیم پشاور میں چارروزہ جشن یوتھ کارنیوال اپنی بھر پور رعنائیوں، چمک دمک اور رمق کے ساتھ اختتام پذیر ہوگیاـ ۔ پنجاب یونیورسٹی پہلے نمبر پر جبکہ دوسرے نمبر پر وفاق کی یونیورسٹی قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد رہی۔ ـ صوبہ خیبر پختونخوا کی ٹیمیں پنجاب کی ٹمیوں کے سامنے نہیں ٹک سکیں ۔ ـ صوبائی مقابلوں میں ونر رہنے والی پشاور کی ٹیموں کی کارکردگی وہ نہیں رہی جو ہونی چاہیے تھی.اس کارنیوال میں خیبر پختونخوا کے طلبہ کو اچھاپلیٹ فارم ملا تو انسٹی ٹیوٹ کو اپنی کمزرویوں کا احساس ہوا کہ ہم سے پنجاب والے کیوں آگے ہیں ،ـ کیونکہ ان کی منصوبہ بندی اچھی ہوتی ہے ـ وہ ایک ٹیم ورک کے ساتھ کام کرتے ہیں ـ وہ مقابلے میں حصہ اس نیت سے لیتے ہیں کہ جیت جائیں ،جبکہ ہمارے ہاں مقابلوں میں حصہ لینے کے لئے بھی نیپوٹزم ہوتی ہے ،ـ بہت سے طالب علموں کو میں نے دیکھا جو صرف خانہ پری کے لئے آئے تھےـ اور جب خانہ پری کی جاتی ہے تو پھر جیت نہیں ہار مقدر ہوتی ہے ـ دوسری جانب ہمارے ہاں مقابلوں کا وہ کلچر نہیں ہے جو پنجاب میں ہے، ـ ہمارے لوگ ٹیلنٹڈ ہیں مگر ان کو مواقع نہیں مل رہے ـ ۔اس کارنیوال میں پشتو گانے اور ایکسٹرا ٹیلنٹ ،تقریری مقابلوں اور پینٹنگ میں اچھے طالب علم سامنے آئے جن کو اب حکومت کی سرپرستی درکار ہے اور ان تعلیمی اداروں کا تعاون بھی جن کا نام ان طالب علموں نے روشن کیا ہے۔ ـ

اس یوتھ کارنیوال کے لئے چار پانچ ماہ تک تعلیمی اداروں میں مقابلے ہوتے رہے پھر ڈویژنل راؤنڈز ہوئے جس کے بعد صوبائی مقابلے  ہوئےـ جس ـمیں خیبر پختونخوا  کے باصلاحیت نوجوان سامنے آئے ،ایسے بھی طالب علم تھے جن کو پہلے کبھی موقع نہیں ملا تھا   اور ان میں بہت سے طالب علم   ایسے بھی تھے جنہوں نے صرف پشاور کا نام سنا تھاـ ۔پشاور کو انہوں نے غیر ملکیوں کی طرح صرف بموں کا شہر جانا اور سنا تھا ـ مگر یہاں آکر انہیں اس شہر کی خوبصورتی کا احساس ہواـ ۔یہ الگ بات کہ صوبائی حکومت نے پشاور کی بیوٹیفیکیشن پر کروڑوں روپے خرچ کر دیے تھےـ جس کے لئے سڑکوں کو روند ڈالا تھا، حالانکہ ریپیڈ بس سروس کی فزیبیلیٹی رپورٹ حکومت کے اقتدار میں آنے کے ایک سال بعد بنی تھی پھر بھی سڑکوں پر کروڑوں لگائے گئے اور اب تمام سڑکوں کو پھر اکھاڑ دیا گیا ہےـ جس کے باعث باہر سے آنے والے طلباء کو یہ شہر کھنڈروں کا اور ٹریفک جام کا شہر محسوس ہواـ، چونکہ یوتھ کارنیوال اور لیژان کارپوریشن کے ساتھ اللہ کی خاص مدد شامل ہے اس لئے ان دنوں بارشیں ضرور  ہوتی ہیں ـ جس سے موسم خوشگوار ہوجاتا ہےـ پچھلے سال بارش سے بچنے کے لئے اتنے انتظامات نہیں تھے مگر اس دفعہ خاطر خواہ اقدامات اُٹھائے گئے تھے۔

ـ

میڈیا کی ٹیموں کو بھی انٹرٹین کرنے کے لئے خاص ٹیم بنائی گئی تھی کیونکہ اگر اتنے بڑے ایونٹ میں میڈیا کو ناراض رکھا جاتا تو کہانی کوئی اور رخ اختیار کر لیتی ـ کیونکہ ایک ہفتہ پہلے شہید بے نظیر بھٹو وومن  یونیورسٹی میں بیلے ڈانس نے ایک ماحول گرم کر لیا تھاـ اور یہاں پر  چونکہ طلباء اور طالبات ساتھ ساتھ حصہ لے رہے تھےـ تو ایک نیگٹیو خبر پشاور کا امیج پھر خراب کردیتی ـ مگر شکر ہے ایسی کوئی خبر  نہیں آئی، البتہ   قائداعظم یونیورسٹی کی ایک طالبہ نے حصہ لیا ـ مگر انتظامیہ اس سے بے خبر تھی ـ ان چار دنوں میں طلبہ اور ان کے اساتذہ کو ایک دوسرے کے ساتھ انٹریکٹ ہونے کا موقع ملا  ،ـ ایجوکیشن ایکسپو میں بھی کثیر تعداد میں طلبہ نے شرکت کی ان سپاٹ جاب اور انٹرویو دیے  گئے۔

ـ

پشاور کی معیشت میں یہ چار دن نہایت اہم رہے کیونکہ ان چار دنوں میں ملک بھر سے بارہ سو سے زیادہ طالب علم اور  آفیشل پشاور میں مقیم رہے ـ جن کے لئے ٹرانسپورٹ کا انتظام کیا گیا تھاـ ہوٹلوں میں بکنگ کی گئی تھی ـ جس سے ٹرانسپورٹ اور ہوٹلوں سمیت پشاور کی مختلف مارکیٹوں میں شاپنگ کی گئی ـ، دیگر دنوں کی نسبت کاروبار زیادہ ہواـ باہرسے  آنے والے طلباء نے کارخانو مارکیٹ کا رخ کیا تو اندر سٹیڈیم میں قہوے کا سٹال لگانے والے غریب نے دن کے چار ہزار تک کمائی کی تو ساتھ میں میوزک سے لطف اندوز کرنے والے نے بھی اپنی کمائی میں اضافہ کیا ـ جس طرح بھی ہوا پشاور کو اس ایونٹ سے فائدہ ہواـ عزیز اعجاز، منی بیگم ،مشی خان اور توقیر ناصر مقابلوں کے جج رہے۔

ان چار دنوں میں سوچل میڈیا میں پشاور کا ایونٹ چھایا رہاـ اور ٹویٹر کے ٹاپ ٹرینڈ میں کارنیوال رہا ـ  جبکہ فیس بک ،انسٹاگرام وٹس ایپ  پر بھی پروگرام کی تصویریں شئیر ہوتی رہیں ،ـ جس سے یہ احساس جاگتا رہا کہ پشاوری ابھی زندہ ہیں ان میں جینے کا احساس زندہ ہے ـ پشاور کے لوگوں میں مہمان نوازی کی رمق باقی ہے، ـ ٹاپ ٹرینڈ میں کارنیوال کی وجہ سے پشاور بھی ٹاپ پر رہا ـ اس  سے  بڑی بات کیا ہوسکتی ہے۔ ـ سوشل میڈیا ٹیم نے اس ایونٹ کو کامیاب کروانے کے لئے دن رات ایک کردیا تھا، ـ جس میں وہ مکمل طور پر کامیاب ہوئے ہیں. جبکہ قیوم اسٹیڈیم کے ہر کونے کی تصویر ایونٹ کے فوٹوگرافروں نے اپنے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کر لی ہے ـ  ۔لاتعداد تصاویر بنائی گئی ہیں ،ـ اور یہ تصویریں سارا سال فیس بک پر گردش کرتی رہیں گی جب تک اگلے سال کا یوتھ کارنیوال نہیں آجاتا!

Advertisements
julia rana solicitors

Save

Facebook Comments

اے ۔وسیم خٹک
پشاور کا صحافی، میڈیا ٹیچر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply