خونی سیاست/حسان عالمگیر عباسی

گولی جان لیوا ہوتی ہے گائیز ،مطلب اگر گولی آر پار ہو جائے تو جان چلی جاتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں جان چلی جائے تو واپسی تاریخ سے ثابت نہیں ہے۔ ایک جان سے کئی جانیں جڑی ہوتی ہیں جو جینا چھوڑ دیتی ہیں مرجھا جاتی ہیں۔ ایک لیڈر کی جان چلی جائے تو عوام میں تقسیم پیدا ہو جاتی ہے۔ تشدد کی ہر شکل بھیانک ہے۔ جنگ شروع تو ہو جاتی ہے لیکن راکھ سمیٹتے نسلیں راکھ ہو جاتی ہیں۔ یہاں تشدد جیسے لطف و کرم سے متعلق ہے۔ کیسے پتہ چل جاتا ہے کہ جان بوجھ کے خان صاحب یوں کر بیٹھے؟ کیا بے نظیر بھٹو بچ جاتیں تو بھی یہی کہا جانا تھا؟ تاریخ میں ایسے واقعات کیا نہیں ہو چکے جو اب ممکن نہیں رہا؟  تشدد کو لگی لپٹی رکھے  بنِا مذمت کرنا سیکھنا ہو گا۔

اگر کوئی اور لیڈر ہوتا تو اس جماعت کے کارکنان کیا یہی کرتے جو ابھی کر رہے ہیں؟ کبھی نہیں۔ وہ گنگنا رہے ہوتے:

چلتی بندوق کے ہم نشانے پہ ہیں

ہم کو معلوم ہے ہم نشانے پہ ہیں

Advertisements
julia rana solicitors london

سیاست بھی خونی ہوگئی ہے۔
لاشوں سے بات شروع ہوتی ہے اور جنازوں پہ ختم ہوتی ہے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply