ٹوٹتے جاتے ہیں چوپالوں میں مٹی کے گھڑے

ٹوٹتے جاتے ہیں چوپالوں میں مٹی کے گھڑے
سبط حسن گیلانی
بہت سارے برس بیتے کہ اخبار میں ایک شعر لکھا تھا۔ آج تک دماغ کی لوح پر کندہ ہے۔
ٹوٹتے جاتے ہیں چوپالوں میں مٹی کے گھڑے
یہ شہر میرے گائوں کی ویرانیوں کا نام ہے
آج کل سرما کا موسم ہے مگر انگلستان میں یہ دبے پائوں نہیں آتا بس ٹوٹ پڑتا ہے۔میں چکوال کے جس گائوں میں پروان چڑھا اُس کا نام قدیم ہندو راجپوتائوں کی ایک معروف ذات کے نام پر ہے، چوہان۔مقام شکر ہے کہ ابھی تک اس کا قدیم نام محفوظ ہے ،کسی کو اس کا نام اپنے کسی اسلامی ہیرو کے نام پر رکھنے کا خیال نہیں آیا۔ دفتر قدرت آئیندہ بھی اسے کسی ایسی حرکت سے بچائے رکھے۔بس چھوٹا سا گائوں ہے۔ آج بھی تین سو سے کم گھروں پر مشتمل۔کبھی یہاں رات گئے چوپال آباد رہا کرتے۔کسان سرما کی سرد ترین راتوں کوگداز ستھر پر بیٹھ کر گڑ والی چائے کی سُرکیاں لیتے اور گپ شپ کا مزا لیتے۔ایسی ہی ایک رات جس نے آنے والی کئی نسلوں کے مقدر سیاہ کر ڈالے۔
بی بی سی پر جنرل ایوب کے اقتدار پر قابض ہونے کی خبر نشر ہوئی۔ بوڑھے فوجی جنہوں نے پہلی اور دوسری عالمی جنگوں میں حصہ لیا تھا۔ ریڈیو پر باقاعدگی سے بی بی سی کی خبریں سنا کرتے۔ اور پھر چوپال میں آکر ان پر تبصرہ کرتے۔صدر ایوب کے متعلق ہر رات کوئی نہ کوئی تبصرہ ضرور ہوتا۔ ایک دن ایک سیدھے سادے کسان نے ہمارے ایک بزرگ سے پوچھ لیا۔ شاہ جی ایوب بادشاہ کی تنخواہ کتنی ہوگی؟۔ شاہ صاحب نے اپنے حساب سے لمبا چوڑا اندازہ قائم کرتے ہوئے کہا۔ اللہ دتیابہت تھوڑی بھی ہوئی تو دس ہزار تو ہوگی۔یہ سن کر اس کسان کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔پھر ایک ٹھنڈی سانس بھر کر بولا۔ پھر تو شاہ جی رج کے گڑ کھاتا ہوگا۔یہ وہ وقت تھا جب ایک روپئے کا غالباً پانچ سیر گڑ ملتا تھا۔ اور کسانوں کے لیے یہی مٹھائی کا درجہ رکھتا تھا۔ اسی سے حلوہ اور چائے تک پکتی تھی۔ ویسے آپس کی بات ہے یہ واقعہ ہے 1958کاہے اور اسے گزرے بھی 58برس بیت چکے۔ مگر آج بھی گائوں کا کسان گڑ کی ایک بھیلی کو ترس رہا ہے اور بادشاہ رج کے گڑ کھا رہا ہے۔مجھے تو سمجھ نہیں آتی بدلا کیا ہے؟۔آج ان کسانوں کی اولادیں کچے ڈھاروں کی بجائے پکے گھروں میں مقیم ہیں تو اپنے بادشاہوں کے طفیل نہیں بلکہ پرائے دیسوں میں محنت مزدوری کرنے کے سبب۔ جنہیں یہ موقع نہیں ملا ان کے بچوں کے سروں پر آج بھی بارشوں میں چھتیں گر پڑتی ہیں۔میں اپنے گائوں کو یاد کر رہا تھا۔ جب گرمیوں میں کھلے صحن میں سوتے تھے۔ تارے گنتے گنتے نیند آ جاتی تھی۔صبح سویرے درختوں پر چڑیوں کے چہچہانے کے شور سے آنکھ کھلتی۔ جسے میں نے شور لکھ دیا کیا مدھر موسیقی جیسا تھا وہ سب کچھ۔کان ترس گئے ہیں اب ایسی آوازوں کو ۔ناشتے میں پراٹھے کے ساتھ ادھ رڑکا۔جسے امی نے دودھ بلوتے پہلے سے الگ رکھ چھوڑا ہوتا۔
دودھ بلونے کی آواز میں کیا ردھم تھا کاش میرے قلم میں ایسا زور ہوتا کہ بیان کر سکتا۔سرما کے موسم کی ابتدا میں ہی کھیت سرسوں کی گندلوں سے بھر جاتے۔گندلوں کا ساگ لنگری میں دڑفل سرخ مرچوں اور مکھن سے تڑکے کے ساتھ جب کسانوں کے سامنے چارپائیوں پر مٹی کی رکابیوں میں پروساجاتا تو کسان ساری تھکن بھول جاتے۔ آج بھی وہ سواد زبان نہیں بھولی۔ بھول بھی کیسے سکتی ہے۔ہمارا سکول گائوں سے تقریباً دو میل کے فاصلے پر تھا۔ ہندووں کی ایک ذات ہسولہ کے نام پر بسے گائوں میں۔ گورنمنٹ سکول ہسولہ۔جو 1886میں قائم ہوا۔ اور آج تک علاقے میں علم کا نور بانٹ رہا ہے۔ جہاں سے پڑھ کر کسانون کے بچوں نے زندگی کے مختلف میدانوں میں بڑے بڑے نام پائے۔سابق وفاقی وزیر جنرل مجید ملک مرحوم اور حال کے سینیٹر جنرل ر عبدالقیوم بھی اسی سکول کے پڑھے ہوئے ہیں۔مگر وہ سکول اچھی خاصی جگہ کے باوجود آج بھی اسی مقام پر ہے جہاں انگریز اسے چھوڑ کر گئے تھے۔آج کا تو حال معلوم نہیں مگر نوے کی دہائی تک جب وہاں ملک حق نواز ہیڈ ماسٹر تھے۔اس کی شہرت دور دور تک تھی۔ ہمارے زمانے میں وہاں باقاعدگی سے ہر ہفتے بزم ادب کا انعقاد ہوا کرتا۔ میں اس میں بڑے شوق سے حصہ لیا کرتا۔ میر انیس سے لے کر میر تقی میر تک۔زوق و غالب سے لیکر اقبال اور جوش تک۔
فیض احمد فیض سے لے کر ساحر لدھیانوی تک کے سینکڑوں اشعار ہمیں زبانی یاد تھے۔میرے والد کے ماموں زاد بھائی غلام عباس شاہ پی پی پی کی طرف سے ضلع جہلم کے چیرمین بنے تو انہوں نے دو وزیروں کو سکول میں دعوت دی۔ ان میں سے ایک ڈاکٹر غلام حسین تھے۔ سارے سکول میں پورا ایک ماہ ان کے استقبال کی تیاری ہوتی رہی۔ پی ٹی ماسٹر صدیق صاحب کے ذمے گرائونڈ کی تیاری اور پرچم کشائی کا کام تھا۔ وہ اس طرح کہ وزیر صاحب کے پرچم کی ڈوری کھینچنے پر گلاب کے پھولوں کی گٹھڑی ان کے سر پر کھلے۔ اردو کے ماسٹر لطیف صاحب نے ایک ڈرامہ سٹیج کرنے کی ذمہ داری سنبھالی۔ جس میں مجھے راجہ دائر کا کردار سونپا گیا۔جب مجھے بتایا گیا کہ وہ ہندو تھا تو میں نے ماسٹر صاحب سے اس کی شکایت کی۔ انہوں نے سمجھایا کہ ہندوستان کی دھرتی کا وہ ایک عظیم سپوت تھا۔ یہ سن کر مجھے کچھ کچھ تسلی ہوئی۔کچھ عرصے بعد ہمارے انگریزی کے استادقاضی منیر صاحب اس سکول میں آئے۔ وہ دیکھنے میں کہیں سے بھی ایک سکول ٹیچر نظر نہیں آتے تھے۔ دو گھوڑے بوسکی کی قمیص اور سفید لٹھے کی کھڑ کھڑ کرتی شلوار تلے چکوالی طلے کا کھُسہ۔
یونانی دیوتائوں جیسی شکل و صورت۔وہ آج بھی میرے دل میں بستے ہیں۔ سکول آتے جاتے ایک بار کُلیاں عبور کرنا پڑتی ٹھنڈے یخ پانی میں ننگے پائوں۔بارشوں مین کُلیاں تند ندی کا روپ دھار لیتی۔ گھٹنوں سے اوپر پانی بھی پائوں اُکھیڑ دیتا۔ دوسرے کنارے جنگلی کوندل اپنے لمبے ہاتھ پھیلا کر ہمیں کنارے لگاتی۔ خود رئو کوندل ہمارے بہت کام آتی۔ کلیاں ندی میں بہنے سے بچاتی، سخت سردی میں ہم خشک کوندل کو جلا کر خود ہاتھ پائوں تاپتے۔تفریح کے وقت گائوں کا ایک پھل فروش جس کا نام باج تھا سکول کے بائر کنوئوں اور امرودوں کا ٹھیلا لگاتا۔ امرودوں پر نمک اور سرخ مرچ ملا کر چھڑکتا۔ وہ سواد آج بھی یاد آتا ہے۔ یادوں کی برات ہے کہ بڑھتی چلی آتی ہے ۔ڈھول ڈھمکے سمیت۔ ڈھول سے یاد آیا ڈھوک ہسولیاں والے باج ڈھولی جیسا ڈھول اور ٹوٹا ساری دنیا میں اور کوئی نہیں بجا سکتا۔ اللہ کرے وہ آج بھی سلامت ہو۔ کوئی اسے بتائے کہ ٹوٹے میں اس کی گائی ہوئی غزل۔ وہ تیرے خط میں اک سلام کس کا تھا۔میرے کانوں میں آج بھی رس گھولتی ہے۔

Facebook Comments

سبطِ حسن گیلانی
سبط حسن برطانیہ میں مقیم ہیں مگر دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ آپ روزنامہ جنگ لندن سے بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply