• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کیا اے این پی کا اختتام قریب ہے؟/لیاقت علی ایڈووکیٹ

کیا اے این پی کا اختتام قریب ہے؟/لیاقت علی ایڈووکیٹ

عوامی نیشنل پارٹی کا شمار بجاطور پر پاکستان کی چند ایک ایسی سیاسی پارٹیوں میں کیا جاسکتا ہے جن کی جدوجہد کی طویل تاریخ ہے۔ اس کے کارکنوں اور رہنماؤں نے طویل ماہ و سال اپنے سیاسی نظریات کی بِنا پر جیلوں اور عقوبت خانوں میں گزارے لیکن یہ سیاسی تاریخ کا عجیب حادثہ ہے کہ طویل تاریخ اور جدوجہد کی حامل یہ سیاسی جماعت روبہ زوال ہے۔ کے پی  کے جو اس کی سیاست کا روایتی طور پر مرکز رہا ہے اب اس کے ہاتھوں سے بہت تیزی سے کھسک رہا ہے بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ کھسک چکا ہے۔ حالیہ ضمنی انتخابات میں اے این پی کے دونوں امیدواروں کو عمران خان نے مات دے دی ہے اور ایک نشست جس پر ایمل ولی خان کو شکست دی ہے وہ ولی خان فیملی کا آبائی حلقہ سمجھا جاتا ہے۔

آخر وہ کون سے سیاسی اور سماجی محرکات اور اسباب ہیں جو اے این پی کے سیاست کےزوال کا سبب بنے ہیں۔ ایک سادہ سا جواب تو یہ ہے کہ یہ سب اے این پی کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کی سازش ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتی کہ اے این پی جیسی جماعت جو قوم پرستی اور جمہوریت پر یقین رکھتی ہے کے پی  کے میں طاقتور ہو اور ممکنہ طور ہر حکمران پارٹی بن سکے۔ یہ جواز جزوی طور پر درست ہوسکتا ہے لیکن یہ پورا سچ نہیں ہے۔ بات اس سے کچھ زیادہ اور مختلف ہے۔

اے این پی کی سیاست کا بنیادی پتھر قوم پرستی اور پختون قومی شناخت رہاہے۔باچا خان،ولی خان اسفند یار ولی خان اور اب ایمل ولی خان چار نسلوں سے پختون قوم پرستی کو اپنی سیاست کا پرچم بنائے ہوئے ہیں لیکن اسفند یار اور ان کا بیٹا کے پی  کے میں ہونے والی سماجی اور معاشی تبدیلیوں کا ادراک کرنے سے قاصر رہے ہیں یا پھر ادراک تو رکھتے ہیں لیکن ان تبدیلیوں کے مطابق خود کو تبدیل کرنے سے عاری ہیں۔

ایک وقت تھا جب اے این پی اور اس کی پیش رو جماعت کا سب سے بڑا نعرہ صوبہ سرحد کی نام کی تبدیلی تھا۔ پنجابیوں کے لئے پنجاب،سندھیوں کے لئے سندھ،بلوچوں کے لئے بلوچستان ہوسکتا ہے تو پختونوں کے لئے پختونستان کیوں نہیں یہ ولی خان کا عمومی بیان ہوا کرتا تھا۔ ان دنوں پاکستان کے ریاستی ڈھانچے۔۔۔ فوج اور بیوروکریسی ، اور پاکستان کےدرمیانے طبقے میں پختونوں کی نمائندگی نسبتاً کم تھی جو ولی کے قوم پرستی پر مبنی نعروں کو قبولیت بخشتی تھی۔قوم پرستی کی مقبولیت میں کسی قوم کی محرومی اور اس کے وسائل پر غاصبانہ قبضہ کا نعرہ اہم رول ادا کرتے ہیں۔ معاشی اور سماجی پسماندگی،محرومی اور وسائل پر غاصبانہ قبضے کی باتیں پختونوں میں بہت مقبول تھیں جس کی بنا پر قوم پرستی کے پی کے کی سیاست کا اہم اور لازمی جزو بن چکی تھی۔

اپریل 1978 کے ثورانقلاب نے ولی خان کی قوم پرستی کی سیاست کو پہلی زک پہنچائی کیونکہ کابل کے نئے حکمران پختون قوم پرستی کی بجائے دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہوجاؤ کے نعرے پر یقین رکھتے اور اسی عینک سے اپنے ارد گرد کی سیاست کو  دیکھتے اور سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ولی خان نے ثور انقلاب کی دبے لفظوں میں مخالفت کی تھی اور خود کو نور محمد ترکئی سے دور رکھا تھا حالانکہ اس سے قبل کابل کےہر حکمران خواہ وہ ظاہر شاہ تھا یاسردار دادو سے ولی خان کے قریبی تعلقات زبان زد عام تھے۔ افغانستان میں جب امریکہ نے جہاد شروع کیا اور مولویوں کو فنڈز اور اسلحہ دینا شروع کیا تو ولی خان پہلی مرتبہ افغانستان کے انقلاب کی حمایت میں سامنے آئے کیونکہ انھیں یہ ادراک ہوگیا تھا کہ اگر افغانستان میں ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت ختم ہوگئی اور جہادی جیت گئے تو ان کی سیاست کے پی  کے  میں ختم ہوجائے گی۔ چنانچہ ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت افغانستان میں نہ بچ سکی اور امریکہ اور پاکستان کی فوج کی آشیر باد سے جہادی افغانستان میں برسر اقتدار آگئے۔ یہی وہ وقت تھا جب ولی خان کی قوم پرستی پر مبنی سیاست کی شکست اور اسلام اورپختون قوم پرستی کے اختلاط سے جنم لینے والےجہاد کی کامیابی کا آغاز ہوا تھا اوریہی وہ دور تھا جب ولی خان پہلی دفعہ الیکشن ہار گئے تھے اور انھوں نے عملی سیاست سے ہاتھ اٹھالیا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

افغانستان میں جہاد، اسلحے کی سمگلنگ، منشیات کے کاروبار کی بدولت کے پی  کے میں درمیانے طبقے کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا اور نتیجے کے طورپر پاکستان کی فوج اور بیورو کریسی میں بھی پختوتوں کی تعداد بڑھی اور آج صورت حال یہ ہے کہ فوج اور بیوروکریسی میں پختون پنجابیوں کو ٹف ٹائم دے رہے ہیں۔ پنجاب اور سندھ کا کوئی ایسا شہر اور قصبہ نہیں ہے جہاں پختون موجود نہ ہوں اور کسی نہ کسی کاروبار سے منسلک نہ ہوں۔ ٹرانسپورٹ بزنس کے ایک بڑے حصے پر پختون  قابض ہیں۔ کراچی پشاور سے بڑا پختون شہر بن چکا ہے۔ پختونوں کی قومی شناخت کا مسئلہ پی پی پی کی حکومت حل کرچکی ہے۔ قبائلی علاقے کے پی  کے  میں ضم ہوچکے ہیں یعنی قوم پرستی کے تمام مطالبات پورے ہوچکے ہیں اور محرومی اور وسائل پر قبضے کے نعرے دم توڑ چکے ہیں ۔کے پی کے میں جہاد، سمگلنگ سے تشکیل پانے والے درمیانے طبقے کو اپنی معاشی سرگرمیوں کے لئے پورا پاکستان چاہیے نا  کہ وہ قوم پرستی کے نام پر اٹک پر رک جائے۔ اب کے پی  کے میں سیاست کے لئے قوم پرستی کافی نہیں ہے اس کے لئے اے این پی کو کچھ نیا کرکے دکھانا ہوگا اور کچھ نئے نعرے اور پروگرام دینا ہوں گے ورنہ وہ جلد تاریخ کا حصہ بن کر کے پی کے کی سیاست سے ختم ہوجائے گی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply