• صفحہ اول
  • /
  • خبریں
  • /
  • 10 ہزار بندے لا کر 2 لاکھ لوگوں کی زندگی اجیرن نہیں بنائی جا سکتی، چیف جسٹس

10 ہزار بندے لا کر 2 لاکھ لوگوں کی زندگی اجیرن نہیں بنائی جا سکتی، چیف جسٹس

سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں عمران خان سے 5 نومبر تک تفصیلی جواب طلب کر لیا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ 25 مئی کو رات 10 بجے تک آگ لگ چکی تھی، کیا عدالت اب عمران خان سے پوچھے کہ کیا ہوا تھا؟ کیا عدالت اب عمران خان سے پوچھے کہ کیا ہوا تھا؟ ایچ نائن سے آگے آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا، 2 وکلاء کے ذریعے عدالت کو گمراہ کیا گیا۔ اپنا قلم آئین کے خلاف استعمال نہیں کرنا چاہتے۔10 ہزار بندے بلا کر 2 لاکھ لوگوں کی زندگی اجیرن نہیں بنائی جا سکتی، جمہوریت کو ماننے والے اس طرح احتجاج نہیں کرتے۔۔عدالت کے پاس موجود مواد کے مطابق عمران خان کو نوٹس ہونا چاہیے۔۔کیس میں تحمل سے کام لے رہے ہیں۔۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ تحریک انصاف نے عدالتی حکم کا غلط استعمال کیا۔

چیف جسس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کی، دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے بتایا کہ عمران خان نے کسی بھی یقین دہانی اور عدالتی حکم سے بھی لاعلمی کا اظہار کردیا ہے، حالانکہ عمران خان کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی تھی۔

25 مئی کو پہلا عدالتی حکم دن گیارہ بجے دیا گیا دوسرا شام 6 بجے، جس پر چیف جسٹس چیف جسٹس نے کہا کہ دونوں احکامات کے درمیان کا وقت ہدایت لینے کیلئے ہی تھا لیکن عدالت کو نہیں بتایا گیا تھا کہ ہدایت کس سے لی گئی ہے، اگر کسی سے بات نہیں ہوئی تھی توعدالت کو کیوں نہیں بتایا گیا، اس بات کی وضاحت تو دینی ہی پڑے گی۔ بابر اعوان اور فیصل چوہدری کے وکیل احسن بھون نے کہا کہ عدالت نے حکومت کو وکلاء کی عمران خان سے ملاقات کرانے کا حکم دیا، لیکن حکومت نے وکلاء کی عمران خان سے ملاقات کا بندوبست نہیں کیا۔

جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ وکلاء کا رابطہ نہیں ہوا تو یقین دہانی کس طرف سے کرائی گئی، کیا ٹیلی فونک رابطہ بھی نہیں کیا گیا تھا؟ وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ عمران خان سفر میں ہوں تو جیمر ساتھ ہوتے ہیں، میرا اسد عمر اور بابر اعوان سے رابطہ ہوا تو انہیں عدالتی کارروائی سے آگاہ کیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تصاویر کے مطابق تو اسد عمر ریلی میں تھے، جیمرز تھے تو اسد عمر سے رابطہ کیسے ہوا؟ وکیل نے بتایا کہ اس وقت عدالت کا کوئی حکم جاری نہیں ہوا تھا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت نے 25 مئی کو توازن پیدا کرنے کی کوشش کی تھی۔

اسد عمر سے دوسری بار بھی رابطہ ہو سکتا تھا لیکن نہیں کیا گیا، یہی وجہ ہے کہ 26 مئی کے حکم میں عدالت نے کہا کہ اعتماد کو ٹھیس پہنچائی گئی۔عدالت نے پی ٹی آئی کی یقین دہانی پر حکومت کو ہدایت دی تھی، وکلاء کو ایچ نائن گراونڈ میں موجود ہونا چاہیے تھا۔ جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیئے کہ عدالت نے تو پی ٹی آئی قیادت اور کارکنوں کو تحفظ دیا تھا، عدالتی حکم پر حکومت نے رکاوٹیں ہٹا دی تھیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیئے کہ عدالت نے تو پی ٹی آئی قیادت اور کارکنوں کو تحفظ دیا تھا۔عدالتی حکم پر حکومت نے رکاوٹیں ہٹا دی تھیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ گاڑی یا جہاز نہ ہونا صرف بہانے ہیں۔عدالت کو یقین دہانی کروا کر بہانے نہیں کیے جاتے۔پی ٹی آئی نے تو درخواست ہی ایچ نائن گراؤنڈ کی دی تھی۔ایچ نائن سے آگے آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔دو وکلاء کے ذریعے عدالت کو گمراہ کیا گیا۔اپنا قلم آئین کے خلاف استعمال نہیں کرنا چاہتے۔

Facebook Comments

خبریں
مکالمہ پر لگنے والی خبریں دیگر زرائع سے لی جاتی ہیں اور مکمل غیرجانبداری سے شائع کی جاتی ہیں۔ کسی خبر کی غلطی کی نشاندہی فورا ایڈیٹر سے کیجئے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply