لچکدار دماغ (18) ۔ پہلیاں/وہاراامباکر

ملاڈینو کہتے ہیں، “کنیسہ میں خاموشی نہیں ہوتی تھی۔ وعظ بھی جاری رہتا اور لوگوں کی کھسر پھسر۔ کئی بار ربی کو لوگوں کو خاموش کروانا پڑتا۔

ربی سے اس پر بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ “اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ جب عبادت کا وقت ہو تو گپ شپ کی جائے؟ تو میں کہوں کا کہ نہیں۔ آپ عبادت کرنے آئیں ہیں تو اسی طرف توجہ دیں۔ لیکن اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ اگر آپ نے دوستوں سے گپ شپ کرنی ہے تو کیا اس کے لئے کنیسہ آ جایا جائے اور ساتھ عبادت بھی کر لی جائے تو میرا جواب ہے کہ ضرور۔ ہمیں خوشی ہے کہ آپ یہاں پر ہیں”۔
میرے لئے ان کی بات بہت دلچسپ تھی۔ آپ کسی چیز کو کس طریقے سے فریم کرتے ہیں۔ اس کا بہت گہرا اثر آپ کے تجزیے پر ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کو واضح کرنے کیلئے چار پہیلیاں۔ ان کو حل کرنے کیلئے سوچ کے فریم ورک پر توجہ دینا ہو گی۔
ایک شخص کتاب پڑھ رہا ہے کہ بجلی چلی جاتی ہے۔ کمرے میں گھپ اندھیرا ہو گیا ہے لیکن وہ شخص کتاب پڑھنے سے رکتا نہیں۔ کیسے؟ (کتاب الیکٹرانک فارمیٹ میں نہیں یعنی موبائل یا کمپیوٹر وغیرہ پر نہیں، فزیکل شکل میں ہے)۔
ایک جادوگر کہتا ہے کہ وہ ٹیبل ٹینس کی ایک گیند کو پھینکے گا۔ یہ گیند کچھ دور جا کر رک جائے گی اور پھر خود بخود واپس آنا شروع کر دے گی۔ اس دوران گیند کسی چیز سے نہیں ٹکرائے گی، گیند کو نہیں گھمائے گا۔ جادوگر یہ کام کیسے کرے گا؟
دو مائیں اور دو بیٹیاں مچھلی پکڑ رہی ہیں۔ انہوں نے ایک بڑی مچھلی پکڑی، ایک چھوٹی مچھلی پکڑی اور ایک موٹی مچھلی پکڑی۔ کل تین مچھلیاں پکڑی گئیں تھیں۔ یہ کیسے ممکن ہوا کہ ہر خاتون نے اپنی اپنی الگ مچھلی پکڑی تھی؟
بشیراں اور نذیراں ایک ہی دن، ایک ہی مہینے اور ایک ہی سال پیدا ہوئی تھیں۔ ان کی ماں اور باپ ایک ہی تھے لیکن یہ دونوں بہنیں ٹوئن نہیں ہیں؟ کیا یہ ممکن ہے؟

یہ سوال 2015 میں شائع ہونے والے جرنل آف پرابلم سولونگ سے لئے گئے ہیں۔ اوسطا ہر سوال نصف سے کم لوگوں نے حل کیا تھا۔ آپ کتنے سوالات کے جواب دے پائے۔

ان سوالوں کے جواب دینا مشکل کیوں ہوتا ہے؟ کیونکہ یہ پڑھتے وقت ہم اپنے ذہن میں ایک تصویر بنا لتے ہیں۔
ایک شخص کتاب کو گھور رہا ہے
ایک شخص گیند کو میز پر یا زمین پر پھینک رہا ہے۔
چار خواتین کا گروپ ہے
جڑواں بہنوں کا جوڑا ہے۔

ان کے جواب ڈھونڈتے ہوئے ہم سوچ کے اس فریم ورک کا سہارا لیتے ہیں اور جب تک اس فریم ورک تک محدود رہیں، جواب نہیں تلاش کر سکتے۔ کیونکہ ان خیالات سے یہ ایسوسی ایشن ان پہیلیوں کو حل کرنے میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ ان کو حل کرنے کے لئے پہلے سے طے شدہ خیالات کو ایک طرف رکھنا پڑتا ہے۔

ان کو جان بوجھ کر اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ ذہن میں خود بخود ایک غلط تصویر بن جائے جس کو بنانے میں شعوری طور پر غور نہیں کیا گیا۔ ذہن پرانے تجربوں کی بنیاد پر یہ تصویر بنا دیتا ہے۔ اس میں چھپے مفروضات سے ہم آگاہ نہیں ہوتے۔ پہیلیوں کی صورتحال ہماری معلوم کی صورتحال سے تھوڑی مختلف ہہے۔ اس لئے ان کے جواب تک پہنچنے میں دقت ہوتی ہے۔ ان پہلیوں کے ڈیزائن میں مشکل اس چیز کی نہیں جو ہمیں پتہ نہیں بلکہ اس چیز کی ہے جو ہمیں پتا ہے۔ یا پھر ہمارا خیال ہے کہ ہمیں پتا ہے، اگرچہ وہ غلط ہے۔

اس میں پہلی پہیلی کو دیکھیں۔ ہم عام طور پر کسی کو کتاب پڑھتا دیکھتے ہیں تو وہ ورق پر الفاظ کو ہی گھور رہا ہوتا ہے۔ لیکن اس کی ایک ممکنہ صورت اور بھی ہے۔ اس تک پہنچنے کے لئے اس تصویر کو ذہن سے نکالنا پڑتا ہے۔ بزنس، ذاتی زندگی اور سائنس میں کامیابی کا بھی یہی طریقہ ہے۔ ان شعبوں میں بھی بدلتی صورتحال ہمارے ابتدائی مفروضوں کو غلط کر سکتی ہے۔ ان مفروضوں کو جو ہم میں اس قدر رچ بس چکے ہوتے ہیں کہ ہمارے لئے یہ سوچنا ہی دشوار ہوتا ہے کہ یہ بھی غلط ہو سکتے ہیں۔ کامیابی ان کے لئے ہے جو اس چیز کا احساس کر سکیں اور اپنی سمجھ پر نظرثانی کر سکیں۔

ان پہلیوں کے حل یہ ہیں۔
پہلی پہیلی میں پڑحنے والے کو روشنی اس لئے نہیں چاہیے کہ وہ نابینا ہے اور بریل کے ذریعے پڑھ رہا ہے، اس لئے اسے روشنی کے نہ ہونے سے فرق نہیں پڑتا۔
دوسری پہیلی میں جادوگر گیند کو اوپر کی طرف پھینکے گا۔ گریویٹی کی وجہ سے یہ کچھ دور جا کر رک جائے گی اور پلٹ کر آ جائے گی۔
تیسری پہیلی میں دو مائیں اور دو بیٹیاں تین خواتین ہیں۔ ایک لڑکی، اس کی ماں، اور اس کی ماں کی ماں۔
چوتھی پہیلی میں بشیراں اور نذیراں ٹوئن اس لئے نہیں کہ یہ انفارمیشن مکمل نہیں۔ انہی کے ساتھ خیراں بھی پیدا ہوئی تھی۔ یہ ٹرپلٹ ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہم زندگی میں روز کئی طرح کے چیلنج کا سامنا کرتے ہیں۔ ہمیں اکثر معلوم ہوتا ہے کہ اس صورتحال میں کیا کرنا ہے کیونکہ ہم پہلے بھی ان سے گزر چکے ہوتے ہیں۔ کچھ نئے ہوتے ہیں جن کے بارے میں کچھ سوچ کر ہم ان کے حل تک پہنچ سکتے ہیں لیکن کئی چیلنج حل نہیں ہو پاتے۔ ان پہیلیوں کی طرح مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ جس فریم ورک کے تحت ہم کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اس میں ان کے لئے حل موجود ہی نہیں ہوتا۔ حل اس وقت ملتا ہے جب ہم ایک نئی نظر اور نئے زاویے سے مسئلے کو دیکھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب ہم عقل کی فتوحات کی بات کرتے ہیں تو ہماری توجہ تجزیاتی سوچ کی خوبصورتی پر رہتی ہے۔ اس قسم کی سوچ جو طاقتور منطق سے وجود میں آتی ہے۔ ہم بہت کم اس چیز کا اھساس کرتے ہیں کہ جس فریم ورک کے تحت ہم سوچ رہے ہیں، اس کو بدلنے کی اہلیت، اس مسئلے کو ایک الگ ہی رنگ میں دیکھنے کی صلاحیت کس قدر ضروری رہی ہے۔ یہ لچکدار سوچ ہے۔ یہ وہ کام ہے جس کے لئے ایک صلاحیت درکار ہے جو ججمنٹ کی صلاحیت ہے۔ ایک مسئلے کی ایک نئی شکل بنا دینا اور اس کو نیا رنگ دے دینا ۔۔۔۔ یہ وہ کام ہے جو آٹومیٹ نہیں ہو سکتا۔ یہ وہ کام ہے جو مشینیوں کے سپرد نہیں کیا جا سکتا۔ یہ وہ کام ہے جو انسان کے علاوہ دوسرے جانور کرنے میں مشکل محسوس کرتے ہیں۔ مسائل کو لچکدار سوچ کے ذریعے حل کر لینا ۔۔۔ یہ وہ کام ہے، جو انسانوں کی اس دنیا میں مسائل کو حل کرنے کی کنجی رہی ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply