صدف نعیم حادثہ، دھکا دیا گیا یا پاؤں پھسلا؟

پاکستان تحریک انصاف کے لانگ مارچ کے دوران چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے کنٹینر کے نیچے آکر جاں بحق ہونےوالی صحافی صدف نعیم کی موت کیسے ہوئی، انہیں دھکا لگا یا پاوں پھسلا؟ سوشل میڈیا پر قیاس آرائیوں اور افواہوں کا انبارلگ گیا اور جتنے منہ اتنی باتیں ہوتی رہیں۔

کہیں صدف نعیم کی موت کو قتل کہا گیا تو کہیں اسے حادثاتی موت قرار دیا گیا ہے جب کہ بعض جماعتوں کی طرف سے اسے سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی گئی۔

صدف نعیم کی موت پر یہ بھی کہا گیا کہ کنٹینر ڈرائیور کی ڈرائیونگ بے ترتیب تھی جس کے باعث حادثہ پیش آیا اور پی ٹی آئی کا قافلہ انہیں روندتا ہوا آگے چلا گیا۔ بعض جگہ یہ افواہ بھی سامنے آئی کہ صحافیوں کے دھکم پیل کے باعث صدف نعیم کنٹینر کے نیچے جا گریں۔

سوشل میڈیا پر یہ بھی الزام لگایا گیا کہ عمران خان کے سیکیورٹی گارڈ نے صدف نعیم کو دھکا دیا جس کے باعث وہ کنٹینر کے نیچے آکر کچلی گئیں۔ سیکیورٹی گارڈز نے ویڈیو بنانے والے افراد پر بھی تشدد کیا اور کنٹینر روکنے سے انکار کیا۔

حکومت کی جانب سے بھی اس حادثے کو شک کی نظر سے دیکھا گیا،وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ صحافی صدف نعیم کی موت کی تحقیقات کرائی جائیں۔ موقع پر موجود صحافیوں کے انکشافات کے بعد معاملہ مشکوک ہوگیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت کی قانونی ذمہ داری ہے کہ ایک بے گناہ خاتون رپورٹر کی دردناک موت کی تحقیق کرائے۔پنجاب حکومت نے اپنی قانونی اور انسانی ذمہ داری پوری نہ کی تو وفاقی حکومت اپنا قانونی فرض ادا کرے گی۔

تاہم صدف نعیم کے شوہر نے تمام قیاس آرائیوں اور الزامات کو مسترد کرتے ہوئے ان کی موت کو حادثہ قرار دیا ہے۔ کامونکی کے تھانہ صدر میں دائر درخواست میں بھی نعیم بھٹی نے لاش کا پوسٹ مارٹم کرانے سے انکار کیا ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ وہ اہلیہ کی موت پر کسی قسم کی کارروائی نہیں کرنا چاہتے۔ اہلیہ کی آخری لمحات کی ویڈیوز دیکھی ہیں جس کے بعد یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ان کی موت کسی اور شخص کی وجہ سے ہوئی۔ سوشل میڈیا پر موجود قیاس آرائیوں میں کوئی صداقت نہیں۔

لانگ مارچ کی کوریج کرنے والے ہم نیوز کے نمائندے میاں شعیب کے مطابق رپورٹرز کو مرحلہ وار کنیٹنر پر بلایا جاتا تھا اور انہیں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان اور دیگر رہنماؤں سے انٹرویوز کرنے کا موقع دیا جاتا۔

لانگ مارچ کے پہلے دن صدف نعیم نے کنیٹرز پر انٹرویوز کیے اور تیسرے روز پھر اسی تگ و دو میں تھیں کہ کسی طرح کنٹینر پر چڑھنے میں کامیاب ہو سکیں۔

سادھوکی کے قریب صدف نعیم مسلسل کنٹینر کے ساتھ بھاگتی رہی، اس دوران سیکورٹی گارڈز بھی ساتھ ساتھ چلتے رہے۔

میاں شعیب نے بتایا کہ وہ بھی اپنی باری کے وقت کنیٹنر کے ساتھ ساتھ چلتے تھے، اس دوران کنیٹنر اور سڑک کے درمیان موجود ڈیوائیڈر میں زیادہ فاصلہ نہیں ہوتا تھا اور ان کا پاوں ٹائر کے ساتھ بھی لگ جاتا اور وہ ایک بار زخمی بھی ہوئے۔

عینی شاہدین کے مطابق حادثے کے وقت زیادہ دھکم پیل نہیں تھی اور زیادہ امکان ہے کہ صدف نعیم کا پاوں پھسلا جس کے باعث وہ منہ کے بل گر پڑیں اور کنیٹنر کے پچھلے ٹائروں نے انہیں کچل دیا۔

میاں شعیب نے صدف نعیم کے شوہر کے جاری کردہ بیان کہ وہ ڈیوائیڈر کے اوپر تھیں اور گر پڑیں کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ صدف نعیم کا ڈیوائیڈر پر چڑھنا ناممکن تھا۔

میاں شعیب نے موقف اپنایا کہ وہ ایک دراز قد شخص ہیں اور ان کے لیے بھی ڈیوائیڈر پر چڑھنا ممکن نہیں تھا اور دوسرا اس پر اتنی جگہ نہیں کہ کوئی شخص چل سکے۔

حادثے کے وقت چیئرمین تحریک انصاف عمران خان ایک نجی چینل کو انٹرویو دے رہے تھے کہ اچانک کنیٹنر رک گیا، انہوں نے دریافت کیا کہ کیا ہوا؟ جس پر انہیں حادثے بارے آگاہ کیا گیا۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کنیٹنر پر چڑھنے کے لیے دروازہ دائیں جانب رکھا گیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

واضح رہے کہ صدف نعیم کی موت اس وقت ہوئی جب وہ تحریک انصاف کے لانگ مارچ کی کوریج کر رہی تھیں۔ اتوار اور پیر کی درمیانی شب کی ان کی نماز جنازہ لاہور کے علاقے اچھرہ میں ادا کی گئی اور انہیں میانی قبرستان سپرد خاک کیا گیا ۔ انہوں نے سوگواران میں ایک بیٹے اور ایک بیٹی کو چھوڑا ہے۔

Facebook Comments

خبریں
مکالمہ پر لگنے والی خبریں دیگر زرائع سے لی جاتی ہیں اور مکمل غیرجانبداری سے شائع کی جاتی ہیں۔ کسی خبر کی غلطی کی نشاندہی فورا ایڈیٹر سے کیجئے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply