ووٹ

ووٹ
حمزہ حنیف مُساعد
ووٹ کی طاقت کے قصے تو ہم نے بھی بہت سنے ہیں اور آپ بھی ضرور واقف ہونگے ۔ لیکن اپنے ملک میں تو اس طاقت کو بھی ایسا دبادیا گیا ہے کہ خود جو یہ طاقت رکھنے والا ہے ۔ وہ بھی اپنی اس طاقت سے نا بلد ہے۔جیسے اس ملک میں قوم کی باقی صلاحیتوں کو اس کی اس سرزمین پر آنکھ کھلنے کے بعد دبانا شروع کردیا جاتا ہے۔ اسی طرح اس طاقت کواس قدر دبایا گیا ہے کہ بے چارے عوام کے پاس رہی ہی نہیں۔ البتہ وقتِ ضرورت اسے اپنے حق میں استعمال میں لانے والے ، قوم کو اس طاقت کے بارے میں صرف اتنی ہی آگہی دیتے ہیں کہ جب بھی انہیں ضرورت ہو تو وہ بلا ،چوں چرا کہ اس کے حقدار ٹھہریں۔
یہ جو آپ کے ووٹ کے صحیح حقدار ہیں۔انہیں کبھی نا اپنے بارے میں بتانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ نا اپنا نظریہ، نا اپنی سوچ ، نا کوئی پروگرام، نا ہی کوئی مستقبل کا نقشہ بتانے کی ضرورت ہے کہ وہ اگر منتخب ہو بھی گئے تو آپ کے لیے آسمان سےکون سے چاند تارے توڑ کر لائینگے یا آپ اور آپ کے بچوں کی زندگی میں کوئی تبدیلی بھی لائینگے کہ نہیں۔ انہیں تو آپ کا ووٹ صرف کسی نعرے اور تصویر کے بنیاد پر چاہیئے ہوتا ہے۔
انہوں نےکبھی بھٹو کی تصویر آگےکی تو کبھی بے نظیر کی، کبھی نوازشریف اس قوم کے نجات دہندہ بنے ۔تو اب اپنے عمران خان کی شکل میں آپ کو تبدیلی کا خواب دکھایا جار ہا ہے۔ رہے اپنے بھائی صاحب ان کی تصویر تو بھائی لوگوں کانیند میں بھی پیچھا نہیں چھوڑتی۔یہ تصویر ہی ہے جس کو لوگ ووٹ دیدیتے ہیں ۔ باقی نا پارٹیوں نے کوئی پروگرام دینا ہے اور ناہی عوام نےاپنے ووٹ کی طاقت کوکسی پروگرام یا مقصد کے لیے استعمال کرنا ہے۔ جو بھی ووٹ مانگنے نکلتا ہے اپنے گلے میں کسی نا کسی کی تصویر لٹکا دیتا ہے اور ووٹ کا حقدار بن جاتا ہے۔
اور یہ ووٹ مانگنے والے اپنے گلے کی تصویر بھی بدلتےرہتے ہیں، کل جس نے گلے میں لٹکی تصویر کے بل بوتے پر آپ کا ووٹ لیا تھا، آج اس نے گلے میں اور تصویر لٹکائی ہوئی ہے۔ انہیں صرف معلوم ہوجائے کہ آجکل عوام کے دلوں پر کون سی تصویر راج کر رہی ہے ۔ اسی کو گلے میں لٹکائے نکل پڑتے ہیں۔ ویسے ان سے یہ بھی بعید نہیں کہ آپ کے ووٹ سے منتخب ہونے کے بعد بھی اگر وزارت کی امید مدھم پڑتی دکھائی دے تو منتخب ہونے کے بعد بھی گلے کی تصویر بدلنے میں دیر نہیں لگاتے۔
ووٹ کسے دیا جائے:۔
ووٹ جیسی امانت کا حق ہے کہ اسے اسکے میرٹ پہ کاسٹ کیا جائے۔ووٹ دیتے ہوئے فرض ہے پاکستان اور اس حلقے کے جہاں انتخاب ہورہا ہے مفاد کو مقدم رکھاجائے۔پاکستان کو اسٹیٹس کو کی ضرورت ہے یا عام آدمی کی۔یہ خیال رکھا جائے کہ ووٹ اسے دیں جو دوبارہ پانچ سال کے بعد نہیں بلکہ آپ کو اپکی ضرورت کے وقت میسر ہو۔جو تعلیم یافتہ ہو جس کی سوچ تعلیم یافتہ ہو۔جو ہماری آپکی نسلوں کی ترقی کا ضامن ہو۔ووٹ دیتے ہوئے پاکستان کے مفاد کو فوقیت دی جائے کیونکہ ملکی پالیسی آپکے ووٹ کے نتیجے میں پارلیمنٹ میں تشکیل دی جاتی ہے۔ انتہا پسندوں کی سیاست کو ووٹ دینے کے بعد اعتدال و بھائی چارے کی فضاءکا متلاشی بننا پاگل پن ہی کہلایا جائے گا۔اس لیئے ووٹ دیتے ہوئے سوچیں کہ ان کو ووٹ دیا جائے جنہوں نے ارض پاک و افواج پاک کی توہین کی یا انہیں جنہوں نے پاکستان زندہ آباد کے نعرے لگائے اور افواج پاکستان کیلئے پنڈال سجائے۔انہیں ووٹ دیا جائے جو ہمارے بچوں کو اپنے مفادات کی جنگ میں جھوکیں جو پاکستان جیسے ملک میں بھی قتال کا درس دیں یا انہیں ووٹ دیا جائے جو روشن خیالی و برداشت کا درس دیں۔ انہیں ووٹ دیا جائے جواپنے بچوں کو تو آکسفورڈ میں پڑھائیں یا انہیں جن کے بچے ہمارے بچوں کے ساتھ اسکولوں میں پڑھیں۔ گر کراچی کو کراچی کرنا ہے تو ووٹ دیتے ہوئے دھیان رہے کہ کہیں ووٹ انہیں نہ پڑ جائے جو ضرب عضب کی مخالفت کرتے رہے اور ہمارے بچوں کے قاتلوں کے یار رہے۔ووٹ انہیں دیا جائے جو کرمنل کارکن کو دہشت گرد و کسی بمبار کو اپنا بچہ یا ناراض بچہ کہ کر پالنے کی سعی کرتے رہے یا انہیں جو کرمنلائزیشن کے فروغ کی نشاندہی کرتے رہے۔انہیں جو طالبانائزیشن کے حامی ہیں یا انہیں جو ان ظالموں کے ہاتھوں شہید ہونے والوں کے لواحقین ہیں۔
ووٹ دیتے ہوئے ذہن میں رکھیں کہ کس نے الیکشن کیلئے موقف بدلا ہےکس نے نہیں تاکہ مفادات کی سیاست کا پردہ چاک ہو۔ خیال رہے کہ آپ جسے ووٹ دیں وہ اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کو لازمی رکھے کیونکہ پاکستانی جمہوریت میں اراکین ایوان بالاء چار چار مہینے بھی غیر حاضر رہے جس سے کہ عوامی ووٹ کی توہین ہوئی۔اور ایسے اراکین ہر دور میں رہے ہیں۔ ووٹ کسی کو بھی دیں لیکن آپ کا ووٹ پاکستان اور آپکی اپنی تقدیر ہوگا جو آپ اپنے ہاتھ سے لکھیں گے۔ووٹ اس سنی کو دیں جو شیعہ جلوسوں کے گرد ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کے حفاظتی حصار بنائے نہ کہ کہیں ووٹ انہیں پڑے جن کے خوف کی بدولت آج کراچی کے گلی کوچے میلاد مصطفی ﷺ کو ترس رہیں ہیں۔ یقینی بنائیں کہ ووٹ ان کو پڑے جو مسجدوں کیساتھ کیساتھ امام بارگاہوں جماعت خانوں گرجاگروں و مندروں کے محافظ بنیں نہ کہ وہ جو گرجا گھروں کو مندروں کو اور مخالف مسلک کی مسجد کو بھی جلادیں۔
اس پاکستان کو اعتدال پسندی و روشن خیالی کی جتنی ضرورت آج ہے اس سے پہلے کبھی نہ تھی۔ آج اعتدال پسند و روشن خیال مسلمان قیادت کی ضرورت ہے نہ کہ ایسوں کی جن کی وجہ سے اللہ کے پیارے دین کا آج چہرہ مسخ ہورہا ہے۔ ووٹ کا حقدار وہ ہے جو ماں بہن بیٹی کے تقدس کا خیال رکھے ووٹ دیتے ہوئے خیال رہے کہ ووٹ بچوں کے تحفظ کو پڑے تقدیس دختر کو پڑے حرمت اجداد کو پڑے۔ووٹ ان کو پڑے جو آرمی پبلک اسکول کے بچوں کو شہید مانیں نہ کہ حکیم اللہ محسود کو۔۔ ووٹ انہیں دیں جن کے بنائے ہسپتال و یونیورسٹیاں عام آدمی کیلئے افورڈیبل ہوں عام آدمی کی دسترس میں ہوں نہ کہ جن کے اداروں کی فیسیں تک قابل استطاعت نہ ہوں۔ ووٹ اپنے جیسے عام آدمی کو پڑے کیونکہ پاکستان کا عام آدمی ہی اٹھانوے فیصد ہے۔اور ارض پاک کی ترقی کی ضمانت بھی اسی ۹۸فیصد کا بااختیار ہوناہے۔ ایم کیو ایم ،تحریک انصاف جماعت اسلامی میں سے جو جماعت اور اسکا امیدوار آپ کو اس معیار پہ پورا اترتا ملے ووٹ اسے دیں۔ میرا ذاتی تجزیہ،یہ ہے کہ اس حلقے میں ووٹ لفظ مہاجر کو پڑے گا چاہے کسی کو بھی پڑے کیونکہ تبدیلی تو آگئی کہ خان صاحب آدھے مہاجر ہونے کا اعلان کرچکے ہیں اور آج جماعت اسلامی کے امیدوار نےاپنے تعارف کے دوران میں جماعتی مہاجر ہوں کہہ کر کرایا اور اسی سے ملتا جلتا سوشل میڈیا ٹرینڈ بھی چل رہا ہے۔عجب سی بات ہےجب ووٹ ڈالنا بھی مہاجر کو ہے اور مانگنے والے بھی مہاجر کے نام پہ ووٹ مانگ رہے ہیں تو یقینا ًآدھے مہاجر یا جماعتی مہاجر کو ووٹ کیوں پڑے۔ کیونکہ ووٹر کو تو کوئی تبدیلی ہی نہیں ملی۔ یہاں جلسے سجانے والے رہنما ایف بی ایریا و لیاقت آباد کے ووٹر کو سندھی پاکستانی نہ کہہ سکے نہ کہلواپائے بلکہ خود ہی مہاجر بن گئے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے حساب سےآدھے مہاجرازم کو جنرل الیکشن جتنے آدھے ووٹ بھی پڑتے فی الحال تو نظر نہیں آرہےآگے اللہ جانے۔

Facebook Comments

حمزہ حنیف مساعد
مکالمے پر یقین رکهنے والا ایک عام سا انسان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply