انسان کے روپ میں فرشتہ/ثاقب لقمان قریشی

معذور خواتین ملک کی آبادی کا دس فیصد حصّہ ہیں اور شاید معاشرے کا سب سے زیادہ پسا ہُوا طبقہ بھی۔ وطن ِ عزیز کی چند معذور خواتین نے دنیا میں بہت نام کمایا ہے۔ بڑے بڑے عالمی اعزاز اپنے نام کرکے ملک کا نام بھی دنیا بھر میں روشن کیا ہے۔ میں نے 2019ء سے معذور افراد کے انٹرویوز کا ایک سلسلہ شروع کیا۔ میں معذور لڑکیوں کو لڑکوں کے مقابلے میں زیادہ مظلوم سمجھتا تھا اس لیے میری خواہش ہوتی تھی کہ معذور لڑکیوں کے مسائل پر زیادہ سے زیادہ لکھا جائے۔

میں نے خیبر سے لے کر بلوچستان تک ایک سو تیس کے لگ بھگ خصوصی افراد کے انٹرویوز کیے، جن میں زیادہ تر انٹرویوز خصوصی لڑکیوں کے تھے۔ میں نے زیادہ تر ایسی لڑکیوں کے انٹرویوز کیے جو شاید زندگی میں پہلی بار انٹرویو دے رہی تھیں۔ میرے انٹرویوز سے بہت سی نئی لڑکیوں کو سامنے آنے کا موقع ملا۔ معذور خواتین کے حقوق کی تحریک میں آج جتنی بھی جان ہے اسکی اہم ترین وجہ میرے انٹرویوز ہیں۔ عالمی شہرت یافتہ معذور لڑکیوں کی خواہش ہوتی ہے کہ معذور افراد کے حقوق پر جب بھی بات ہو تو انہی سے ہو۔ ایوارڈ کی جب بھی بات ہو تو صرف انہی کا نام لیا جائے۔ اس لیے انھوں نے کبھی کسی نئی لڑکی کو پروموٹ نہیں کیا۔ مشہور معذور خواتین ہر قابل معذور لڑکی کا نا  صرف راستہ روکتی ہیں ۔ بلکہ انکی آپس میں بھی جنگ چلتی رہتی ہے۔

ان مشہور معذور خواتین کے ہوتے ہوئے میں عام گھرانوں کی معذور لڑکیوں کے ٹیلنٹ کو سامنے لانا چاہتا تھا۔ کام مشکل تھا لیکن نیت صاف تھی۔ اپنی جاننے والی چند لڑکیوں کے انٹرویوز کیے۔ اس کے بعد سلسلہ رُک گیا۔ پھر اللہ تعا  لیٰ  نے انسان کے روپ میں ایک فرشتے کو مجھ سے ملا دیا۔ اس فرشتے کا نام ثناء ایوب تھا۔

ثناء ایوب کا انٹرویو میں نے 2019ء میں کیا تھا۔ ثناء لاہور شہر سے تعلق رکھتی تھیں۔ سپیشل ایجوکیشن اور ٹیکسٹائل ڈیزائننگ میں ماسٹرز تھیں۔ پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن میں بطور ایڈمن آفیسر کام کر رہی تھیں۔ ثناء نے ہمیں بتایا کہ یہ چھ بہن بھائی ہیں۔ جن میں سے تین معذوری کا شکار ہیں۔ والدین نے تینوں خصوصی بچوں کی تعلیم پر خاص توجہ دی ہے۔ ثناء سے بڑی بہن سائرہ ایوب لیکچرار ہیں۔ کچھ عرصہ قبل آسٹریلیا سے ڈگری کر کے آئیں ہیں۔ ایک کتاب کی مصنفہ اور کالم نویس ہیں۔

ثناء نے نو سال کی عمر تک نارمل بچوں والی زندگی گزاری۔ پھر چلتے چلتے گرنے لگیں۔ ابتداء میں ڈاکٹرز نے بیماری کو پٹھوں کی کمزوری قرار دیا۔ تشخیص کے بعد ثناء کی بیماری کو مسکولر ڈسٹرافی قرار دیا۔ ابتدائی تعلیم سپیشل ایجوکیشن کے سکول سے حاصل کی۔ خصوصی تعلیمی اداروں کے کم تر تعلیمی معیار کو دیکھتے ہوئے والد صاحب نے ثناء کو نارمل سکول سے پڑھانے کو فیصلہ کیا۔ کچھ مشکلات کے باوجود ثناء نے اپنی ساری تعلیم نارمل افراد کے سکول، کالج اور یونیورسٹی سے مکمل کی۔

تعلیم مکمل کرنے بعد نوکری کی تلاش شروع کی تو ہر جگہ ایک ہی طرح کی باتیں سننے کو ملتیں، کہ آپ دفتر کیسے آیا کریں گی، ہمارے پاس کام بہت ہے آپ نہیں کر پائیں گی، ہمارے دفتر میں خصوصی افراد کیلئے جگہ نہیں ہے، گھر کے نزدیک کوئی کام کیوں نہیں دیکھتیں، آپ کو گھر میں بچوں کو ٹیوشن پڑھانی چاہیے، سوری، معذرت کے ساتھ وغیرہ۔

پھر خدا کا کرنا ہوا کہ ثناء سرکاری نوکری حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئیں۔ ثناء کا دفتر قابل رسائی نہ تھا۔ دفتر تک پہنچنے کیلئے چار سیڑھیاں چڑھنا پڑتی تھیں جو کہ ویل چیئر استعمال کرنے والی خاتون کیلئے ممکن نہ تھا۔ ڈیرھ سال کی کوششوں کے بعد ثناء کیلئے ریمپ بنوائی گئی۔ ثناء ہینڈی کرافٹ کا بزنس بھی کرتی تھیں۔ ثناء کہتی تھیں کہ نوکری سے زیادہ پیسے وہ بزنس سے کما لیتی ہیں۔

نوکری کے حصول کے بعد ثناء کے دل میں اپنی جیسی دوسری خواتین کی خدمت کا جذبہ جاگا اور انھوں نے “ایمپاور ویلفیئر فاؤنڈیشن” کے نام سے ایک این-جی-او قائم کی۔ امپاور ویلفیئر مختلف ٹریننگز اور کورسز کے ذریعے معذوری کے ساتھ پروقار زندگی گزارنے کے طریقے سکھاتی تھی۔ خواتین کو مختلف قسم کے ہنر سکھانے کا اہتمام بھی کیا جاتا تھا۔ ہاتھ سے بنی اشیا کو آن لائن اور نمائشوں کے ذریعے فروخت کرنے کا اہتمام کیا جاتا تھا۔

ثناء نہایت ملنسار تھیں سینکڑوں معذور لڑکیاں ان سے رابطے میں رہتی تھیں۔ لڑکیاں ان سے اپنے مسائل شیئر کرتیں اور یہ ان مسائل کا حل تلاش کرنے میں لگ جاتیں۔

تین سال قبل میں نے ثناء کا انٹرویو کیا اس کے بعد ثناء میری دوست بن گئیں۔ میں نے ثناء سے کہا معذور لڑکیوں کے مسائل لڑکوں سے کہیں زیادہ ہیں۔ پھر معذور خواتین کے حقوق پر لکھا بھی نہیں گیا اس وجہ سے لوگ معذور خواتین کے مسائل سے ناواقف ہیں۔ میں معذور خواتین کی آواز بننا چاہتا ہوں۔ مجھے ایسی معذور خواتین کے نمبرز چاہییں جن کے آج سے پہلے انٹرویوز نہ ہوئے ہوں۔

ثناء لڑکیوں سے بات کرتیں انھیں انٹرویو کیلئے راضی کرکے انکا نمبر مجھے دیتیں۔ میں جس نئی لڑکی سے بات کرتا وہ مجھے کہتی کہ میں نے زندگی میں کوئی ایسا کام نہیں کیا کہ میرا انٹرویو لیا جائے۔ میں ہر نئی لڑکی سے کہتا کہ کیا ہم تھوڑی دیر بات کرسکتے ہیں۔ بات کرنے کے بعد جب میں اسے اسکی خوبیوں کے بارے میں بتاتا تو وہ حیران رہ جاتی۔ پھر میں لڑکیوں کو ایک سوال نامہ لکھ کر ارسال کر دیتا۔ جو لڑکیاں لکھ کر جواب دیتیں وہ ایک ہی لائن میں بات ختم کر دیتیں۔ اس لیے میں ان سے کہتا کہ وائس نوٹ میں جواب دیا کریں۔ میں جس لڑکی کا انٹرویو کرتا تھا اس ہفتے ہمارے گھر میں اسی کی سٹوری پر بات ہوا کرتی۔ میں والدہ کے کمرے میں جاتا تو دیکھتا کہ وہ میری بیگم کے ساتھ معذور لڑکیوں کے مسائل پر بات کر رہی ہوتیں۔ بعض لڑکیوں کی زندگی میں اتنا درد ہوتا کہ میں لکھتے لکھتے رونے لگ جاتا تھا۔

خیر ثناء اور میں نے نئی لڑکیوں کی تلاش کا یہ سفر شروع کیا۔ کشمیر، گلگت، خیبرپختون خوا  سے لے کر بلوچستان، پنجاب اور سندھ کی بہت سی نئی لڑکیوں کے انٹرویوز کیے۔ ہم جس لڑکی کا انٹرویو لیتے اسکی شہرت کو چار چاند لگ جاتے۔ کچھ لڑکیاں اتنی مشہور ہوئیں  کہ اکثر میڈیا کے مختلف شوز میں انھیں مدعو کیا جاتا ہے۔ یہی ہماری سب سے بڑی کامیابی ہے۔

میں نے معذور لڑکیوں کے صرف انٹرویوز ہی نہیں کیے بلکہ میں انھیں انکی تعلیم اور تجربے کی مناسبت سے مختلف لوگوں سے رابطہ بھی کروا دیتا تھا۔ جس لڑکی کو نوکری کی ضرورت ہوتی اسکی نوکری کی بھر پور کوشش کرتا۔ جسے علاج کی ضرورت ہوتی اسکا بہترین ڈاکٹر سے رابطہ کروا دیتا۔ کچھ لڑکیوں کے کام الیکٹرک ویل چیئرز کی وجہ سے رُکے ہوئے تھے اپنی جاننے والی تنظیموں سے رابطہ کرکے انھیں الیکٹرک ویل چیئرز دلوائیں۔ جنھیں موٹیویشن کی ضرورت ہوتی انھیں موٹیویش فراہم کرتا۔ معذور افراد میں کھیلوں اور فری لانسنگ کے فروغ میں بھی میرا کردار اہم رہا ہے جو کسی اور تحریر میں بیان کرونگا۔

پچھلے سال بائیس اکتوبر کو ثناء اپنی ویل چیئر چارج پر لگا کر سوئیں۔ شارٹ سرکٹ کی وجہ سے ویل چیئر کو آگ لگ گئی۔ آگ نے پورے کمرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ثناء کو بچانے کیلئے بھائی آگ میں کود پڑے۔ بزرگ والد اور والدہ نے بھی آگ بجھانے کی بڑی کوشش کی لیکن ثناء اور انکے بھائی شہید ہوگئے۔ جبکہ والدین شدید زخمی ہوئے۔

ثناء کی شہادت کی خبر معذور افراد کے حلقوں میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ مجھے ثناء کی بہت سی دوستوں کے فون آئے۔ جنھوں نے بتایا کہ وہ اپنی زندگی کا ہر مسئلہ ثناء سے شیئر کرتیں اور ثناء مسئلے کا حل نکال کر دیتیں۔ ثناء کی شہادت کو سال بیت چکا ہے لیکن آج بھی ان سے پیار کرنے والے انکے انٹریوز اور تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کرتے رہتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

معذور لڑکیوں کے انٹریوز کا یہ سلسلہ ثناء کی وجہ سے جاری تھا۔ جسے ثناء کی وفات کے بعد میں چاہتے ہوئے بھی جاری نہ رکھ سکا۔ معذور خواتین کے حوالے سے آج جتنی بھی آگہی پائی جاتی ہے اس میں ثناء کا کردار کسی بھی عالمی ایوارڈ یافتہ لڑکی سے کہیں زیادہ ہے۔ ثناء کی وجہ سے نئے لیڈرز کو سامنے آنے کا موقع ملا۔ چند روز قبل سائرہ ایوب سے میری بات ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ انکا پورا خاندان شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہے۔ ثناء کی وفات کے بعد سائرہ قلم کو ہاتھ نہیں لگا پائیں۔ اللہ تعالیٰ  ثناء اور انکے بھائی کو جنت الفردوس میں اعلیٰ  مقام عطا فرمائے اور انکے گھر والوں کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply