لچکدار دماغ (15) ۔ کیڑوں کا دماغ اور دماغ کے کیڑے/وہاراامباکر

چیونٹی، بِھڑ، دیمک یا شہد کی مکھی سماجی کیڑے کہلاتے ہیں اور یہ دنیا کے سب سے کامیاب کیڑے ہیں۔ اگرچہ یہ انواع کا محض دو فیصد ہی لیکن بائیوماس کے لحاظ سے کیڑوں کا نصف حصہ ان پر مشتمل ہے۔ اگرچہ ان میں سے ایک کیڑا انسان کے سائز کا ایک لاکھواں حصہ ہے لیکن اگر ایک ترازو میں ایک طرف دنیا کی تمام چیونٹیاں رکھی جائیں اور دوسرے پلڑے میں دنیا کے تمام انسان تو دونوں کا وزن برابر نکلے گا۔

سماجی کیڑا کہنا بس ایک اصطلاح ہے کیونکہ ان کو اپنے ساتھیوں کی ذرا بھی پرواہ نہیں۔ ان کی کوئی دوستی نہیں یا ایک دوسرے کے ساتھ ملکر رات کو ڈبل روٹی کے ذروں پر ضیافت نہیں اڑاتے، نہ ہی ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارنا پسند کرتے ہیں۔ ایک چیونٹی اپنی جبلتوں کے سکرپٹ پر کام کرتی ہے۔ جب یہ سب کیڑے مل کر گروہ کی شکل اختیار کرتے ہیں تو پھر اس انفارمیشن کی پراسسنگ کے نئے طریقے سامنے آتے ہیں۔ انفرادی طور پر سخت اور سکرپٹ کا پابند۔ اجتماعی طور پر لچکدار۔ بطور گروپ، یہ پیچیدہ نئی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے بدل سکتا ہے، اگرچہ ان میں سے ایک فرد بالکل بھی نہیں۔

اس کی مثال دیکھنے کے لئے: اگر چیونٹیوں کی خوراک کے دستیاب علاقے کی فزیکل سرحد بدل جائے تو یہ خوراک کی تلاش کا طریقہ بدل لیتی ہیں۔ کوئی بھی چیونٹی اس کو کنٹرول نہیں کر رہی، اس کی کوئی مرکزی پلاننگ نہیں ہے۔ لیکن اگر آپ چیونٹی کو دس فٹ بائی دس فٹ کے احاطے میں بند کریں اور پھر یکایک اس کو بیس فٹ بائی فٹ تک بڑھا دیں۔ چیونٹیوں کا یہ گروپ اس انفارمیشن کو پراسس کر لے گا اور ان کا خوراک کی تلاش کا پیٹرن بدل کر اس طرح ہو جائے گا کہ یہ زیادہ علاقے کا فائدہ اٹھا سکیں۔ کسی بھی ایک چیونٹی کو اس کا نہیں پتا لگا، کسی مرکزی کنٹرول سنٹر سے ان کو ہدایات جاری نہیں کی گئیں لیکن اس گروپ کے رویے میں یہ تبدیلی آ گئی۔ یہ ذہین رویہ انفرادی سطح پر چند الگورتھمز کا نتیجہ ہے۔ ہر چیونٹی اپنے اینٹینا کی مدد سے محسوس کرتی ہے، اس کی مدد سے ایک فارمولا اپلائی کرتی ہے، جتنی چیونٹیوں سے ملاپ ہو، اس کے مطابق اپنا راستہ ایڈجسٹ کرتی ہے۔

یہ ایک مثال ہے لیکن اسی طرح چیونٹیاں بغیر مرکزی کنٹرول اور نگرانی کے، بہت سے ذہین کارنامے سرانجام دی سکتی ہیں۔ ان کی افواج شکار پر نکلتی ہیں تو دو لاکھ تک چیونٹیاں بھی اس کا حصہ ہو سکتی ہیں۔ بُننے والی چیونٹیاں اپنے جسموں سے لمبی زنجیریں بناتی ہیں، جس سے بڑے گیپ عبور کئے جا سکتے ہیں۔ پتوں کے کناروں کو کھینچ کر اکٹھا کر کے گھر بنایا جا سکتا ہے۔ پتے کاٹنے والی چیونٹیاں پودوں کے پتوں کے سِروں کو کاٹ کر اس میں اپنے لئے فنگس کے کھیت اگا سکتی ہیں۔ ایریزونا ہارویسٹر چیونٹیاں بارش میں اپنے بِل میں نقصان کی صورت میں اپنا کردار بدل کر کے اس کو مرمت کرنے کا کام پکڑ لیتی ہیں تا کہ یہ جلد ٹھیک ہو سکے۔ یہ سب کسی ایگزیکیٹو کنٹرول، کسی کی ہدایات، منطق، پلاننگ وغیرہ کے بغیر ہوتا ہے۔
مجموعی طور پر یہ کالونیاں اپنے ہم آہنگ اجتماعی رویے کا ایسا مظاہرہ کرتی ہیں کہ اب کئی سائنسدان اس کالونی کو ایک الگ جاندار کے طور پر لیتے ہیں۔ دلچسپ چیز یہ کہ ان کی افزائشِ نسل پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ سٹینفورڈ سے تعلق رکھنے والی سائنسدان ڈیبورا گورڈن کے مطابق، “چیونٹیوں نئی چیونٹیاں پیدا نہیں کرتیں، کالونیاں نئی کالونیاں پیدا کرتی ہیں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کیسے ہوتا ہے؟ ہر سال بالکل ایک ہی دن (کوئی نہیں جانتا کہ کالونی وقت کا یہ حساب کیسے رکھتی ہے) ہر کالونی اڑنے والے نر کیڑوں اور کنواری ملکہ کو بھیجتی ہے جو یہ ملاپ کرتے ہیں۔ پھر تمام نر مر جاتے ہیں۔ جبکہ ملکہ نئی جگہ پر پہنچ جاتی ہے۔ اس کے پر جھڑ جاتے ہیں اور یہ سوراخ کھودتی ہے، اس میں انڈے دیتی ہے اور ایک نئی کالونی شروع۔ پہلی کالونی نے اس نئی کالونی کو جنم دیا۔ یہ کالونی پندرہ سے بیس سال رہے گی۔ ہر سال یہ ملکہ نئے انڈے دیتی رہے گی۔ اس کے لئے وہی سپرم استعمال ہوں گے جو اس نے کالونی بننے سے پہلے والے نر کیڑوں سے اکٹھے حاصل کئے تھے۔ ان میں سے بڑی اکثریت بغیر پر والی مزدور چیونٹیوں کی ہو گی۔ جبکہ چند نئی ملکہ چیونٹیاں ہوں گی۔ کئی نر ہوں گے جن کی زندگی کا واحد کام ملکہ کو انڈوں کے لئے فرٹیلائز کرنا ہے۔

جس طرح یہ کیڑے کام کرتے ہیں، ہمارے لئے اس کا تصور کرنا مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ ہمارا سماجی نظام ایسا نہیں۔ ہمارے ادارے، تنظیمیں اور کارپوریشن کی تنظیم ایک ہائیرارکی والا سٹرکچر ہوتا ہے۔ اس میں کوئی فرد یا چھوٹا گروپ ہدایات جاری کرتا رہتا ہے اور اسے کنٹرول کرتا ہے۔ اس سے نیچے مزید لیول اپنے سے نچلے لیول کو کنٹرول رکھتے ہیں۔ ایک ریاست، ادارہ یا کمپنی جس میں کوئی کنٹرول میں نہ ہو؟ ہم اس کو انارکی کہتے ہیں۔ چیونٹیوں کی ملکہ انسانوں کی ملکہ جیسی نہیں، اس کا کوئی اختیار نہیں، کسی کو کوئی ہدایت نہیں دے سکتی۔ چیونٹیوں کی کالونی چلتی رہتی ہے۔ شاید پانچ لاکھ چیونٹیاں بغیر کسی نگرانی اور منصوبہ بندی کے۔

Advertisements
julia rana solicitors

کسی بھی ایک چیونٹی کے پاس اکٹھی کوئی معلومات نہیں، کہیں کوئی ایک مربوط تصویر نہیں، اور نہ ہی یہ علم کہ مسئلہ کیا ہے جس کو حل کرنا ہے۔ خطروں سے اور مواقع سے بے خبر، اپنی کالونی کے مقصد اور مسائل سے بے خبر۔ جبکہ کالونی مقاصد حاصل کرتی ہے، خطروں کا مقابلہ کرتی ہے، مواقع کا فائدہ اٹھاتی ہے۔ یہ کالونی کی ذہانت کا حصہ ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے دماغ میں ایک نیورون کو ایک نظر سے دیکھا جائے تو ایک سادہ آبجیکٹ ہے (جی، آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں کہ اتنا سادہ بھی نہیں)۔ ہر سیکنڈ میں اس کو اپنے ساتھ جڑے دوسرے نیورونز سے آنے والے ہزاروں الیکٹروکیمیکل سگنل ملتے ہیں۔ جس طرح برقی کمپیوٹر میں صفر اور ایک کا سگنل ہے، ویسا اس میں ایکسائٹ کرے والا اور روکنے والا۔ نیورون اس پر اپنی کوئی ذہانت نہیں لڑاتا۔ آنے والے سگنلز کی جمع تفریق کرتا ہے۔ اگر ایک مختصر مدت میں کُل اِن پُٹ ایک خاص حد سے زیادہ ہے تو یہ فائر ہو جاتا ہے اور اپنا سگنل بھیج دیتا ہے۔ یہ سگنل ایکسائٹ کرنے والا بھی ہو سکتا ہے اور روکنے والا بھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس طرح چیونٹیوں کا اپنا اپنا سکرپٹ ابھر کے ذہین کالونی بن کر پیچیدہ مسائل حل کر دیتا ہے، ویسا ایک اکیلے نیورون کو نہ علم ہے کہ مسئلہ کیا حل ہو رہا ہے، نہ کوئی مکمل معلومات ہے، نہ کوئی تصویر، نہ خطرے سے آگاہی اور نہ مواقع کی خبر۔ بغیر کسی مرکزی کنٹرول کے، ان سے ابھرتی ذہانت، ذہن میں پائے جانے والے خام مال پر کی جانے والی جگالی ہے جس سے ہمیں خیالات سوجھتے ہیں۔ یہ ذہن کی لچکدار سوچ کا طریقہ ہے، اس کے کام کرنے والے طریقوں میں سے ایک اہم طریقہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیورونز کے جنگل اور چیونٹییوں کی کالونی میں ایک بڑا فرق سکیل کا ہے۔ دماغ کے چھیاسی ارب نیورونز کی تعداد چیونٹیوں کی کالونی سے لاکھوں گنا زیادہ ہے۔
لیکن اس کے علاوہ بھی ایک بڑا فرق تنظیم کا ہے۔ اور یہ تنظیم سوچ کا ایک دوسرا طریقہ ممکن کرتی ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply