ویل ڈن سر/طیبہ ضیاء چیمہ

عاشقانِ عمران خان کہتے ہیں کہ ہمارا لیڈر ہمارا مرشد ہے، مقبول ترین ہے، اتنی دنیا اس کے ساتھ ہے، پڑھا لکھا، ایماندار اور صادق و آمین ہے، اس کی مقبولیت اس کے سچے ہونے کا ثبوت ہے وغیرہ وغیرہ۔ شعبدہ بازی زیادہ عرصہ نہیں چل سکتی۔ برین واش شخصیت پرستوں کو تو لیڈر کی ہر بات، ہر ادا با کمال نظر آتی ہے مگر ہوش و حواس والوں کو دو نمبری مکاری کی بو دور سے محسوس ہو جاتی ہے۔

یہ ڈراما بازی نعرہ سونامی، سے شروع ہوئی پھر تبدیلی، نیا پاکستان، دو نہیں ایک پاکستان، ریاست مدینہ، انقلاب، امریکی غلامی سے نجات، اسلامی ٹچ، امپورٹڈ حکومت نا منظور، حقیقی آزادی، جہاد کے نعرے تک آن پہنچی۔ جتنے نعرے اتنے روپ بدلے ہیں اس شخص نے۔ عمران خان ڈھائی مہینے کے ڈی چوک دھرنا سے پہلے تک ٹھیک سیاست کر رہا تھا۔ ڈی چوک ڈھائی مہینے کے دھرنے سے اب تک کا عمران خان جھوٹ اور شعبدہ بازی کی سیاست کھیلتا چلا آرہا ہے۔

نواز شریف کو ڈی چوک دھرنے میں غیر آئینی طریقے سے نکلوایا اور آج تک غیر آئینی کھیل کھیل رہا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کو غیر آئینی اقدامات کے لیے اپنی مقبولیت سے بلیک میل کرتا رہا۔ ارشد شریف کے قتل کے بعد عمران خان کے مزید جھوٹ اور مکاری ناقابل برداشت ہو چکی تھی جس نے فوجی سربراہان کو عوام کی آنکھیں کھولنے کے لیے سکرین پر آنا پڑا۔

ویل ڈن، سر! آپ نے کبھی تصویر تک پبلک نہیں کی مگر اس شخص کا دوغلا پن بے نقاب کرنے کے لیے ٹی وی سکرین پر آنا پڑا۔ ملک کو انتشار سے بچانے کے لیے یہ پریس کانفرنس ناگزیر ہو چکی تھی۔ عمران خان کو کریڈٹ جاتا ہے کہ جھوٹ کو اپنی سیاست کا اس حد تک اوڑنا بچھونا بنا لیا کہ آئی ایس آئی کے سربراہ کو پریس کانفرنس میں آ کر بتانا پڑا کہ اس بندے کی بات پر یقین کرنے سے پہلے تھوڑی سی تحقیق کر لیا کریں۔

عوامی اندھی شخصیت پرستی نے خان کو دیوتا بنا دیا اور خان ایک جادو گرنی کے چلوں کی مار نہیں۔ عاشقان سے گزارش ہے کہ مرشد کی کال پر اندرون بیرون ملک سے سب لبرٹی چوک پہنچیں۔ ایک بھی گھر بیٹھا رہا تو میر جعفر میر صادق سے بھی بڑا منافق ہو گا۔ سوشل میڈیا اور بیرون ممالک بیٹھ کر مرشد سے عشق کرنا آسان ہے، لانگ مارچ میں شریک ہو کر ثبوت دو۔ لندن سے بھی دو پتر ایک بیٹی جہاد میں شمولیت کے لیے لبرٹی چوک لانگ مارچ پرپہنچ رہے ہیں؟ ہوس اقتدار میں عوام کے بچے ہی مرواتے رہو گے یا کبھی اپنی جائز ناجائز اولادوں کو بھی شہادت کا موقع دو گے؟

فوجی سربراہان کی پریس کانفرنس پر جو لوگ تنقید کر رہے ہیں ان کا جواب سربراہ آئی ایس آئی نے ان الفاظ میں خود دے دیا کہ جب ہمارے لوگوں کو جھوٹ کی بنیاد پر تنقید کا نشانہ بنایا جائے تو ہم چپ نہیں رہ سکتے۔ جب اتنی آسانی، فراوانی اور روانی سے جھوٹ بولا جائے کہ ملک میں فساد کا خطرہ ہو تو ایک جانب سے سچ کی طویل خاموشی نہیں رکھی جا سکتی۔

آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے کہا کہ اس میں دو رائے نہیں کہ آپ بنا شواہد کسی کو میر جعفر کہیں تو اس کی مذمت ہونی چاہیے۔ یہ نظریہ کیوں بنایا گیا؟ غدار، نیوٹرل کہنا اس لیے نہیں کہ کسی نے غداری کی یا کسی نے غیر قانونی کام کیا بلکہ اس لیے کہ غیر قانونی کام کرنے سے انکار کیا۔ گزشتہ سال ادارے نے فیصلہ کیا کہ ہم سیاست سے باہر نکل جائیں۔ یہ صرف آرمی چیف کا فیصلہ نہیں تھا۔ اس پر کافی بحث ہوئی، ہم نے یہ فیصلہ ملک کے مفاد میں کیا۔

ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ ہم پر پریشر ڈالا گیا لیکن ہم نے فیصلہ کیا کہ جو بنیادی فیصلہ کیا ہے اس سے نہیں ہٹیں گے۔ جنرل باجوہ چاہتے تو آخری وقت بہت سہولت سے گزار سکتے تھے لیکن انھوں نے ملک کے حق میں، ادارے کے حق میں فیصلہ کیا۔ ان پر، ان کے بچوں پر غلیظ تنقید کی گئی۔ اگر آپ کا دل مطمئن ہے کہ آپ کا آرمی چیف غدار ہے تو ماضی میں ان کی اتنی تعریف کیوں کی گئی اور یہ پیشکش کیوں کی گئی کہ اگر پوری زندگی بھی اس عہدے پر رہنا چاہتے ہیں تو رہ لیں۔ اب بھی آپ چھپ کر ان سے کیوں ملتے ہیں؟

رات کو آپ ہم سے غیر آئینی خواہشات کا اظہار کریں، وہ آپ کا حق ہے، لیکن پھر دن کی روشنی میں جو کہہ رہے ہیں وہ نہ کہیں۔ آپ کی گفتگو میں کھلا تضاد ہے۔ ڈی جی آئی ایس آئی نے اپنی گفتگو کے دوران کہا کہ مارچ کے مہینے میں آرمی چیف کو غیر معینہ مدت کی توسیع کی میرے سامنے پیشکش کی گئی۔ انھوں نے اس کو ٹھکرا دیا۔

انھوں نے دعوی کیا کہ آرمی چیف نے 11 مارچ کو اس وقت کے وزیر اعظم سے خود سائفر کا ذکر کیا جنھوں نے کہا کہ یہ کوئی بڑی بات نہیں۔ ہمارے لیے یہ بڑی بات تھی جب 27 مارچ کو ایک کاغذ لہرایا گیا اور ایک بیانیہ بنایا گیا۔ اس بارے میں کئی حقائق سامنے آ چکے ہیں جنھوں نے اس من گھڑت کہانی کا پول کھول دیا ہے لیکن حکومت کا مقصد سیاسی بیانیہ بنانا تھا۔ پاکستان کے اداروں، لیڈر شپ کو نشانہ بنایا گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہر چیز کو غداری اور رجیم چینج سے لنک کر دیا گیا۔ نیوٹرل کو گالی بنا دیا گیا۔ اس سب کے باوجود ادارے اور آرمی چیف نے تحمل کا ثبوت دیا۔ غدار، نیوٹرل کہنا اس لیے نہیں کہ کسی نے غداری کی یا کسی نے غیر قانونی کام کیا۔ بلکہ اس لیے کہ غیر قانونی کام کرنے سے انکار کیا۔ ہم پاکستان کو ڈی سٹیبلائز کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دیں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply