بانو قدسیہ وفات پاگئیں بانو قدسیہ زندہ رہیں گی

بانو قدسیہ وفات پاگئیں
بانو قدسیہ زندہ رہیں گی
داؤد ظفر ندیم
بہت سے لوگوں کے لئے تو شاید بانو قدسیہ صرف ایک نام ہوں مگر جنہوں نے 80 کے اواخر یا 90 کی دہائی میں لاہور کی ادبی محافل کو دیکھا ہے جنہوں نے کبھی داستان سرائے نام کے گھر کو دیکھا ہے یا اندر جا کر مکینوں سے ملاقات کی ہے کسی محفل میں ان میاں بیوی سے ملاقات کی ہے وہ کیسے ان کو بھول سکتے ہیں
یوں تو بانو قدسیہ کی کسی بھی تحریر کو پڑھنے والا ان کو فراموش نہیں کر سکتا مگر جس نے راجہ گدھ کو پڑھا ہو، لارنس گارڈن میں سیر کرتے، سردیوں کی شاموں میں لارنس روڈ یا مال روڈ سے چہل قدمی کرتے لارنس گارڈن میں آتے ان جگہوں پر وقت گزارا ہو جہاں اس ناول کے مرکزی کرداروں نے گزارا تھا تو آپ میں ایک عجیب سی کیفیت پیدا ہوتی ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

بانو قدسیہ کا ناول ’’راجہ گدھ‘‘ صرف محبت میں ناکامی کا المیہ اور انسان کی ناآسودہ آرزوں کے نتیجے میں جنم لینے والی کیفیات کا خوبصورت اظہارنہیں ہے بلکہ یہ ایک مباحثہ بھی ہے جو انسانی نفسیات پر ہونے والی ان کیفیات کا احاطہ کرتا ہے جو حرام رزق کی وجہ سے انسان پر اور اس کی آنے والی نسلوں پر طاری ہوتی ہیں ان میں سے دیوانگی بھی ایک کیفیت ۔
راجہ گدھ کا مرکزی خیال اپنے سماج کی غالب فکر کا عکاس ہے۔
ناول کا مرکزی کردار قیوم کمال مہارت سے ناول کو آگے بڑھاتا ہے یہ دوسرے کرداروں کی کیفیات و احساسات کی ترجمانی اپنے حوالے سے ہی کرتا ہے
قیوم کا کردار ایک خاص معونیت رکھتا ہے یہی پورے ناول میں تمام واقعات اور تمام کرداروں کو کبھی خود کلامی اور کبھی اپنی حرکات کے ذریعے آگے بڑھاتا ہے
اس ناول میں انسانی کرداروں کے ساتھ ساتھ بہت بامعنی کردار پرندوں کے ہیں
اس ناول کا مرکزی خیال سرشت سے جڑا ہوا ہے، سرشت سے متعلق بحث یہ جاننے کی کوشش ہے کہ انسان کس حد تک کوئی اچھا یا برا عمل کرنے میں مختار ہے یا مجبور ہے
اس حوالے سے بانو قدسیہ نے پرندوں کی دنیا کا سہارا لیا ہے جو گدھ کے دیوانے پن کو اس کے مردار کھانے کا نتیجہ سمجھتے ہیں اور انسانوں کے مماثل قرار دیتے ہوئے، جنگل سے اس لیے نکال دینا چاہتے ہیں کہ گدھ کے مردار کھانے کا عمل درحقیقت محنت سے جی چرانے کا نتیجہ اور رزق کے حصول کا ایسا آسان ذریعہ ہے جو انسانوں ہی کی طرح گدھ نے شعوری طور پر اپنایا ہے۔
لہذا گدھ کا دیوانہ پن اس کی شعوری سرگرمی کے نتیجے میں مردار کھانے کی وجہ سے ہے اور یہ بھی انسانوں ہی کی طرح ان کی اپنی جنگل کی دنیا کے لیے تباہی کا باعث بنے گا بالکل اسی طرح جس طرح انسان عالمی جنگیں برپا کر کے اپنی دنیا کو تباہ کر ڈالا۔
اس ناول کو پڑھتے ہوئے اور راجہ گدھ کے کردار کو پڑھتے ہوئے اگر پاکستان کے کچھ سیاست دانوں کا خیال آجائے تو یہ بات مدنطر رکھے کہ یہ ناول آج سے کئی دہائی قبل لکھا گیا تھا

Facebook Comments

دائود ظفر ندیم
برداشت اور محبت میرا تعارف ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply