دعوے تو آپکے ہیں/حسان عالمگیر عباسی

ارشد شریف کا دکھ ابھی تک محسوس ہو رہا ہے۔ دھیمی مسکراہٹ لیے میٹھا میٹھا گھن گرجدار بول لیتا تھا یار!

خیر

اعلی ٰحکام کہہ رہے ہیں کہ پس پردہ کیوں ملتے ہیں؟ بھئی ہمارا مطلب جمہوریت پسندوں کا تو یہی معمول ہے۔ ہم اسی کلچر کے عادی ہیں۔ عادی مجرم کہہ لیں۔ کام پڑتا ہے تو مجبوراً کر لیتے ہیں۔ کرنا پڑتا ہے۔ ہم اتنے مہذب بھی نہیں ہیں کہ آئین کے تقدس کو سمجھیں۔ شروع سے ہی ایسے ہیں۔ ہماری تربیت کی ضرورت ہی کسی نے محسوس نہیں کی۔ ماحول ہی نہیں دیا گیا۔ ہم کمزور ہیں۔ دعوے تو آپ کے ہیں۔ آپ بار بار کہتے ہیں کہ ہمیں سیاست میں گھسیٹا جاتا ہے۔ ہم آئین کا حلف لیتے ہیں۔ ہم اے پولیٹیکل ہیں۔ ہم صرف سرحدوں کے محافظ ہیں وغیرہ وغیرہ۔ آپ پس پردہ ملاقات نہ کریں۔ شوق آپ کو بھی ہوتا ہے تاکہ وڈے نکے چودھریوں کی گھن گرج کی بجائے ٹھنی رہے اور کاروبار چلتا رہے۔ میڈیا جس کی زبان ہی نہیں بند ہوتی وہ بھی آپ سے ڈرتا ہے اور آپ کے خلاف خاموشی اختیار کیے رہتا ہے۔

ویسے۔۔۔

یونہی اگر رہا تو خوف نہیں رہے گا۔ اچھا ہے کم از کم سب ایک ہی تالاب سے پانی تو پی سکیں گے۔ تنقید کی اجازت تو مل گئی ہے البتہ الزام تراشیاں ابھی ناقابل برداشت ہیں۔ رفتہ رفتہ سب قومی دھارے میں شامل ہو جائیں گے۔

ہمیں سیاست دان بھی تو اچھے نہیں ملے۔ ایک زمانہ تھا جب حکمران جماعت کا ووٹ کو عزت دو کا چرچا تھا۔ اب کہتے ہیں تم دونوں لڑائی میں چونچیں توڑ لو لیکن ہماری عزت رکھ لینا ،ووٹ کی عزت پھر دیکھ لیں گے۔ سیاست دان بھی کام کے نہیں ملے۔

بہرحال انقلاب ونقلاب کچھ نہیں ہوتا

لیکن افسوس

ابھی نہیں تو کبھی نہیں، ہم نہیں تو کون، انقلاب انقلاب، دیکھنا تم ایک دن، ڈو اور ڈائے، تیری میری آرزو، حاضر حاضر لہو ہمارا جیسے نعروں سے لخت جگرز کے ماتھے سجے نظر آئیں گے۔ شہید کے خون سے انقلاب آئے نہ آئے جھونپڑیوں سے رونے کی آوازیں ضرور آئیں گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

فیصل واوڈا کی پریس کانفرنس جھوٹ کا مربہ ہے یا سچی نشانیاں بہرحال یہ ایک خوف و ہراس کا ذریعہ پریس کانفرنس تھی اور حالات کسی مارچ کی اجازت نہیں دے رہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply