پشتون ہو تو ایسا/رشید یوسفزئی

بلاشبہ میں پاکستان اور امریکہ کے بہترین اداروں میں قابل ترین اساتذہ سے سیکھنے کے عمل سے گزرا ہوں۔ دنیا صرف دیکھی ہی نہیں دنیا کی  کریم کہلانے کے لائق شخصیات سے دوبدو ملاقاتیں اور مکالمہ کرنے کے وافر مواقعوں سے فیض یاب ہونے کا شرف بھی حاصل کر چکا ہوں۔ جن میں سربراہان مملکت وزراء سفرا ء جرنیل سیاستدان انٹلیکچولز پروفیسر ادیب عالمی اذہان کو متاثر کرنے والے ماہرین اور مشہور لکھاری شامل ہیں۔ لیکن جس کو قریب سے دیکھا ایسا لگا کہ اس کی شخصیت سازی پر اس کی اصل قابلیت سے زیادہ انویسٹمنٹ کی گئی ہے۔ سب نے اپنی مہارت اور قابلیت کی کمی کوتاہی کو اپنی شخصیت کی “بناوٹ اور سجاوٹ” سے پورا  کیا  ہے۔ بہت شاذ ہی کوئی ایسی شخصیت ملی ہے کہ جو جتنی ارسٹوکریٹ تھی ،اتنی انسانیت دوست بھی تھی، جتنی انٹلیکچول تھی ،اتنی جینوئن بھی تھی۔ جتنی نفیس تھی ،اتنی خالص بھی تھی۔ جتنی فلسفیانہ ذہنی اُپچ  کی مالک تھی اتنی حقیقت پسند بھی تھی۔

ایسی شاذ شخصیات میں سے، کہ جو زمین زاد  بھی ہو  اور بین الاقوامی قد بھی رکھتی ہوا ، ایک بیرسٹر ڈاکٹر عثمان خان ہیں۔ پوشاک ایسی نفیس کہ ملنے والے کو  مسحور کردے ،تو خاکساری ایسی  کہ احساس نہ ہو کہ سامنے ایک ایسا بیرسٹر اور پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہیں، جن کو دیار غیر کی اعلیٰ  عدالتوں میں قابلیت کی مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن پھر بھی دنیا جہان میں بہت کم لوگ ہی جانتے ہوں گے کہ اس بے داغ پوشاک کے نیچے موجود شخص کتنا کھرا، ستھرا ،خالص اور اعلیٰ درجے کا روایت پسند پختون ہے۔ جس نے اپنے انسان دوست نظریے سے کمٹمنٹ کی  خاطر ضیاء جیسے تاریکی کے سوداگر کے ہاتھوں کوڑے کھائے جیلیں کاٹیں لیکن ڈٹا رہا ،کھڑا رہا۔ جس کو ضیائی آمریت کے جلاد ہاتھوں میں  ہتھکڑیاں اور پاؤں میں بیڑیاں ڈال کر دس دس میل سوات کی  سڑکوں  پر پیدل عدالتوں اور تھانوں  میں لے جاتے تاکہ اس کی باغی روح کو شکست دے سکیں ،  جو پہلا نوجوان پشتون انقلابی انٹلیکچول تھا جس کو ضیائی دور کے خلاف کلمہ حق بلند کرنے پر سترہ سال کی عمر میں سرعام کوڑے مارنے کی سزا سنائی گئی۔اور جو ایم آر ڈی تحریک میں بنوں جیل میں مہینوں پابند ِ سلاسل تھے تو جلادوں نے ٹارچر کے نئے طریقے ایجاد کرکے ان کی  کمر پر پاکستان کے جھنڈے اور نقشے بنائے۔ پشاور یونیورسٹی کے رجسٹرار تھے تو وائس چانسلر لیفٹننٹ جنرل ممتاز گل اور مشرف ایمرجنسی دور کی  بابت خوامخواہ  فوجی افسران ان کے  دفتر سے ایک میل فاصلے  پر جاتے۔

بیرسٹر عثمان کا  سوات و مالاکنڈ سے کینیڈا تک کا سفر صعوبتوں آزمائشوں محنتوں حوصلوں اور انسانی عزم کی شاندار کامیابی کی روداد ہے۔ بیرسٹر صاحب کی زندگی کا ہر موڑ ایک دلچسپ داستان ہے۔ میں جب ان سے بات کرتا ہوں تو قلم و کاغذ تیار رکھتا ہوں کہ ان کا ایک بھی لفظ  فراموش نہ ہو۔ ان پر کتاب نہیں کتابیں، ناولز لکھے جانے چاہئیں ۔ یقین رکھیں بیرسٹر صاحب کسی اور قوم سے ہوتے تو آج ان کی زندگی پر درجنوں فلم بنی  ہوتیں ۔میں انہیں اکثر کہتا ہوں ، سر خوش لباسی کے لحاظ سے آپ بیرسٹروں میں ماڈل ہیں اور ماڈلز میں بیرسٹر۔ فیشن سے آپ پشتونوں کے بیرسٹر جناح ہیں اورمسحور کُن گفتگو و حاضر جوابی میں آپ مولانا فضل الرحمٰن کے ہمسر۔

یقین رکھیں ، جب مجھ سے کوئی سوال کرے کہ آپ کا تعارف؟ تو میں جواباً بیرسٹر عثمان کی  تصاویر یا یوٹیوب ویڈیوز دکھا کر کہتا ہوں ،” میں بیرسٹر ڈاکٹر عثمان علی خان کا چھوٹا ہوں” بیرسٹر صاحب ایک ذات میں میری قوم، میرے  کلچر اور میری سادہ و رنگین ، پرعزیمت و عظیم تاریخ کا زندہ تعارف ہیں۔ اور پشتون جوانوں کو ان کی مثال پیش کرکے کہتا ہوں “ پشتون ہو تو ایسا ”۔

یقین رکھیں یہ مرد قلندر، یہ سر پھرا باغی و انقلابی ، یہ ڈاکٹر، یہ بیرسٹر پشتونوں کا جلال بھی ہے اور جمال بھی، حسن بھی اور عظمت بھی۔ یقین رکھیں میں جب دوران واک ان سے تصور میں مخاطب ہوتا ہوں تو کہتا ہوں “ سر، کاش میں آپ کی طرح بن سکتا! سر، کاش ہر پشتون نوجوان آپ کی طرح ہوتا! سر، کاش پشتونوں میں ایک ہزار، ایک لاکھ، ایک کروڑ بیرسٹر ڈاکٹر عثمان علی خان اور پیدا ہوتے! کم حسرات دفن فی صدور المقابر! کاش میں ابوالطیب احمد المتنبی اور خاقانی ہوتا اور عمر بھر عربی ،فارسی میں آپ کے شاہکار قصیدے لکھتا اور گاتا۔۔ مگر اسی عربی شاعر متنبی کا سہارا لیتا ہوں کہ

مضت الدھور و ما اتین بمثلہ ولقد اتی فعجزن عن نظرانہ 
زمانے گزر گئے اور اس کی مثال پیدا نہ ہوئی  ۔۔اور جب وہ آیا تو زمانے کی ماں اس کی  مثال لانے سے قاصر ہوئی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جب رشید یوسفزئی کے ساتھ اس کے الفاظ ساتھ دینا چھوڑ دیں ، جب جملے اپنی کم مائیگی اور علم اپنی کوتاہی کا اقرار کر ے تو سمجھ جائیں  کہ بیرسٹر عثمان خان   کو خراجِ  تحسین پیش کرنا ممکن نہیں۔ انہیں جاننے کیلئے ان سے ملنا پڑتا ہے ۔آپ کی خوش قسمتی ہے کہ سوشل میڈیا کی برکت سے یہ ناممکن نہیں ۔

Facebook Comments

رشید یوسفزئی
عربی، فارسی، انگریزی ، فرنچ زبان و ادب سے واقفیت رکھنے والے پشتون انٹلکچول اور نقاد رشید یوسفزئی کم عمری سے مختلف اخبارات، رسائل و جرائد میں مذہب، تاریخ، فلسفہ ، ادب و سماجیات پر لکھتے آئے ہیں۔ حفظِ قرآن و درس نظامی کے ساتھ انگریزی اور فرنچ زبان و ادب کے باقاعدہ طالب علم رہے ہیں۔ اپنی وسعتِ مطالعہ اور بے باک اندازِ تحریر کی وجہ سے سوشل میڈیا ، دنیائے درس و تدریس اور خصوصا ًاکیڈیمیا کے پشتون طلباء میں بے مثال مقبولیت رکھتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply