اوقات سے اوقات تک /یوحنا جان

نہ جانے کس آنگن اس لفظ کی گردش میرے کانوں میں کھٹ کھٹ کرنے لگی، اور رات کی تاریکی میں بیدار کر ڈالا۔ اس بات کا اندزہ تب ہونے لگا جب اندھیرے میں اپنی حقیقت کو سمجھنے کے لیے تڑپ رہا تھا۔ چاروں طرف اندھیرا ، روشنی کی کوئی ایک کرن بھی نہ تھی۔ تب خاموشی میں ایک سرگوشی ہوئی ، میں ایک دم چونک گیا۔ اس بات کا اندازہ اور تجزیہ کرنے کے لیے میں نے عقل کے دروازے پر دستک دی تو آہستہ آہستہ قدم بڑھنے کی آواز آئی۔ تھوڑی سی دیر کے بعد عقل کا دروازہ کھولا مِلا۔ اندھیرا   چارسو تھا ۔ ہر طرف خاموشی اتنی کہ ذرا سی آہٹ بھی ایک لاؤڈ سپیکر کاکام کرتی۔

شعور کی پرتوں کو کھولنے کی کوشش کی لیکن کوشش ناکام رہی، مگر اس کو جاری رکھا۔ تب ایک سرگوشی میرے کانوں میں ہوئی اچانک گبھراہٹ نے گھیراؤ کیا۔

حوصلہ کرتے ہوئے قدم آگے بڑھایا عقل وشعور کی منت کی کہ مجھے تھوڑا سا تعاون درکار ہے تاکہ میں اپنی اصلیت کو جان سکوں ۔ میری یہی سعی رہی کہ حقیقت کا دیدار کر سکوں ۔ اس کی تہہ در تہہ پرت سے واقفیت حاصل کرنا ضروری ہے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا تھا بے چینی کا تخمینہ بڑھ رہا تھا۔

عقل کا تھوڑا بہت تعاون حاصل کرنے کی منت آخر کار عقل نے منت سماجت کا ردِعمل مثبت انداز میں دے دیا۔ اس نے بھی اپنی شرطیں بتائیں کہ تعاون تب ہوگا جب تو اپنی حقیقت اور اصلیت کو قبول کرے گا ورنہ میں مددگار نہیں بنوں گی ، میں نے شرطیں قبول کرتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا اور بولا
” قبول ہے”۔۔۔

جیسے ہی معاہدہ طے پایا تو روشنی آہستہ آہستہ بڑھنے لگی اور اندھیرا کم ہونے لگا، وقت نے کروٹ بدلی ، لمحہ تبدیلی کی بھینٹ چڑھنے لگااور عقل نے میرا ساتھ نبھانے کا بھرم رکھا۔ تب عقل نے کہا !
” ایک بات کروں غصہ تو نہ کرو گے؟”ad

میں نے جواب میں کہا!
“بول ، غصہ کس بات کا جب وعدہ کرلیا تو پھر کس بات کی گنجائش باقی ہے ”

عقل زمین پر بیٹھتے ہوئے بات کو دہراتی اور کہتی ہے :
” دیکھ لینا کہیں غصہ نہ کر لےتُو ”

میں نے بات کو مزید بڑھاتے ہوئے کہا :
” جب کہہ دیا نہیں کرتا بول کیا بولنا ہے ”

عقل نے بڑے تحمل سے مخاطب کرتے ہوئے کہا:
” تم اپنے آپ میں بڑا گمان کرتے ہو، بڑی اکڑ ہے تمہاے میں  ”

میں ایک دم سے چونک گیا اور بولا :
” کیسی باتیں کر رہی ہو میں نے اپنی محنت اور مشقت سے یہ چیزیں حاصل کی ہیں  ”

جونہی یہ الفاظ عقل کے کانوں میں پڑے اس کا ردعمل آیا کہ :
” اگر میں نہ ہوتی تم کسی کام کے نہ ہوتے۔”

یہ الفاظ سنتے ہی ایک جذباتی عنصر کی کیفیت وارد ہوگئی لیکن ساتھ ہی عقل کا کرارا جواب آیا :
” میرا اور تمھارا ایک معاہدہ ہوا تھا اسے یاد رکھو۔”

میں اک دم خاموش اور شرمندگی کا دامن تھامنے لگا۔ جو اندھیرے اور اس کی کیفیت کو عیاں کرتا ہے ،یہ باتیں  ابھی ذہن میں گردش کر رہی تھیں   کہ عقل بولی :
” تم کس بات پر جذباتی اور اپنے آپ کو تکبر کا قائل کرتے ہو۔ تمھاری اکڑ اور غرور صرف ایک سوراخ سے دوسرے سوراخ تک ہی ہے  ”

میں نے بغور الفاظ کا مطالعہ کیا تو ایک دم اٹھ بیٹھا کہ کیا بات کہی گئی؟ میں نے تو کبھی نہیں سوچا تھا کہ جو بات یہ کہہ رہی ہے وہ کیا ہے اور کیوں ہے ؟ تھوڑی دیر تک لفظوں کو ترتیب دیتا رہا کہ کیا کہوں میرا جسم پسینہ سے شراربور ہوئے جا رہا تھا کہ کس زاویہ اور نقطہ کو لوں ۔ ابھی ان الفاظ کا تانا بانا کر رہا تھا عقل نے دونوں بازوں سے پکڑا اور زور سے جھنجھوڑا ۔ اسی لمحہ میں حواس باختہ ہو کر کھڑا ہو گیا اور اس کی طرف متوجہ ہونے کی کوشش کی۔ اس نے بتایا :
” تم اپنے آپ میں جو اکڑ   لیے دوسروں کو حقیر دیکھتے ہو یہ صرف ایک بیوقوفی اور جہالت  ہے، اپنے اندر کے فرعون کو پہچانو ”

میں نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا :
” تم بات کیا کرنا چاہتی ہو وہ سیدھے الفاظ میں بتاؤ-”

عقل کا جذبات بھرپور لہجے میں  کہنا تھا:
تم صبر کرو ابھی بتاتی ہوں ۔ تم نے ہی سب بگاڑ کر رکھا ہے ، بات سنتے نہیں اور ہٹ دھرمی پر اتر آتے ہو۔ جو نہ آگے اور نہ پیچھے کے پھر رہنے دیتے ہو سوائے شرمندگی کے ۔”

اس کا انداز بیان صرف لفظوں کا نہیں بلکہ ایک خاص لہجے  پر مبنی ہے ، جذبات کو مدہم کرنے اور ایک نصیحت آمیزی کا عکس واضح کرنے میں معاون تھا جو مسلسل اس کی تگ و دو میں تھا اس کا اندازہ اس وقت تو نہ لگا مگر بعد میں جیسے ہی وقت نے کروٹ بدلی میرے سامنے آ کھڑا ہوا ، جیسے جیسے جذبات اپنے قابو میں کیے ان کو صبرو تحمل کا پیمانہ عطا ہونے لگا ویسے ویسے ہی عقل کی بات اور مفہوم سمجھ میں آنے لگا، یہ بات الگ ہے کہ آج کا آدمی اس بات سے عاری ہو چکا ہے، جو صرف وحشیانہ جذبات اور رنگ لیے مشکلات سے دوچار اپنی اصلیت کو بھول چکا ہے ۔ عقل کے ساتھ مزید وقت گزارا تو اس کا عکس واضح ہوا:
” انسانی زندگی کا سفر ایک سوراخ سے شروع ہو کر دوسرے پر ختم ہوتا ہے یعنی کوکھ سے قبر تک ۔”

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ میری اوقات ہے جو عقل سے مکالمہ ہونے کے عوض مجھ پر عیاں ہوئی ہے ، یہی میری ابتدا ء و انتہاء  ہے ۔ عقل نے گفتگو کا اختتام کرتے ہوئے کہا:
” زبر سے زیر ہو جا کیونکہ آگے پیش بھی ہونا ہے ۔”

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply