تبصرہ کتاب: ہجرت کے تماشے… مصنف: جاوید دانش…. تبصرہ نگار : صادقہ نصیر

میرے نزدیک کتابوں پر تبصرہ کتاب لکھنے سے لے کر منظر عام تک آنے کے عرصے میں ایک اہم اور ضروری جز ہے۔ کتاب لکھنا کسی صورت بھی آسان نہیں ہوتا۔ اس میں مصنف کی دہائیوں پر محیط عرصے کی رسمی و غیر رسمی تعلیم، حصول علم کی صعوبتیں ، تجربات زیست ،مشاہدات اور ان تمام سے بڑھ کر وہ کرب بھی شامل ہوتا ہے جو شہد کی مکھی کے شہد بنانے کے تمام مراحل کی جوکھم جیسا ہے۔ ایک مصنف ہر صورت ان تجربات زندگی اور ان سے پیدا ہونے والے تمام احساسات کی بھٹی میں آتش نمرود کی طرح رضاکارانہ طور پر چھلانگ لگاتا ہے اور اپنے دور کےا براہیم  علیہ السلام میں پیروکاروں میں سے ایک ہوتا ہے۔ اس تپتی بھٹی میں وہ درون بینی مشاہدے سے بھی گزرتا ہے اور دوسرے انسانوں کے جوتے بھی کر پہن کر دیکھتا ہے اور پھر عمومی قضیے نمٹاتا ہے۔ کہنا ضروری ہے کہ اس کو یہ قضیۓ نمٹانے کی ضرورت اس لئے پیش آتی ہے جب دوسروں کے جوتوں میں اس کے پاؤں زخمی ہوتے ہیں تو بلبلا کر اسے پہلے اپنا درد محسوس ہوتا ہے تو یوں وہ دوسروں کے غم اور خوشی سے آشنا ہوتا ہے ۔یہیں سے اس کے تخلیقی قطرہ ہاۓ انفعال شان کریمی کا نزول بنتے ہیں اور ایک کتاب وجود میں آتی ہے تب یہ ہوتا ہے کہ مصنف کسب حلال کو اس کی اشاعت پر لگاتا ہے تو اس بات کا مستحق بن جاتا ہے کہ وہ اپنی تخلیق کے ساتھ منظر عام پر آۓ اور قلم کے ساتھ جہاد کرنے والے کو غازی مان کر اس کے کام کو سراہا جاۓ۔ اور یہی کتاب کا حق ہے.
ایسا نہیں ہے کہ جاوید دانش کو اور ان کی ادبی کاوشوں کو منظر عام پر لانے اور متغارف کرانے کی ضرورت ہے ۔ مصنف جاوید دانش نابغہ ء روزگار ہیں اور کسی تعارف کے اور خاص طور پر میری اس معمولی سی تحریر کے محتاج نہیں ہیں۔ یہ تو میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے اس دانش کدہ جیسی شخصیت کی کتاب پڑھنے کا موقع ملا۔


قصہ کچھ یوں ہے کہ جاوید دانش بھی ایسے ہی براہیم میں سے ایک قلم کے مجاہد ہیں ۔
جاوید دانش ایک ایسی دانش جو ہر دم جوئے جاوداں ہے۔ ان کا تعلق ہندوستان کے دو پر شکوہ شہروں لکھنؤ اور کولکتہ سے ہے۔ علی گڑھ کے فارغ التحصیل جاوید دانش پچھلے چالیس سالوں سے کینیڈا میں مقیم اور فیس بک کے توسط سے حلقۂ دوستاں میں شامل ہوۓ اور اسی طرح نظر سے ان کا پروگرم “آوارگی ود جاوید دانش” کے نام سے علم میں آیا۔ فیس بک کی سیر بینی جس کو کبھی ہم بھی وقت کا ضیاع سمجھتے تھے ان سے دوستی کے بعد یہ موقف تبدیل کرنا پڑا کہ فیس بک میں لاکھ برائیاں سہی ،سود بھی ملتا ہے۔ کیوں کہ معلوم ہوا کہ رنگ منچ کینیڈا چلانے والے جاوید دانش کتابوں کے ذریعہ اپنی دانش کو وسعت قلب کے ساتھ بانٹتے ہیں۔وہ کیا لکھتے ہیں ،کیوں لکھتے ہیں اور کیسا لکھتے ہیں یہ بات میرے علم میں نہیں تھی۔ ان کی فیس بک پر ان کی ایک تصنیف جلوہ گر نظر آئ جس کا نام”ہجرت کے تماشے” ہے۔ سچ پوچھئے تو اس کتاب کے نام سے یہ لگا کہ یہ تارکین وطن کے عام سےمسائل پر ہو گا کوئی ناول یا آپ بیتی۔ لیکن فیس بک کا شکریہ کہ بار بار چہرہ دکھاتی یہ کتاب من میں کچھ اس طرح سمائی کہ  اس کے حصول کی تمنا پیدا ہوئی اور یہ تمنا پھر دھن بن گئی۔اور یہ دھن رنگ لائی جب اس سال سفر انگلستان کے دوران یہ کتاب میرے میل بکس میں ایک ماہ تک پڑی رہی اور میں اس کتاب کی سلامتی کی دعا مانگتی رہی۔
خیر سفر سے واپسی پر کتاب کے بحفاظت ملنے کا شکرانہ ادا کرکے کتاب کو ہاتھ میں لیا تو پہلی انوکھی بات اس کتاب کا لمس تھا جس سے یہ تاثر ملا کہ اپنی وضع اور شکل و صورت میں یہ ایک ریشمی سی ہے ۔ کسی کتاب کے ریشمی ہونے کا احساس پہلی بار ہوا کہ سرورق اپنی تمام تر رنگینی اور رعنائی کے ساتھ چمک رہا تھا۔ گویا کتاب صورت میں مانند عروس خوبصورت فلیپ کے پیرہن میں لپٹی یہ کتاب میٹر لنک پبلشرز لکھنؤ نے شائع کی ہے۔
مصنف جاوید دانش اس سے قبل مزید چودہ کتابوں کے مصنف ہیں اور ان ادبی کارناموں کے عوض ادبی اعزازات کے وصول کنندہ ہیں۔
اوراق پلٹنے شروع کئے تو دل و دماغ ورطۂ حیرت میں ڈوب گیا کہ یہ نہ تو ناول ہے نہ افسانہ بلکہ بارہ ڈراموں پر مشتمل ایک کتاب ہے۔اور پرکھنے کے بعد یہ شکلاََ اچھی کتاب سیرت کی واجبی نہیں بلکہ اچھے گن رکھتی ہے۔ دنیا میں ہوتے حقیقی ڈرامے دیکھنے کا وسیع تجربہ تو تھا ہی اور ٹی وی کے ڈرامے بھی بہت دیکھے لیکن کتاب کی صورت میں ڈرامے پڑھنا انوکھا ہی تجربہ تھا۔ ادب کی طالبعم نہ ہونے کی وجہ سے محض اتنی سی معمولی جانکاری تھی جو اردو کی کمپلسری کتابوں سے ملی ۔ قدیم یونان میں لکھے جانے والے سٹیج ڈرامے ،شیکسپئر کے ڈرامے بس اتنا ہی علم تھا اور یہ کہ ہندوستانی ادب میں اندر سبھا اور کالی سبھا کے ڈرامے اور پاکستان کی ادبی، درسی کتب میں آغا حشر کاشمیری اور  امتیاز علی تاج کے نام سے مجبورا ََامتحان پاس کرنے کے لئے لازمی چند ایک ڈرامے پڑھے مگر کسی صورت لکھے ہوۓ ڈراموں میں دلچسپی قائم نہ ہو سکی۔ اسی تاثر کے ساتھ کتاب ایک طرف رکھ دی اور کافی دن گزرنے کے بعد مروتاََ کتاب اٹھائی اور اچانک بک مارک کی مدد سے کتاب کھولی تو صفحہ ۱۸۶ کا قرعہ نکلا۔جس پر ایک چھوٹی سی نثری نظم نے چونکا دیا جو کچھ یوں ہے:
سنا تھا
خموشی ہر بلا کو ٹالتی ہے
اس لیئے چپ ہوں
مجھے چپ سادھ لینے دو
مگر سن لو
کہ موسم اب بدلنا چاہتا ہے


یہ نثری نظم بتا رہی تھی کہ کتاب ایسی ضرور ہے کہ بن پڑھے نہ بنے .ہو نہ ہو یقینا ََاس کے مصنف جاوید دانش نے عرق انفعال کے قطروں میں قلم کو ڈبو کراس کتاب کو مزین کیا ہو گا اور اس میں جوۓ دانش جاوداں بہہ رہی ہوگی۔ اور اس ذاتی مفروضے کے تحت کتاب کا ایک ایک حرف پڑھنے کا ارادہ کیا۔ اور کتاب ختم کرنے تک نوبت پہنچی جو پڑھنے سے پہلے ممکن نہ تھی کیونکہ میں ایک سست قدم قاری ہوں۔
کتاب پڑھنے سے پہلے ہی ارادہ کر لیا کہ اس کتاب میں شامل دوسرے لوگوں کی آراء پر نظر نہیں پڑنی چاہیے تاکہ تبصرہ لکھتے وقت شفافیت کا مظاہرہ ہو اور میری رائے خالصتا ََمیری ہی راۓ ہو۔ لیکن بر سبیل تذکرہ رائے دینے والوں میں پروفیسر محمد حسین نئی دہلی، پروفیسر عبدالقوی ضیا کینڈا اور پروفیسر سحر انصاری کراچی کے نوٹس ہیں۔
انتساب شریک سفر عظمی کے نام کر رکھا ہےجو یقیناََ ان کی تحریروں کو عہدہ عظمی پر فائز ہونے کے عمل میں معاون رہی ہوں گی۔
انتساب کے اگلے صفحہ پر افتخار عارف کا شعر درج ہے
ہر نسل کو ایک تازہ مدینے کی تلاش ہے
صاحبو اب کوئی ہجرت نہیں ہو گی!

ابو ذر ہاشمی کا تفصیلی نوٹ جس میں جدید ڈرامہ کے نئے افق بیان کیۓ گئے ہیں۔اور جاوید دانش کو بھارت کا ناگرک گردانا گیا ہے۔
دوسرے باب میں مصنف جاوید دانش اعتراف کرتے ہیں کہ داستان گوئی ان کا نیا عشق ہے اور اس عشق کو انہوں نے ڈرامے کا پیراہن پہنا کر خوب نبھایا ہے۔یہ تمام بیانات سچ ثابت ہوتے گئے جب جب تحریری ڈرامہ نگاری کی اس کتاب کے اوراق پلٹتے چلے گئے اور بطور قاری میں یہ اعتراف کرتی ہوں کہ شاید ٹیلویژن پر دکھائے گئے ڈراموں نے کبھی میری توجہ کو نہیں کھینچا اور میرا دامن نہیں پکڑا کہ میں کسی بھی ڈرامے کو خواہ اسے پوری خلقت دیکھ کر دیوانی ہوئی جاتی ہو مجھے دیوانہ بنا دیں جتنا جاوید دانش کے ان تحریری ڈراموں کے ایک ایک کردار، منظر اور کرداروں کے مکالموں نے اول تا آخر اپنی گرفت میں رکھا۔ ڈرامہ نگار نے مجھے اس ادبی صنف کی نئی جہتوں سے انوکھے انداز سے روشناس کروایا ہے۔اور کرداروں کی زبان سے ایسے مکالمے ادا کرواۓ ہیں کہ جن سےان لوگوں کے کرب دکھ، جذباتی معاشی و نفسیاتی المئے ایسے جھلکتے ہیں کہ کوئی ذی شعور ان سے پہلو تہی نہیں کر سکتا ۔یہ ڈرامائی تحریریں پڑھنے کے لائق ہیں کہ ان میں دور جدید کے ہجرتی مسائل اور ان کے حل کے لۓ فکری اساس بھی ملتی ہے۔ جہاں یہ ان دکھوں کی نشاندہی کرتے ہیں وہیں ان کے لئے نفسیاتی علاج کی حیثیت رکھتے ہوۓ مکالمے کی صورت میں ون لائنرز بھی ملتے ہیں جو قاری اور نقاد دونوں کی چشم وا کئے رکھتے ہیں اور ان کے فکری پہلو پر نظر ڈالنے پر مجبور کرتے ہیں اور یہ بات اس کتاب کے اعلی ترین محاسن کو اجاگر کرتی ہے۔

ان ڈراموں کا مطالعہ کریں تو یہ کتاب دراصل دو حصّوں پر مشتمل ہے۔
یہلا حصّہ ہجرت کے فوراً بعد کے امور کو چھیڑتا ہے، جس میں تلاش روزگار کی مشقتوں اور تکلیفوں کا ذکر ہے۔
دوسرا حصّہ ہجرت کے بعد سیٹلمنٹ کے مسائل ہیں روٹی روزی مکان کے چکروں میں پھنسے لوگوں کو بھی درپیش ہیں اور اُنہیں بھی جو ان چکروں سے نکل کر معاشی طور پر سیٹل ہوچکے ہیں ۔ان کا تعلق نئی اقدار میں جنم لینے والے معاملات سے ہے۔مثلاً طلاق،سنگل مدر،ریپ،ایڈز کا مرض،مرسی کلنگ اور ان تمام مسائل سے دو چار لوگوں کا نفسیاتی اور روحانی کرب سے گزرنے اور بے بسی کے عالم میں مذہبی رہنماؤں اور خود ساختہ اور جعلی پیروں فقیروں کے چنگل میں پھنسنا اور ان تمام نام نہاد مذہب کے ٹھیکیداروں اور بابوں کا روحانیت کے نام پر لوگوں کو لوٹنا،اور اس ملک میں بھی اپنے چھوڑے ہوئے ملکوں کی روحانی لوٹ مار کا بازار گرم کرنا ہے،آج تک اردو ڈراموں میں ان مسائل پر بات نہیں ہوئی اور ان مسائل کو سنجیدگی سے چھیڑا نہیں گیا۔
سب سے اہم اور دلچسپ بات کہ یہاں کے تارکینِ وطن کے مہاجری ادب میں شاعری کی ہر صِنف،افسانے اور ناول کی بھرمار ہے مگر ڈرامہ کی صنف میں ایک بھی کتاب نہیں ہے۔
جاوید دانش کی کتاب ‘‘ہجرت کے تماشے ’’مہاجری ادب میں ایک نئے اُفق کا تعارف ہے اور ادب میں ایک نئے باب کا روشن در کھولنے کا پہلا قدم ہے جو ایک نیک شگون ہے۔
مثلاً پہلے ڈرامے‘‘ ہجرت کے تماشے’’ میں 12کردار ہیں ،جو ابھی حال ہی میں اس ملک میں آئے ہیں ،اور سب ہی روٹی روزی کے چکروں میں بولائے پھرتے ہیں اور حکومت کے سیلف ہیلپ پروگرام میں شرکت کرتے رہیں اور ایک کلاس جوائن کرتے ہیں ،سب ایک ہی بات کرتے ہیں کہ اپنے ملک میں اچھے تھے۔۔لیکن اس کلاس کا موٹیویشنل سپیکر انہیں سینہ سپر رہنے،کشتیاں جلانے اور لگن کے ساتھ کام کے لیے ترغیب دیتا ہے۔اس ڈرامے کے کرداروں کے مکالمے پڑھ کر ہر ہجرت کرنے والے کو اپنے ابتدائی دن یاد ٓتے ہیں ۔

دوسرا یہ ڈرامہ ‘‘کنوارے بھلے’’ ان لوگوں کے مسائل کا ذکر کرتا ہے جو سیٹل ہونے اور معاشی طور پر مستحکم ہونے کے بعد اپنے جوان بچوں کی شادیوں کے لیے فکر مند ہیں اور والدین کی حیثیت سے اپنی روایات سے جُڑے رہنے پر مصر ہیں جبکہ بچے اس معاشرے کی روایات میں اپنے قدم جما چکے ہیں ۔رشتوں کا دیکھنا بالکل ایسے لگتا ہے جیسے ڈاکٹر کی اپائمنٹ۔

تیسرا ڈرامہ ‘‘بڑا آدمی چھوٹا شاعر’’ کے دس کردار شمالی امریکہ میں ادب کی بات کرتے ہیں، کہ کس طرح تخلیق کاروں پر جمود ہے اور یہ جمود ان کے معاشی چکروں میں گِھرے رہنے کی وجہ سے ہے۔لیکن اس کے باوجود شاعری،افسانے کی بھرمار،ادبی تنظیموں کا بازارگرم اور دھڑا دھڑ ادب تخلیق ہورہا ہے،اردو نے سات سمندر پار میں بھی اردو کی فضا کو خوش گوار کیا ہُوا ہے لیکن نئی نسل کا اردو سے نابلد ہونا اس کاوشوں پر پانی پھیر دیتا ہے۔
یہ ڈرامہ مہاجری ادب اور ادبی تنظیموں کے کلچر کی نمائندگی کرتا ہے۔

چوتھا ڈرامہ‘‘عید کا کرب’’جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ کس طرح مہاجر اپنے مذہبی تہواروں کو مناتے ہیں اور منانے کی روایات کو قائم رکھنے کی کوشش کرنے میں ہلکان ہورہے ہیں ،لیکن نئی نسل کرسمس کی رنگینیوں کی طرف کھینچتی چلی جارہی ہے۔
یہ ڈرامہ حیدرآبادی اور گجراتی زبان کی چاشنی لیے ہوئے ہے،مصنف نے بہت کمال سے اپنے کرداروں سے ان زبانوں کے ڈائیلاگ ادا کروائے ہیں کہ مزاح کا لطف بھی ملتا ہے۔
ڈرامہ‘‘ کوئل جان’’ہیجڑوں کے موضوع پر ہے۔جس کا ایک ڈائیلاگ
‘‘ ارے دنیا آنی جانی ہے،یہاں کون کسی کا ہانی ،یتیم تو سارا سنسار،کس کس کو گود لیا جائے،اور ہیجڑوں کی بھی ذات اور خاندان ہوتا ہے کیا؟’’
اور دوسرا ڈائیلاگ
‘‘کوئل جان!اچھا خدا غارت کرے۔۔مذہب کے ٹھیکیداروں کو۔۔دو وقت کی روٹی دے کر مولوی صاحب روز میرا جسم نوچتے تھے’’۔

اس ڈرامے میں معاشرے کے اس بھیانک رویے کو کھول کر پیش کیا گیا ہے۔جو ایک جرات مندانہ رویہ ہے۔
ایک اور ہیجڑے کا مکالمہ درج ذیل ہے
‘‘ایک فریاد ہے ،خدا کی اس مخلوق کی،جو انسان ہیں ـ’’

ڈرامہ ‘‘جیون ساتھی کلینک’’9کرداروں پر مشتمل ہے،تمام عورتیں جو سنگل ہیں اور طلاق یافتہ مگر زندگی کے بقیہ سالوں کے لیے شریکِ حیات ڈھونڈنے کے لیے ایک میرج بیوروں میں اکٹھی ہوتی ہیں ،جبکہ اس بیوروکے سیکرٹری گلفام کا ڈائیلاگ
‘‘ گلفام؛ جی اس وقت ستاک میں کوئی نہیں ،ہم لوگ فریش آرڈر کرتے ہیں ’’
مزاح کے ساتھ سنگل مدر اور عورتوں کے دُکھ بیان کرتا ہے۔

اس ڈرامے میں بھی نام نہاد مذہبی ٹھیکیداروں کے بے حس رویوں کا ذکر ہے کہ کس طرح تشدد کا شکار ہونے والی عورتوں کے خاوندوں کو مولوی ،امام اور روحانی پیشوا بچا لیتے ہیں ۔تاکہ کمائی کرنے والے ان مجرم مردوں سے چندوں کی صورت رقم ملتی رہے۔جبکہ ان ملکوں میں ان امور میں کسی امام کے فتوے کی ضرورت نہیں ۔

ڈرامہ ‘‘چالیس بابا ایک چور’’میں بھی مذہبی ٹھیکیداروں کے غاصبانہ رویوں سے سجی دکانوں کی منظر کشی کرتاہے۔جو ان ملکوں میں بھی وہی گھناؤنی حرکتوں میں ملوث ہیں ۔یہاں بھی استخارہ سنٹر،عملیات کی فسوں کاری جاری ہے۔اس ڈرامے میں ایسے ڈائیلاگ ہیں جو مہاجرین کو اپنی آنکھیں کھولنے اور میانہ روی سے اپنی توانائیوں کو مثبت انداز میں استعمال کرنے کی تلقین کرتا ہے۔اور مہاجرین کو حوصلہ دلاتاہے،کہ یہ ملک جھاڑو لگانے والے کو بھی طعنہ نہیں دیتا،اس ڈرامے کا ایک ڈائیلاگ توجہ کھینچتا ہت
‘‘سرمدی؛سب سے سوال ہوگا
وہ کشتیاں جلانے والے کیا ہوئے،کہاں گئے
وہ باطلوں پہ چھانے والے کیا ہوئے ،کہاں گئے

سرمدی کا ایک اور ڈائیلاگ
‘‘سرمدی؛علم کی کمی،عالموں کا بھید
عقیدے کی کمی،مفتیوں کی بہتات
فرزانوں کی کمی،دیوانوں کا ڈھونگ
عشق کی کمی،درویشی کا سوانگ’’

ڈرامہ‘‘نئی شاخ زیتون کی’’ اسرائیل اور فلسطین کی جنگ کے پس منظر میں لکھا گیاہے کہ نسلوں تک کس طرح نفرتوں کا زہر بچوں تک منتقل کرتی ہیں ۔
ڈرامہ ‘‘اندھی ممتا’’بھی سنگل مدر کے مسائل کا ذکر تا ہے۔جس کا ایک ڈائیلاگ
‘‘جس نے بچپن میں کھیل کود کی جگہ نفرت اور خانہ جنگی دیکھی ہو،وہ ایک عرصے تک اپنے جذبات کا صحیح اظہار نہیں کرسکتا’’۔
آخری ڈرامہ تو واقعی پڑھنے کے لائق ہے،جس کا ایک ڈائیلاگ ہے
‘‘کیا برقعہ اور لانگ کوٹ میں عورت کی حفاظت ہوسکتی ہے؟’’
عورت آج بھی سہمی ہوئی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

غرض یہ ڈرامے مصنف نے اس طرح لکھے ہیں ،کہ ہر کردار معاشرے کے رِستے ناسوروں ،دکھوں کے بارے میں ایسے حساس مکالمے ادا کرتا ہے کہ اس نامرد سسٹم کی نامردی ختم کرکے مہاجرین کی آنکھیں کھول کر اُنھیں اپنا قبلہ درست کرنے کی راہ سُجھائی دیتی ہے۔۔یوں جاوید دانش نے مہاجری ڈرامے لکھ کر ناصرف مہاجری ادب میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے بلکہ مہاجروں کے کندھے تھپتھپا کر اُنھیں حوصلہ دیا ہے۔
اس طرح یہ کتاب سماجی مسیحاSocial Healerکا کام کرتی ہے۔جس میں جابجا خوبصورت اشعار درج کرکے اس کتاب کی رومانویت کو بھی بڑھایا ہے۔ہجرت کوئی نیا المیہ نہیں۔ تاریخ ہجرتوں سے بھری پڑی ہے ۔ اب بھی لوگ ان پرانی ہجرتوں کے قصوں کو دہراتے نظر آتے ہیں اور یہ ہجرتیں تاریخ سے مستعار لے کر ادب کا حصہ بنائی گئیں۔ مثلا اسلامی ہجرت،دوسرے مذاہب کی ہجرتیں اور برصغیر کی ,
کی فرضی لکیروں کے المیے باربار دہراۓ جاتے رہے ہیں۔اور حقیقت یہ ہے کہ ہر ہجرت میں ایک المیہ مشترک ہوتا ہے وہ ہے بچھڑنے کا المیہ جو کئی نسلوں تک انسانوں سے ناسٹیلجیا کی شکل میں چمٹا رہتا ہے۔ لیکن اس کتاب کے ڈرامے بچھڑنے کے جذباتی المیوں کا ذکر کرنے کے علاوہ ہجرت زدہ انسانوں کی زندگیوں کے لا تعداد دیگر پہلوؤں کے دکھوں کی تحلیل نفسی کرتے نظر آتے ہیں۔ اور ہر قاری یقینا ََان میں کھو جاتا ہے کیوں کہ یہ سب اس کے دکھ ہیں۔ اور یہی ایک لکھاری کا کمال ہوتا ہے۔ وہ لوگوں کو ان کے دکھوں کی نشاندہی کروانے میں مددگار ہوتا ہے جوتکلیفیں ہجرت زدہ انسانوں پر بیت رہی ہوتی ہیں اور وہ ان کی خود نشاندہی نہیں کر پاتے۔ مصنف ان کا ہاتھ پکڑ کر ان کو ان کے اپنے دکھوں سے نہ صرف آشنا کرانے کا فریضہ انجام دیتا دکھائی دے رہا ہے بلکہ ان کو ان سے نبرد آزما ہونے کے لیے حوصلہ افزائی اور ہجرت کے سامنے سینہ سپر رہنے کی بھی تلقین کرتا ہے کہ اس ہجرت کے دکھوں کا ذکر کرنے کےعلاوہ اس سے ملنے والی خوشیوں اور نعمتوں کا بھی شکر کرنے کی بھی تلقین ملتی ہے۔
جاود دانش کی کتاب “ہجرت کے تماشے” میں جس ہجرت کا ذکر ہے وہ ہندوستان، پاکستان،بنگلا دیش سے کینیڈا آ کر بسنے والوں کی ہجرت ہے ۔ان بارہ ڈراموں کے نام ہی ان متنوع مسائل کو بیان کر دیتے ہیں مثلا ہجرت کے تماشے،کنوارے بھلے،بڑا شاعر چھوٹا آدمی،عید کا کرب، اندھی ممتا، مکتی،کوئل جان،نئی شاخ زیتون کی،جیون ساتھی کلینک،کینسر، چالیس بابا ایک چور اور آخری ڈرامہ ایک تھی روحی
ہر ڈرامے کے بارے میں تفصیل سے لکھنے سے گریز بہتر ہے تاکہ تجسس برقرار رہے اور یہ کتاب خرید کر پڑھی جاۓ اور مصنف اور کتاب کا حق ادا ہو ۔
لیکن قاری کی توجہ مبذول کرانے کے لئےبتاتی چلوں ہر ڈرامے میں تینوں ملکوں یعنی ہندوستان، پاکستان اور بنگلا دیش کی علاقائی زبانوں کی چاشنی کا مزا بدرجۂ اتم ہے جس سے قاری محظوظ ہو سکتا ہے مثلا حیدرآبادی،گجراتی،بنگلا،پنجابی اور اردو  ان کے علاقوں کی ثقافت کو بھی لطافت اور مزاح کا رنگ دے کر پیش کیا ہے تاکہ پڑھنے والے مسائل میں ہی نہ الجھے رہیں بلکہ مزاح کی شگفتگی سے بھی لطف اندوز ہو سکیں اور تفریح کا سامان بھی ہوتا رہے۔قصہ مختصر یہ ڈرامے پڑھنے کے لائق ہیں اور تارکین وطن کی الجھنوں کا حل بھی پیش کرتے ہیں اور دلوں کی سکینت کا باعث بھی ہیں اور انہیں کشتیاں جلا کر غازیوں کی طرح نئی سر زمین سے جڑکر رہنے کا پیغام دیتے ہیں۔میں اس تبصرے کے ذریعہ جاوید دانش سے گزارش کرتی ہوں کہ وہ ان ڈراموں کو ٹیلی کاسٹ کرانے کا بندوبست کریں تاکہ ان کے پیغام کا ابلاغ ہو۔اور کتاب دوستوں کو ترغیب دلاتی ہوں کہ اس کتاب کو خرید کر پڑھیں رنگ منچ ٹی وی کینیڈا کے جاوید دانش سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”تبصرہ کتاب: ہجرت کے تماشے… مصنف: جاوید دانش…. تبصرہ نگار : صادقہ نصیر

Leave a Reply