شخصیت پرستی/فضیلہ جبیں

اس دنیا میں کروڑوں انسان بستے ہیں۔ جن کی سوچ ،زبان اور نظریات ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ انسان اپنی پیدائش کے ساتھ بہت سی خوبیاں لے کر پیدا ہوتا ہے۔ ہر ایک انسان اپنی کسی نا کسی خوبی یا صلاحیت کی وجہ سے منفرد طور پر پہچانا جاتا ہے۔ اور کچھ انسان اپنی صلاحیتوں کو نکھار کر نا صرف دوسروں کے لئے آسانیاں پیدا کرتے ہیں بلکہ اس معاشرے میں اپنا ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔ اور جب دوسرے لوگ ان سے استفادہ حاصل کرتے ہیں تو ضرورت سے زیادہ متاثر ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ جہاں انسان اندھی تقلید میں مبتلا ہونا شروع ہو جائے وہیں  سے ذہنی طور پر غلام بن جاتا ہے۔ اور اندھی تقلید کرتا انسان سیاہ اور سفید میں فرق بھول جاتا ہے۔اور جس معاشرے میں شخصیت پرستی پھیل جائے وہاں صحیح اور غلط کا تصور بھی لوگ پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ اسلام ہمیں معیانہ روی اختیار کرنے کا کہتا ہے

قرآن مجید میں اس کا تذکرہ اس طرح  آیا ہے
 ” اسی طرح ہم نے تم کو متوسط اور متعدل امت بنایا(البقرہ : 143)

“تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو۔ “(110: آل عمران)

اسلام ایک متعدل طرز حیات اختیار کرنے کا کہتا ہے۔ جہاں نہ تو آپ کو کسی پیروی کرنے سے روکا گیا ہے اور نہ ہی یہ کہا گیا ہے کہ کسی کی اندھی تقلید کریں۔آپ کسی بھی شخص کی پیروی کریں تو مثبت چیزیں اپنائیں۔ انسان کسی بھی دوسرے انسان سے متاثر ہو سکتا ہے۔ وہ کوئی مذہبی رہنما ہو یا سیاسی رہنما ،کوئی گلوکار ہے یا کوئی اداکار یا کوئی نامور ادیب ۔انسان اپنے پسندیدہ انسان سے متاثر ہو کر تخّلّ میں ایک ایسا خاکہ بنا لیتا ہے جہاں وہ انسان اسے مکمل دکھائی دیتا ہے۔ اور اس سے جڑی خوشی ، سچائی یا خواہش یا کسی بھی اور جذبے کو اپنے مطابق سوچنا شروع کر دیتا ہے۔انسان مکمل نہیں ہوتے ۔جہاں خوبیاں ہیں وہاں خامیاں اور کوتاہیاں بھی ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ انسان تھوڑے خود غرض ، خود پسند اور جھوٹے بھی ہوتے ہیں ۔ آپ جب بھی کسی ایسے انسان سے ملیں جس سے آپ متاثر ہیں تو یقیناً آپ خوشی محسوس کریں گے لیکن اگر اسی انسان میں آپ کوئی خامی دیکھ لیں گے تو آپ مایوس ہوں گے ۔لیکن جہاں انسان شخصیت پرستی میں مبتلا ہو جائے وہاں آپ حق کا ساتھ دینے کی بجائے ایک غلط اور ناجائز کام کو بھی صحیح مانیں گے۔

امام غزالی فرماتے ہیں کہ
شخصیت پرستی بت پرستی سے زیادہ خطرناک ہے ۔بُت کا دماغ نہیں ہوتا جو خراب ہو جائے لیکن جب تم انسان کی پوجا کرتے ہو تو وہ فرعون بن جاتا ہے۔

پاکستان کے  موجودہ سیاسی حالات میں دیکھا جائے تو شخصیت پرستی عروج پر ہے ۔ آپ کسی بھی سیاسی رہنما کی پیروی کرتے ہیں تو یہ نہیں سوچتے اور سمجھتے کہ جہاں ان رہنماؤں نے اچھے کام کئے ہیں وہیں معاشرے کو نقصان بھی پہنچایا ہے جہاں آپ کو تحقیق اور حق کا ساتھ دینے کی ضرورت ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

آج کل سوشل میڈیا تک بچوں کی بھی رسائی ہے۔ شخصیت پرستی پر لکھنے کے لئے مجھے بچوں پر پڑنے والے منفی اثرات نے مجبور کیا۔ موجودہ حالات میں وطن عزیز میں سیاسی گہما گہمی اور شخصیت پرستی عروج پر ہے۔ اس وقت ہمارا معاشرہ  مذہبی جنونیت میں بھی گِھرا ہوا ہے ۔ جو بچے ابھی صحیح اور غلط کے تصور سے بھی نا واقف ہیں وہ بھی سیاسی نعرے لگاتے نظر آتے ہیں۔ ماں باپ یہی کمال اپنے بچوں میں دیکھنا چاہتے ہیں جو ان کی پسندیدہ شخصیت میں ہوتا ہے۔ یہ کمال پسندی مستقبل میں مایوسی بھی پیدا کر سکتی ہے۔ ہماری موجودہ نسل کو عملی تعلیم کی ضرورت ہے اس طرح کے حالات میں شخصیت پرستی میں مبتلا ہونا معاشرے کو تباہی کی طرف لے جائے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply