بادشاہ گر/مرزا شہباز حسنین

ماضی میں بادشاہ بنتے تھے اور بادشاہ گر بنائے جاتے تھے۔
آج کے دور میں بادشاہ گر بنتے ہیں اور وہ جسے چاہتے ہیں بادشاہ بناتے ہیں۔
ماضی کی تاریخ سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ بادشاہ اپنی اولاد میں سے جسے چاہتا اسے ولی عہد مقرر کر دیتا۔ اسی ولی عہد نے مستقبل کا بادشاہ بننا ہوتا تھا۔ اب مستقبل کے بادشاہ کو بادشاہت کے گر سکھانے کے لئے مختلف اتالیق موجود ہوتے تھے۔ یہی لوگ اصل میں بادشاہ گر تھے۔ جو اک معصوم سے شہزادے کی تعلیم و تربیت اور بادشاہت کے متعلقہ تمام امور میں دل جمعی سے تربیت کرتے۔
مستقبل کے بادشاہ کی تمام ذہانت و فطانت انہی بادشاہ گروں کی مرہون منت ہوتی تھی۔
یہ بادشاہ گر اپنے وقت کے بہترین اساتذہ ہوتے تھے۔ تمام شعبہ جات میں ماہر ترین۔بادشاہ کی شخصیت میں ان بادشاہ گروں کی مہارت نظر آتی تھی۔مغلوں کے دور میں سید برادران بہت مشہور گزرے ہیں۔ جنہیں بادشاہ گر سمجھا جاتا تھا۔
ماضی میں بادشاہ بنتے تھے،اور بادشاہ کو بادشاہ گر بادشاہت کی تربیت دیتے تھے۔
جبکہ آج کے دور میں صورتحال تبدیل ہو چکی۔۔
اب
آج کے دور میں بادشاہی نظام تو ختم ہو چکا۔ ماسوائے چند عرب ممالک کے جہاں ولی عہد کا تعین کر دیا جاتا ہے۔ اور ولی عہد ہی نے مستقبل کا بادشاہ بننا ہوتا ہے۔ترقی یافتہ ممالک میں جمہوریت کا مستحکم نظام قائم ہے اور عوام کی رائے سے ملک کا سربراہ چُنا جاتا ہے۔باقی بچتے ہیں ترقی پذیر غریب ممالک تیسری دینا کے ممالک، جہاں پر جمہوری نظام انتہائی کمزور حالت میں موجود ہوتا ہے۔جمہوریت کے نام پر اک اپاہج سا نظام موجود ہوتا ہے۔جس میں عوام کی رائے کے بر عکس ملک کے انتطام و انصرام کی ساری طاقت بادشاہ گر کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔

یہ بادشاہ گر اب ماضی کے بادشاہ کے اتالیق استاد نہیں ہوتے بلکہ مملکت کے کرتا دھرتا اور حقیقی معنوں میں ملک کے سیاہ و سفید کے مالک ہوتے ہیں۔جنہوں نے عوام کو رجھانے کے لیے اک بادشاہ رکھا ہوتا ہے۔اب بادشاہ بادشاہ گر کی مرضی کا ہوتا ہے۔بادشاہ کٹھ پتلی ہے جس کو بادشاہ گر اپنی انگلیوں پر نچاتا ہے۔بادشاہ گر کی مرضی ہے جو چاہے جیسے چاہے وہ کرے۔ملک خداداد میں بادشاہ گر نے اپنے ساتھ معاون بھی شامل کیے ہوئے ہیں۔ جو بادشاہ گر کی خواہشات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہمہ وقت دستیاب ہوتے ہیں۔
بادشاہ گر یعنی کنگ میکر نے اک ایسا متوازی نظام قائم کر رکھا ہے۔ جس میں بادشاہ جب تک کنگ میکر کی منشا کے مطابق حکم کی تعمیل کرتا رہے وہ بادشاہ رہتا ہے۔جس دن حکم عدولی کرے  ذلیل و رسوا کر کے عوام کے سامنے پھینک دیا جاتا ہے۔عوام اپنی تمام محرومیوں کا  ذمہ دار ہمیشہ بادشاہ کو سمجھتی ہے۔کیونکہ بادشاہ گر اور اس کے معاونین عوام کی نظروں سے اوجھل رہ کر یہ کھیل اس عمدگی سے کھیلتے ہیں کہ عوام ہمیشہ بادشاہ کو ہی  ذمہ دار سمجھتی ہے۔بادشاہ گر تو کبھی عوام کے سامنے بے نقاب ہی نہیں ہوتا۔بلکہ بادشاہ گر کے معاونین بادشاہ گر کو عوام کی نظروں میں اک مسیحا بنا کر پیش کرتے ہیں۔ جو ہمیشہ عوام کی مسیحائی کے لیے سرگرم رہتا ہے۔بادشاہ گر عوام کا مسیحا محافظ ہمدرد دیوتا بھگوان جبکہ بادشاہ عوام کی تمام محرومیوں مشکلات کا  ذمہ دار ٹھہرتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

آج کے بادشاہ گر اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے بادشاہ کو فقط استعمال کرتے ہیں اور استعمال کے بعد کوڑے دان میں پھینک دیتے ہیں۔اور مزے کی بات ہے بادشاہ گر کے پاس استعمال ہونے والے بادشاہوں کی کوئی کمی نہیں۔اک بادشاہ جاتا ہے دوسرا اسکی جگہ سنبھالنے کے لئے تیار ہوتا ہے۔بادشاہ گر وں کا یہ کھیل 75 سال سے جاری ہے۔ بس اس میں بادشاہ تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔
جب تک عوام بادشاہ گر کو اپنا محافظ مسیحا اور نگہبان سمجھتی رہے گی یہ کھیل کامیابی سے چلتا رہے گا۔

Facebook Comments

مرزا شہبازحسنین
علم کا متلاشی عام سا لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply