صداقت کا سفر/عظیم الرحمٰن عثمانی

دین کے ہر سچے طالبعلم کو یہ چاہیئے کہ وہ اپنے مذہبی و مسلکی عقائد کا باریکی سے گہرائی میں اتر کر جائزہ لے۔ یہ جائزہ کسی دوسرے کو قائل کرنے کیلئے نہ ہو اور نہ ہی اس کا مقصد اپنی جھوٹی تسلی کے جواز تراشنا ہو۔ یہ ایک خاموش خود احتسابی اور تلاش حق کا عمل ہو جہاں انسان اپنے آپ میں جھانک کر پوری دیانت سے اپنے عقائد کو دلیل کی بنیاد پر للکار سکے۔ وہ خود سے پوچھ سکے کہ کہیں آج تک وہ مخاطبین سے اور اس سے بھی بڑھ کر خود اپنے آپ سے جھوٹ تو نہیں بولتا رہا؟ ۔۔ وہ جن عقائد کا حامل و مبلغ بنا پھرتا ہے ، کیا فی الواقع وہ انہیں ایک بدیہی حقیقت عقلی و قلبی طور پر سمجھتا بھی ہے یا وہ خود بھی آج تک ان کی صداقت پر مطمئن نہیں؟ ۔۔ کہیں ان عقائد سے اس کی وابستگی صرف جذباتی حد تک تو محدود نہیں؟ ۔۔

یہ صداقت کی تلاش کا سفر آسان نہیں بلکہ نہایت اذیت ناک ہے۔ یہ شعور کی تاروں کو ہلادینے اور لاشعور میں نصب بتوں کو ڈھا دینے کے مترادف ہے، جس کا تصور بھی مسافر کو خوف زدہ کرنے کیلئے کافی ہے۔ اس سفر کیلئے جو عزیمت و جرأت درکار ہے ، اس کا قصد یا حوصلہ کم ہی اذہان کرسکتے ہیں۔ مگر اے سالکین حق ، خوب جان لو کہ معرفت کا بیج ان ہی گھاٹیوں میں تناور درخت بنتا ہے۔ خدا اور دین کی سچی معرفت اپنے آپ میں دریافت کا عمل ہے۔ پھر کون ہے ؟ جو عقیدے کے گداز بستر اور عقیدت کی نرم چادر سے نکل کر تحقیق و تلاش کے یخ بستہ منجمد راستے پر برہنہ قدم چل سکے؟

لازم ہے کہ طالبعلم سابقہ فلسفوں،عقیدتوں اور تعصبات کا چشمہ اپنی آنکھوں سے اتار کر فقط سچ جاننے کا متمنی ہو۔ ضروری ہے کہ وہ تحقیق میں ترتیب کا خاص خیال رکھے۔ پہلی سیڑھی کو چھوڑ کر دسویں سیڑھی پر کودنا نقصان اور چوٹ کے سوا کچھ نہیں دے گا۔ اسے بنیاد سے شروع ہونا ہوگا اور پھر بقیہ عمارت کی تعمیر و توثیق کرنی ہوگی۔ اسے سب سے پہلے خود سے پوچھنا ہوگا کہ کیا وہ آخری درجہ میں اس حقیقت کا قائل ہے کہ اس کائنات کو بنانے والی کوئی ذات موجود ہے؟ اگر ہاں تو کیا وہ ایک ہے یا ایک سے زائد؟ کیا وہ صرف خالق ہے یا پھر مجھے اس کے سامنے جواب دہ بھی ہونا ہوگا؟ اگر خدا ہے تو اس کی صفات کیا ہیں؟ کیا اس کی ذات کا ادراک ممکن ہے؟ اگر ہاں تو کیوں؟ اگر نہیں تو کیوں؟

یہ وہ ابتدائی سوالات کا خاکہ ہے جو ایک سچے محقق کے ذہن میں سب سے پہلے ہونا چاہیئے۔ جب تک ان کے پرتشفی جوابات حاصل نہ ہوں، اسے دیگر سوالات میں الجھنے کی حماقت نہیں کرنی چاہیئے۔ یہی وہ بنیاد ہے جو معرفت کا دروازہ کھولتی ہے۔ اسی کی ترغیب ہمیں قران حکیم میں درج حضرت ابراہیم (ع) کے اس شعوری سفر کو پڑھنے سے ملتی ہے، جہاں وہ ایک مقام پر سورج، چاند، ستارے جیسے فطری مظاہر کو ایک کے بعد ایک خدا کی تعریف پر منطبق کرکے جائزہ لیتے ہیں اور بلاخر پکار اٹھتے ہیں کہ یہ مظاہر اپنی حقیقت میں خود مخلوقات ہیں جن کے نظم و وجود کو ایک نادیدہ مگر پرحکمت قوت سنبھالے ہوئے ہے۔ تفکر و تدبر کی یہی وہ بھٹی ہے جس میں سے دیگر رسل جیسے موسیٰ (ع) ، عیسیٰ (ع)، یوسف (ع)، محمد (ص) نبوت کے ظہور سے پہلے گزارے گئے ہیں۔ طالب حق کو چاہیئے کہ وہ فطری، تاریخی، عقلی اور نقلی تمام زاویوں سے ان سوالات کو پرکھے ۔ یہاں تک کہ ایک بار اچھی طرح سے یہ حقیقت ذہن میں جاگزیں ہوجائے کہ

کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے ، وہی خدا ہے ۔۔
دیکھائی بھی جو نہ دے نظر بھی جو آرہا ہے، وہی خدا ہے ۔۔
جو خانہ لاشعور میں جگمگا رہا ہے، وہی خدا ہے ۔۔

اب ترتیب وار طالب دیانتداری سے ساری محنت ان سوالات کو جاننے میں لگائے کہ کیا رسول (ص) واقعی اللہ کے رسول ہیں؟ کیا قران فی الواقع الله ہی کا کلام ہے؟ ۔ ان جوابات کے لئے اسے قران حکیم کو سمجھنا ہوگا، پیش کردہ دین پر غور کرنا ہوگا، اہل علم سے سوالات پوچھنے ہونگے اور سیرت رسول (ص) پر تدبر کرنا ہوگا۔ اسے اس وقت تک خود کو ان ہی چند سوالوں میں باندھے رکھنا ہوگا جب تک کہ وہ پوری صداقت سے ان کی حقانیت کا شعوری قائل نہ ہو جائے۔ یہی وہ مقام ہے جب عقیدہ عقیدت کے ساتھ حقیقت بن جاتا ہے۔ اب کوئی مشکل سے مشکل سوال بھی آپ کے ایمان کی بنیاد نہ ہلا سکے گا۔ آپ کو کسی ملحد، منکر یا فلسفی سے کوئی خوف نہ ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors

یاد رکھیئے کہ علم و کھوج کا سفر ختم نہیں ہوگا بلکہ اپنے جزیات میں غیر جانبداری سے جاری و ساری رہنا چاہیئے۔ گو چونکہ آپ نے عقائد کی بنیاد تحقیق سے گزر کر مستحکم کی ہے لہٰذا اب اگر کسی اٹھائے گئے سوال کا جواب آپ کو نہ بھی معلوم ہو تب بھی آپ کو یہ اطمینان موجود رہے گا کہ جواب ضرور موجود ہے، بس اب تک آپ کے علم میں نہیں ہے۔ یہ بھی دھیان رہے کہ جب وجود خدا یا رسالت جیسے کلیدی سوالات کے مشفی جواب عقل نے پالئے اور آخری درجہ میں کلام کا من جانب الله ہونا ثابت ہوگیا تو اب عقل اپنے بنانے والے کی نازل کردہ وحی کی پابند ہوگئی۔ اب یہ احکامات کی پوشیدہ حکمت تو ضرور کھوج سکتی ہے، طالبعلمانہ سوالات تو کرسکتی ہے مگر ان احکامات کے قبول و رد کا میعار ہرگز نہیں بن سکتی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply