کیا آپ مندرجہ ذیل پیراگراف پڑھ سکتے ہیں؟
Aoccdrnig to a rsheaearcr at Cmabridge Uinerevtisy it deosn’t mttaer in waht oredr the ltteers in a wrod are, the olny iprmoatnt tihng is taht the frist and lsat ltteer be at the rghit pclae. The rset can be a tatol mses and you can sitll raed it wouthit porbelm.
ایسے بہت سے کمپیوٹر پروگرام ہیں جو الفاظ کو بآوازِ بلند پڑھ سکتے ہیں لیکن سپیلنگ کی اتنی غلطیاں ہوں تو گڑبڑا جاتے ہیں۔
لیکن جب آپ نے اس کو بآسانی پڑھ لیا تو یہ ایک مثال ہے کہ یہاں پر پراسس کئے جانے کا طریقہ الگ ہے۔ آپ کا ذہن یہ بات نوٹ کر لیتا ہے کہ کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ اور اس کے بعد یہ بھی کہ مسئلہ کیا ہے۔ پھر پہلے اور آخری حروف پر زیادہ زور دیتا ہوا، درمیان کے حروف کو ڈھیلے ڈھالے طریقے سے پڑھتا ہے۔ الفاظ کے تناظر کی مدد لیتے ہوئے یہ ان کے معنی کو ڈی کوڈ آسانی سے کر لیتا ہے۔
جبکہ انگریزی پڑھنے والا کمپیوٹر الفاظ کو لغت میں دیکھے گا۔ املاء کی کچھ غلطیوں کو سنبھال بھی لے گا لیکن پھر پھنس جائے گا۔ لیکن اگر اسے پہلے سے بتا دیا جائے کہ یہ مسئلہ کس نوعیت کا ہے تو پھر اسے حل کر دے گا۔
کمپیوٹنگ کی رفتار تیز تر ہوتی جائے گی۔ لیکن ابتدائی دہائیوں کی طرح انسانی طرز کی مصنوعی سوچ جلد بنا لینے امید اب باقی نہیں۔ اس پیراگراف کو پڑھنا اس کی ایک مثال ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسے ٹاسک جہاں پر لچکدار سوچ کی ضرورت پڑ جائے جدید کمپیوٹرز کے لئے انتہائی مشکل ہیں۔
اس کی مثال ڈیوڈ آٹر ایک سوال سے دیتے ہیں۔ “کرسی کیا ہے؟”۔ کسی بھی چھوٹے بچے کو کرسی پہچان لینے میں مسئلہ نہیں ہوتا۔ لیکن کمپیوٹر کو کیسے سکھایا جائے گا؟
نہیں، یہ آسان نہیں۔ ایسی کئی اشیاء ہیں جن کی چار ٹانگیں اور سطح اور کمر ہوتی ہے۔ کئی کرسیاں ہیں جن کی ٹانگیں نہیں ہوتیں۔
کسی ریشنل یا رولز کی بنیاد پر طریقے سے کرسی کی تعریف مشکل کام ہے۔ کیونکہ یہاں پر کرسی کے انوکھے ڈیزائنوں کو بھی ذہن میں رکھنا پڑے گا۔ لیکن تیسری جماعت کا بچہ کیسے کرسی کو پہچان لیتا ہے؟ دماغ کا لچکدار حصہ non-algorithmic ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ ہم اپنے آئیڈیا اور حل کیلئے اس بات پر انحصار نہیں کرتے کہ درمیانی سٹیپ واضح ہوں گے۔ ہمارے غیرشعوری ذہن کے نیورل نیٹورک سالوں سے اس کی مثالیں دیکھتے رہے ہیں اور ایسے طریقے سے تربیت لے لیتے ہیں جن سے ہم خود آگاہ تک نہیں ہوتے۔
گوگل کے کئی ماہر سائنسدان نیورل نیٹورک کے ذریعے ان مسائل کو حل کرنے کیلئے دماغ کے طرز کے نیورل نیٹورک بناتے ہیں۔ یہ انسانوں کی نگرانی کے بغیر بصری پیٹرن دیکھ کر پہچان سکتے ہیں کہ تصویر میں بلی ہے۔ یہ معمولی چیز نہیں۔ لیکن اس کارنامے کو سرانجام دینے کیلئے ہزار کمپیوٹر مل کر کام کرتے ہیں۔ جبکہ ایک بچہ جو تین سال کی عمر کا ہے یہ کام ایک ہاتھ سے کیلا کھاتے ہوئے اور دوسرے سے دیوار پر “نقش و نگار” بناتے ہوئے بھی کر لیتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یہ ہمیں دماغ اور کمپیوٹر کے آرکیٹکچر کے کچھ بنیادی فرق کی طرف لے کر آتا ہے، جو ہمیں خود کو سمجھنے میں مدد کر سکتا ہے۔ ہمارے دماغ کے برعکس، کمپیوٹر سوئچ سےبنے ہیں جن کو سرکٹ اور لاجک کی ڈایاگرام سے سمجھا جا سکتا ہے۔ اور یہ اپنا تجزیہ linear طریقے سے کرتا ہے۔ جب گوگل کے سائنسدان ایک ہزار مشینوں کو جوڑ کر نیورل نیٹورک بناتے ہیں تو یہ ایک متاثر کن اور اچھا طریقہ ہے۔ لیکن دماغ اس سے کہیں زیادہ متاثر کن ہے۔ اربوں خلیات سے نیٹورک بنتا ہے جس میں ہر نیورون ہزاروں دوسرے نیورونز کے ساتھ جڑتا ہے۔ اور یہ نیٹورک زیادہ بڑے سٹرکچرز میں منظم ہوتے ہیں جو کہ پھر ان سے زیادہ بڑے سٹرکچرز میں منظم ہوتے ہیں اور پھر ۔۔۔ یہ ہائیرارکی کا بڑا پیچیدہ نظام ہے۔ سائنسدان اس کو ابھی سمجھنا شروع ہی ہوئے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم معمے قدم بہ قدم تجزیاتی سوچ سے حل نہیں کرتے۔ جے کے رولنگ نے ہیری پوٹر کی دنیا کو اس طریقے سے ایجاد نہیں کیا تھا۔ اور نہ ہی چیسٹر چارلسن کو فوٹوکاپی مشین کا خیال اس طرح سے آیا تھا۔ یہ bottom up سوچ ہے جہاں سے غیرمتوقع بصیرت اور صورتحال کو نئے طریقے سے دیکھنے کی صلاحیت ہے۔
لیکن ابھی اس بارے میں آگے جانے سے پہلے ایک سوال۔
کمپیوٹر اپنی کیلکولیشن اس وجہ سے کرتے ہیں کہ کسی نے ان کو آن کر دیا ہے اور کہیں پر کلک کیا جا رہا ہے۔ ہمارے دماغ آن کیوں ہوتے ہیں؟
ہم آخر سوچتے کیوں ہیں؟
ُ(جاری ہے)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں