نرگسیت/محمد جمیل آصف

انسانی زندگی اور نفسیات کو سب سے زیادہ متاثر کرنے والا عنصر نرگسیت کی کیفیت کا شکار ہونا ہے ۔
یہ کیفیت اتنی پُر اثر ہوتی ہے جس میں متاثرہ فرد کبھی تسلیم ہی نہیں کرتا کہ وہ اس شخصی تبدیلی کا شکار ہو چکا ہے ۔

افراط و تفریط کے مزاج میں باریک بینی سے لوگوں کی خامیوں کا جائزہ لینا اور انہیں اپنی سوچ فہم یا بہت زیادہ سماجیات پر پرکھنا انسانی فطرت، طبیعت اور ذہنی سکون کے لیے کتنا زہر قاتل ثابت ہوتا ہے اس کا اندازہ ایسے افراد کو ایک طویل عرصہ کے بعد معاشرے سے لاتعلقی اور تنہائی کے تاوان کی صورت ادا کرنا پڑتا ہے ۔

ہر فرد اس کی رائے، اس کا معاشرتی طرز زندگی کا ڈھانچہ، خاندانی رہن سہن اور عبادات تک کے معاملات مختلف ہوتے ہیں ۔

دنیا میں مختلف طبقہ فکر سے ہی فکری، علمی اور عملی راہیں نشوونما پاتی ہیں اور سوچوں کو جلا بخشتی ہیں۔

نرگسیت ایک ایسا رویہ ہے جو خود کی ذات کو کامل، اپنی سوچ کو پختہ اور دوسرے کی خامیوں، کمزوریوں کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے ۔

جب یہ انسانی رویہ اپنی جڑ پکڑ لیتا ہے تو دوسرے شخص کے لباس سے بولنے کے انداز اور کھانے و نششت وبرخاست تک کو تنقیدی نگاہ سے اس شخص کے سامنے پیش کرتا ہے ۔

پھر ہر وہ چیز جو اس کی سوچ سے مطابقت نہیں رکھتی منفی انداز سے اس کے سامنے ہوتی ہے ۔ جسے پھر وہ فطری طبیعت کے ہاتھوں مجبور ہو کر بظاہر مصلح مزاجی میں بیان کرنے پر ہر جگہ آمادہ نظر آتا ہے ۔

حالانکہ یہ بات ہر شخص کی شخصیت کے مثبت تاثر کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر خیال، مشاہدہ اور سیاسی و فقہی معاملات بیان کرنے کے قابل نہیں ہوتے ۔

معاشرے میں صحت مند طرز تعلق برقرار رکھنے کے لیے اور اپنی مثبت شخصیت کا تاثر اجاگر کرنے میں بہت سی چیزوں اور رویوں کو درگزر کرنا پڑتا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

یکسانیت، ہم مزاجی اور خیر و شر کا یک طرفہ پہلو کم از کم اس دنیا میں تو ممکن نہیں ۔یہاں آپ کو مختلف الخیال، مختلف المزاج لوگوں سے ہی معاملہ رکھنا پڑے گا ۔عقل مندی بھی یہی ہے کہ لوگوں کو ان کے رویوں کے ساتھ قبول کرکے معاشرے میں رہنا سیکھنا چاہیے ورنہ کسی بھی رویے میں افراط و تفریط کا مزاج شخصیت کے ساتھ جسمانی و نفسیاتی طور پر کتنا نقصان دہ ہوتا ہے ۔اس کا اندازہ  ملک میں موجود فاؤنٹین ہاوسز میں مقیم افراد کی حالیہ کیفیت اور ان کی گفتگو سے لگایا  جا  سکتا  ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply