کیا مسلم لیگ نواز گونگی ہے؟/محمد اسد شاہ

منی لانڈرنگ کے جعلی مقدمے میں وزیراعظم میاں شہباز شریف اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کی باعزت بریت جہاں ان دونو ں معزز صاحبان کی توقیر میں اضافے کا باعث ہے ، وہاں مسلم لیگ نواز کے لیے بھی باعث راحت ہے ۔ اس عدالتی فیصلے نے عمران خان اور اس کی جماعت کے بیانیے کی بھی دھجیاں اڑا دی ہیں ۔ جس لمحے یہ فیصلہ جاری ہوا ، اسی لمحے سے عمران اور اس کی جماعت عدلیہ کے خلاف مسلسل زہرناک تنقید کر رہے ہیں ۔ بعض نے تو باقاعدہ دفاعی اداروں کے متعلق بھی نہایت افسوس ناک گفتگو کی ہے ۔ خصوصاً اعتزاز احسن ، فواد چودھری ، اعظم سواتی اور شیخ رشید جیسے لوگوں کے بیانات کا کوئی جواز سمجھ میں نہیں آتا ۔ شریف فیملی کے خلاف ذاتی بغض میں یہ لوگ اس حد تک چلے گئے کہ غلط اور درست میں تمیز سے ہی محروم ہو چکے ۔

اداروں میں افسران کے تبادلے ہوتے رہتے ہیں اور اس معاملے میں عدالتوں یا سیاست دانوں کی مداخلت نہیں ہوا کرتی ۔ لیکن عمران حکومت کے خاتمے کے بعد جب بعض تفتیشی اداروں کے چند افسران کے روایتی تبادلے ہوئے تو عمران نے ایک جلسہ عام میں کہا کہ عدالت کو اس پر ازخود نوٹس لینا چاہیے ۔ اگلے ہی دن عدالت نے ان تبادلوں پر ازخود نوٹس لے لیا، ان تبادلوں کو منسوخ کرنے کا حکم جاری کر دیا اور آئندہ کے لیے بھی منتخب وفاقی حکومت کو تبادلوں سے روک دیا ۔ منی لانڈرنگ کا یہ مقدمہ جسے میں نے آغاز میں ہی “جعلی” لکھا ہے ، وہ حقیقتاً عدالت میں جعلی ثابت ہو چکا ۔

یہ مقدمہ نومبر 2020 میں عمران حکومت نے قائم کیا اور غالب امکان یہی ہے کہ خود عمران ہی کے ذہن کی پیدوار تھا ۔ جناب بشیر میمن وضاحت کر چکے ہیں کہ عمران نے وزیراعظم ہاؤس میں طلب کر کے انھیں حکم دیا کہ غداری کا کوئی جعلی مقدمہ تیار کیا جائے جس میں میاں محمد نواز شریف، محترمہ مریم نواز، میاں شہباز شریف اور ان کے دیگر اعزہ کے نام شامل ہوں ۔ جب میمن صاحب نے اس مجرمانہ اور جعلی کارروائی سے انکار کیا تو عمران نے محترمہ مریم نواز کے حوالے سے نہایت گھٹیا الفاظ استعمال کیے ۔ میمن صاحب نے بارہا انٹرویوز میں یہ بات تفصیلات کے ساتھ بتائی ہے اور عمران اپنے منہ سے آج تک ان باتوں کی تردید نہیں کر سکا ۔

اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ عمران ذاتی اقتدار کی خاطر کس حد تک جا سکتا ہے ۔ اسی طرح سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، رانا ثناء اللّٰہ خان ، خواجہ سعد رفیق ، پروفیسر احسن اقبال ، خواجہ سلمان رفیق وغیرہ کو جس طرح جعلی مقدمات بنا کر بار بار گرفتار کیا گیا ، وہ بھی عوام کے علم میں ہے ۔ منی لانڈرنگ کے مذکورہ مقدمہ میں تمام دستاویزات وہی تھیں جو عمران کے مقرر کردہ افسران نے تیار کی تھیں ۔ تبادلے بھی عمران ہی کے مطالبے پر سپریم کورٹ نے روک دیئے تھے ۔ فرد جرم بھی عائد نہیں کی گئی تھی ۔ بلکہ عمران حکومت خود 13 ماہ تک اس مقدمے میں فرد جرم عائد ہونے کے راستے میں رکاوٹ بنی رہی ۔ کیوں کہ انھیں علم تھا کہ فرد جرم کے بعد مقدمے کا کھوکھلا پن ظاہر ہو جائے گا ۔ مقدمے کو مصنوعی طوالت دلواتے ہوئے شہزاد اکبر جیسوں کے ذریعے مسلسل پریس کانفرنسز کروائی گئیں اور لغو پروپیگنڈا کروایا جاتا رہا ۔ خود عمران اور اس کے اقرباء جلسوں اور بیانات میں شہباز شریف کو منی لانڈرنگ کے طعنے دیتے رہے ، لیکن کسی عدالت میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیا ۔ عرب امارات میں مقیم ملک مقصود احمد نامی کسی شخص کے اکاؤنٹ کو میاں شہباز شریف کے ساتھ زبردستی جوڑنے کی کوششیں کی گئیں ، لیکن جب بھی عدالت ثبوت مانگتی، عمران حکومت کے وکلاء اگلی تاریخ کا وعدہ کر کے غائب ہو جاتے تھے ۔

واضح رہے اس مقدمے سے نجات کے لیے شہباز شریف اور حمزہ شہباز نے آئین میں نئی ترامیم کا کوئی سہارا بھی نہیں لیا ۔ بلکہ اسی قانون کے تحت کیس جاری رکھا گیا جو جنرل پرویز مشرف اور جنرل امجد جیسوں نے خاص طور پر مسلم لیگ نواز کے خلاف مقدمات چلانے کے لیے بنایا ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب قانون بھی عمران اور اس کے سابقہ سرپرستوں والا ، تفتیشی افسران بھی عمران ہی کے مقرر کردہ، جج بھی وہی جن کے پاس عمران حکومت نے مقدمہ بھجوایا ، چالان بھی وہی جو عمران کے پسندیدہ افسران نے لکھا ، دستاویزات بھی وہی جو عمران حکومت میں تیار ہوئیں تو پھر کس منہ سے عمران اس بریت کو این آر او کہہ رہا ہے اور کس وجہ سے اس کے ساتھی از قسم اعتزاز احسن ، شیخ رشید ، فواد چودھری اور اعظم سواتی اس فیصلے پر اعتراض کر رہے ہیں یا ملک کے دفاعی اداروں کو ملوث کرنے کی شرم ناک کوششیں کر رہے ہیں ۔ جھوٹ کی ایک مکروہ چکی ہے جو گزشتہ تقریباً اڑھائی دہائیوں سے چل رہی ہے اور جسے عمران اپنی “جدوجہد” کہتا ہے۔

دوسری طرف پنجاب میں فرح گوگی اور بشریٰ پنکی وغیرہ کے ذریعے عمران کی مبینہ کرپشن کی تحقیقات کے لیے جو افسران تعینات تھے ، ان کو عمران پارٹی کی پنجاب حکومت نے تبدیل کر دیا اور تفتیشی کاغذات میں ہی مقدمہ ختم کروا لیا ۔ اس پر نہ تو مسلم لیگ نواز نے کوئی شور مچایا ، نہ ہی کسی عدالت نے تبادلوں سے روکا ۔ جس پرویز الٰہی کو عمران ہمیشہ پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہتا رہا ، اسی کو عمران نے پنجاب کا وزیر اعلیٰ بھی بنوا دیا ۔ یہ کرپشن کے خلاف کیسی جدوجہد ہے کہ سب سے بڑے ڈاکو کو سب سے بڑا عہدہ دیتے ہو؟ پرویز الٰہی کے بیٹے مونس کے خلاف کرپشن کیس میں تو باقاعدہ عدالتی فیصلہ بھی موجود ہے ۔ اسی مونس کو عمران نے وفاقی وزیر بنایا ۔ اور آج کل وہی مونس الٰہی کسی سرکاری ، قانونی یا اخلاقی جواز کے بغیر پنجاب کے تمام فیصلے اور اعلانات کرتا ہے، وزیر اعلیٰ کی تمام سرکاری ملاقاتوں اور اجلاسوں میں مرکزی نشست پر براجمان ہوتا ہے ۔ اخبارات کو سرکاری طور پر ان ملاقاتوں اور اجلاسوں کی جو تصاویر جاری کی جاتی ہیں ، ان کے کیپشن میں پورے اہتمام سے مونس الٰہی کا نام ضرور لکھوایا جاتا ہے ۔ لیکن بیس پچیس سال کی جدوجہد کے دعوے کرنے والا عمران اور اس کی پوری جماعت اس پر مکمل خاموش ہیں ۔ لطف کی بات یہ کہ مسلم لیگ نواز بھی خاموش ہے ۔

قارئین کو یاد ہو گا کہ جب 2013 میں محترمہ مریم نواز کو یوتھ لون سکیم کا چیئرپرسن تعینات کیا گیا تھا تب عمران کی جماعت فوراً شور مچاتی ہوئی عدالت میں پہنچ گئی تھی ۔ چنانچہ یہ بات سمجھ لی جائے کہ عمران کی نظر میں سارے اصول اور سارے جواز صرف اس کی اپنی ذات اور پسند و ناپسند کی بنیاد پر بنتے ہیں ۔ کرپشن کے خلاف نعرے بازی صرف اس وقت تک چلتی ہے جب تک آپ اس کے ساتھی نہ بن جائیں ۔ ورنہ جیسے ہی آپ اس کے ساتھی بنیں گے ، اسی وقت آپ فرشتہ بن جائیں گے ۔ پرویز الٰہی ، مونس الٰہی ، شیخ رشید، اعظم سواتی سمیت بے شمار مثالیں موجود ہیں۔

گزشتہ اتوار کو ہونے والے ضمنی انتخابات نے بہت سے سوالات کھڑے کر دیئے ہیں ۔ عمران کو ان انتخابات میں امیدوار بننے کی اجازت کیسے ملی؟ تضادات کا گورکھ دھندہ ہے جس کا جواب عمران دے سکتا ہے نہ ہی اس کے مخالفین ۔ عمران پہلے ہی قومی اسمبلی کا رکن ہے ۔ اس نے استعفیٰ دیا جو سپیکر نے اب تک منظور نہیں کیا ۔ پھر خود عمران ہی کی جماعت اپنے ان استعفوں کے خلاف عدالت میں کہتی ہے کہ وہ ابھی تک قومی اسمبلی کے رکن ہیں ۔ ایک شخص جو قومی اسمبلی کا رکن ہے ، وہ اسی قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں امیدوار کیسے بن سکتا ہے اور الیکشن کمیشن کا عملہ اس کے کاغذات نامزدگی منظور کیسے کر سکتا ہے؟

اس کی مثال یوں ہے کہ ایک شخص کسی کالج میں ریاضی کا لیکچرر ہے اور اسی حالت میں وہ اسی کالج میں ریاضی کے لیکچرر کے طور پر تعیناتی کی درخواست بھی جمع کروائے ۔

اس کا کیا مطلب ہے؟

کیا اس کی درخواست جمع کی جا سکتی ہے یا اس کو ٹیسٹ یا انٹرویو میں شامل کیا جا سکتا ہے؟

جب کہ وہ جس نشست پر تعینات ہے ، اسی پر تعیناتی کا مطالبہ بھی کر رہا ہے ۔ اسی سال اپریل میں سپریم کورٹ آف پاکستان عمران خان ، عارف علوی اور قاسم سوری کو آئین شکنی کا مجرم قرار دے چکی ہے ۔

حکومت سے یہ سوال ہے کہ چھ ماہ گزرنے کے باوجود سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی بنیاد پر ان تینو افراد کو سزا دلوانے کے لیے عدالت میں ریفرنس کیوں دائر نہیں کیا گیا؟ حکومتی جماعتوں اور امیدواروں سے سوال یہ ہے کہ ضمنی انتخابات میں اسی فیصلے کی بنیاد پر عمران کے کاغذات نامزدگی کو مسترد کرنے کی درخواستیں کیوں نہ جمع کروائی گئیں؟

الیکشن کمیشن سے سوال یہ ہے کہ اس فیصلے کی موجودگی میں عمران کے کاغذات نامزدگی کس طرح منظور کر لیے گئے؟ ضمنی انتخابات میں قومی اسمبلی کی ہر نشست پر اوسطاً 50 کروڑ روپیہ خرچ ہوا ۔ عمران چونکہ پہلے ہی قومی اسمبلی کا رکن ہے ، چناں چہ اسے ان چھ نشستوں سے دست بردار ہونا پڑے گا ۔ ان چھ نشستوں پر پھر سے ضمنی انتخاب ہو گا یعنی مقروض قوم کا مزید تین ارب روپیہ اس تماشے میں برباد ہو گا ۔ کیا یہ پیسہ عمران خان یا اس کی جماعت ادا کرے گی یا الیکشن کمیشن کے وہ افسران اپنی جیبوں سے ادا کریں گے جنھوں نے قومی اسمبلی کے ایک موجود رکن کو اسی اسمبلی کی سات نشستوں سے امیدوار بھی بنا لیا؟

Advertisements
julia rana solicitors

اور ایک سوال عمران سے کہ اسمبلیوں کی مدت جولائی 2023 تک ہے تو اسمبلیاں توڑنے اور آئینی مدت سے قبل الیکشن کروانے کے مطالبے کا کیا جواز ہے؟ کیا اس لیے کہ چوں کہ اب وہ وزیراعظم نہیں ہے تو اسمبلیاں ہی توڑ دی جائیں؟ اور ایک سوال مسلم لیگ نواز والوں سے ، کہ کیا ان کی پوری جماعت میں عمران جیسی تقریر کرنے ، اس کی کرپشن کے قصے عوام کو بتانے والا کوئی ایک بھی مقرر نہیں ہے؟ اگر مسلم لیگ نواز اسی طرح گونگی بنی رہے گی تو ملک میں جھوٹ اسی طرح منہ مانگے داموں بکتا رہے گا جس طرح امسال جولائی اور اکتوبر کے ضمنی انتخابات میں گلی گلی بکتا رہا ۔

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply