مزدور آمریت اور سرمایہ دارانہ آمریت میں فرق۔۔ ہمایوں احتشام

دو یا دو سے زیادہ پارٹیوں کی باری باری حاصل کی گئی حکومتیں جو دراصل ایک ہی طبقے یعنی سرمایہ دار طبقے کی نمائندگی کرتی ہیں۔ یعنی صرف چہرے تبدیل ہوتے ہیں لیکن حکومت اسی طبقے یعنی سرمایہ دار طبقے کے پاس رہتی ہے، اس طرز کی حکومتیں سرمایہ دارانہ آمریت کہلاتی ہیں۔ یہ حکومت دراصل آمریت کی ہی ایک شکل ہے لیکن صرف لفاظی کی حد تک جمہوریت ہونے کا ناٹک کرتی ہیں، ان نام نہاد جمہوریتوں کو مزدور طبقے کے انقلاب (سیاسی شورش، مسلح جدوجہد یا کوئی دوسرا طریقہ) کے  ذریعے گرا دیا جاتا ہے اور مزدور طبقے کی بالادست حکومت قائم کی جاتی ہے تو اسے مزدور آمریت کا نام دیا جاتا ہےـ یہ بالکل ویسے ہی ہوتی ہے جیسی سرمایہ دار طبقے کی جمہوریت ہے، مگر اب حکومت کرنے والے طبقے تبدیل ہوجاتے ہیں، جو پہلے مغلوب تھا اب غالب آجاتا ہے اور جو غالب تھا وہ مغلوب ہوجاتا ہے۔ حکومت کرنے کا حق صرف چند خاندانوں کے پاس نہیں بلکہ اکثریتی آبادی کے پاس چلا جاتا ہے۔ اس مزدور آمریت میں انتخابات بھی ہوتے ہیں اور جمہوری طریقے سے سب نظام چلتا ہے۔ سوویت یونین اور تمام سوشلسٹ ممالک میں ایسے انتخابات ہوتے رہتے تھے۔ کیوبا اور شمالی کوریا میں ورکرز پارٹی اور کمیونسٹ پارٹی کے انتخابات ہوتے ہیں اور پنچائیتوں میں نمائندگان کا تقرر ہوتا ہے، ان نمائندوں کو عام مزدور اور کسان ہی منتخب کرتے ہیں۔

میرے کچھ دوستوں کا شکوہ ہے کہ اسٹالن بدترین آمر ہے جس نے ملک میں جمہوریت کا ملیا میٹ کردیا، سنگل پارٹی حکومت بنائی اور لاکھوں افراد کا قتل عام کیا، شخصی حکومت تشکیل دی۔ سنگل پارٹی بنانے کا جہاں تک تعلق ہے تو 1918 میں لینن نے سوشلسٹ انقلابیوں سے علیحدگی ہونے کے بعد مزدوروں کی پارٹی کی آمریت کو مزدور آمریت قرار دیا، اور مزدوروں کی راہنمائی کا بوجھ کمیونسٹ پارٹی کے کندھے پہ آگیا۔ اس اصول کو لاگو کرنے میں اسٹالن کا کوئی کردار نہیں تھا، بلکہ اس اصول کو پارٹی کی سنٹرل کمیٹی اور پولٹ بیورو سمیت تمام مزدور اور کسان سوویتوں نے بھی منظور کیا۔ یعنی یہ اصول مزدوروں کی متفقہ رائے سے منظور کیا گیا۔ ہاں لیکن اسٹالن نے اس لینن اسٹ بلکہ سوشلسٹ اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے ون پارٹی اصول سے انحراف نہیں کیا۔ دوسری بات کہ مارکسی تعلیمات میں ہے کہ ریاست ایک جبر کا آلہ ہے، جو اکثریت کے مقابلے میں اقلیت کے حقوق کا دفاع کرتا ہے۔ ایسے میں مزدور انقلاب کے بعد یہ اصول ختم ہوجانا چاہیے تھا، کیونکہ اب ریاست اکثریت کے زیر انتظام آچکی تھی۔ مگر لینن نے اس مارکسی اصول کو معروض کے مطابق یوں ڈھالا کہ “ریاست آہستہ آہستہ ختم ہوتی جائے گی، کیونکہ اب ریاست اکثریت کے ہاتھ میں ہے، جو اپنے کنٹرول کرنے والے طبقے کا دفاع مٹھی بھر پٹے داروں، جاگیرداروں، نپ مین، آڑھتیوں اور سرمایہ داروں کے خلاف کرتی ہے۔” اس مٹتی  ہوئی ریاست کو لینن نے نیم ریاست کا نام دیا۔

اب بات یہ ہے کہ اسٹالن نے کون سا قتل عام کیا؟ ماسکو ٹرائلز جس میں فسادیوں، کولاکوں، رد انقلابیوں، استعماری گماشتوں، سرمایہ داروں اور کیرئیر اسٹوں کو پارٹی سے نکالا گیا اور ان کی ریشہ دوانیوں کی بناء پر سزائیں دیں گئی۔ اس کے علاوه مزدور ریاست کیا اپنی بقاء کے لیے استعماری گماشتوں اور موقع  پرستوں کے خلاف تطہیراتی عمل بھی شروع نہیں کرسکتی؟ جبکہ اس کی بقاء کو شدید ترین اندرونی اور بیرونی خطرات ہوں۔ اس کے بعد بتاتا جاٶں کہ ماسکو ٹرائلز کے تمام مقدمات کا فیصلہ عدالتوں نے کیا، ان میں سے ایک بھی فیصلے کا جج اسٹالن نہیں تھا۔ مگر سرمایہ داری کے معذرت خواہاٶں نے ان ٹرائلز سے متعلق جھوٹا پروپیگنڈہ پھیلایا اور ان ٹرائلز کا ملبہ اٹھا کر اسٹالن کے سر مونڈھ دیا گیا۔ تاریخ نے استعماریوں اور ترمیم پسندوں کا پول کھول دیا اور گورور نے اپنی کتابوں میں ان تمام جھوٹوں کو جو کامریڈ اسٹالن سے منسوب کیا جاتا تھا بے نقاب کیا، اور کامریڈ اسٹالن کی سچائی اور حقیقی مارکسی لیننی سوچ کو دنیا کے سامنے پیش کردیا۔ اس کے علاوه سوویت آرکائیوز بھی اس بات کی گواہی دیں گے کہ ماسکو ٹرائلز کس قدر شفاف اور غیر جانبدار تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors

حالت یہ  ہے  کہ عالمی جنگ دوم میں فاشسٹوں اور جاپانیوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے کمیونسٹوں کی اموات کو بھی اسٹالن کے ہاتھوں قتل عام قرار دے دیا۔ 1918 کی خانہ جنگی میں مرے افراد بھی اسٹالن کے سر مونڈھ دیے۔ ایسی دشنام طرازی یا جھوٹ بولنے سے پہلے کچھ خیال کیا کیجیے، بھلا ایسی بہتان تراشی کرتے آپ کو شرم نہیں آتی ؟
آپ خود مانتے ہیں کہ سوشلسٹ ملکوں کا استعمار سب سے بڑا مخالف ہے اور وہ ہمیشہ اس تاک میں ہوتا ہے کہ سوشلسٹ ملکوں کو گزند پہنچا ئی جائے۔ ایسے میں جب وہ استعمار کے مقابلے میں اپنا دفاع کرنے کے لیے ہتھیار بناتے ہیں تو آپ کہتے ہیں کہ یہ بھی غلط ہے، یہ سوشلسٹ ملک عالمی امن کو خطرہ پہنچا رہے ہیں۔ یعنی آپ نے تو وہی بات کردی کہ اپنا دفاع کرنا، قومی آزادی کی بقاء کی جنگ مذاحمت کو زندہ رکھنا اور سوشلسٹ انقلاب سے حاصل کی گئی حاصلات کے بچاؤ  کے لیے استعمار کی اطاعت میں سر نہ ٹیکنا بدترین افعال ہیں، سوشلسٹ ملکوں کو ایسے نہیں کرنا چاہیے۔ انقلاب اور اس کی حاصلات کا دفاع کرنا جہاں کیوبا اور شمالی کوریا کے کمیونسٹوں اور مزدوروں کی  ذمہ داری ہے ویہیں یہ پرولتاری بین الاقومیت اور عالمی مزدور تحریک کا رکن ہونے کی بناء پہ یہ ہماری بھی  ذمہ داری ہے کہ استعمار کی جارحیت کے خلاف ہم اپنے برادر کمیونسٹ ملکوں کا دفاع کریں اور استعماری جھوٹی تشہیر کو بے نقاب کریں۔ شمالی کوریا کی بدترین آمریت آپ کو نظر آتی ہے، کیونکہ آپ شمالی کوریا کے بارے میں وہی کچھ جانتے ہیں جو سی این این، بی بی سی اور فاکس نیوز آپ کو بتاتا ہے۔ اور استعمار تو ہمیشہ جھوٹا پروپیگنڈہ کرکے دنیا کو سوشلسٹ نظام سے بدظن کرتا رہے گا، ایسے میں اپنے طور پہ انٹرنیٹ سے اس خودکفالت پہ یقین رکھنے والے ملک کے حالات کو تلاش کیجۓ۔ آمریت سے متعلق جاننا چاہتے ہیں تو کبھی ورکرز پارٹی آف کوریا کے انتخابات کے بارے میں مطالعہ کرلیجیے۔ جنوبی کوریا سے زیادہ بار شفاف اور کامیاب انتخابات کا انعقاد ہوا۔ کامریڈ کم جونگ ان نے زبردستی ملک پہ قبضہ نہیں کیا بلکہ ان کو پارٹی کی پولٹ بیورو اور سنٹرل کمیٹی نے کامریڈ کم جونگ ال کی وفات کے بعد منتخب کیا۔ آپ کی حواس باختگی  کا عالم یہ ہے کہ امریکہ کی استعماری جارحیت کے خلاف آپ سوشلسٹ کوریا کا دفاع کرنے سے اس لیے معذرت کرلیتے ہیں کہ وہاں اسٹالنسٹ ماڈل ابھی تک کام کررہا ہے اور “بدترین آمریت” ہے۔ لینن نے کہا تھا کہ “سیاسی آزادی کی کوئی مقدار بھوکے لوگوں کا پیٹ نہیں بھرسکتی۔” بھلا امریکہ میں موجود اس سیاسی آزادی کا کیا فائده جب لاکھوں افراد بھوکے ہوں، لاکھوں افراد گھروں سے محروم، بھاری تعداد میں لوگ بے روزگار ہوں۔ ایسے میں لوگوں کو روٹی چاہیے یا آپ کے بقول “آزادی”ـ
ایک جانب آپ کا دعوی ہے کہ آپ سرمایہ دار جمہوریت کی اقدار کے مخالف ہیں لیکن دوسری ہی جانب آپ توقع رکھتے ہیں کہ سوشلسٹ ملک بھی وہی راستہ اختیار کریں جو سرمایہ دار جمہوری ملکوں کا ہے، یعنی روٹی، کپڑا، مکان اور روزگار مہیا نہ کیا جائے، ہاں ان کو حکمران طبقے کی ڈرامہ بازیوں سے فیض یاب ہونے کی آزادی دے دی جائے، اگر آپ ایسا چاھتے  ہیں تو یہ انحراف ہوگا۔ سوویت یونین کے انہدام کے بارے میں یونانی کمیونسٹ پارٹی کے کتابچے میں، اس انہدام کی اہم ترین وجوہات میں سے ایک وجہ ” لوگوں کی پارٹی” اور “تمام لوگوں کی حکومت” کا ترمیم پسندانہ خیروشیف کا دیا گیا نعرہ تھا۔ پارٹی لوگوں کی نہیں مزدور اور کسان کے اتحاد کی تھی اور حکومت پرولتاری طبقے کی قیادت میں تمام پست حال طبقات کی۔ اس نعرے کی وجہ سے موقع  پرست پارٹی میں عود آئے اور انہدام کی وجہ بنے۔

Facebook Comments

ہمایوں احتشام
مارکسزم کی آفاقیت پہ یقین رکھنے والا، مارکسزم لینن ازم کا طالب علم، اور گلی محلوں کی درسگاہوں سے حصولِ علم کا متلاشی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply