آر یو اوکے؟۔۔انجینئر ظفر اقبال وٹو

آر یو او کے؟

انجنیئرظفروٹو

وہ ایک مسافر کو ڈراپ کرکے واپس گھر جارہا تھا کہ شہر کے پوش ہوٹل کے باہرایک قطار میں لگے درجن بھر فلیگ پوسٹس پر اسے سبز ہلالی پرچم لہراتا نظر آیا ۔اس کا دل دھک سے باہر آگیا کیونکہ یہ ناروے کا ایک دور دراز قصبہ تھا جس میں وہ واحد پاکستانی تھا- اسے یہاں رہتے ہوئے کئی برس بیت گئے تھے لیکن کسی اور پاکستانی سےاس شہر میں اس کا سامنا نہیں ہوا تھا اور وہ بھی اب اس ماحول میں رچ بس گیا تھا-غیر ارادی طور پر اس نے اپنی ٹیکسی کا رخ ہوٹل کے صدر دروازے کی طرف موڑ دیا اور ٹیکسی پارکنگ میں لگا کر وہ ہوٹل کے میں گیٹ سے استقبالیہ کی طرف بڑھا –وہ حیران ہورہا تھا کہ اندر سے یہ ہوٹل کتنا بڑا اور شاندار تھا- وہ تو بس اس کے باہر سے ہی ہر دفعہ گزر جاتا تھا اور کبھی اس کے اندر آنے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوئی تھی-

استقبالیہ پر بیٹھی سنہری رنگت کے بالوں والی نارویجئین لڑکی نے پیشہ ورانہ مسکراہٹ کے ساتھ اس سے پوچھا ” میں آپ کی کیا مدد کرسکتی ہوں؟”-اس نے باہر لگے پاکستانی پرچم کا پوچھا کہ اس کو آج ہوٹل کے باہر لہرانے کی کیاخاص وجہ ہے؟ ۔ لڑکی نے بتایا ” ہمارے ہاں آج ایک پاکستانی مہمان بھی ٹھہرے ہوئے ہیں تو اس وجہ سے یہ جھنڈا لگا دیا ہے۔”

اس کا دل اس مہمان سے ملنے کے لئے مچل اٹھا جس کی وجہ سے آج اس دور دراز جگہ پر بھی سبز ہلالی پرچم لہراتا دیکھنے کا موقع ملا تھا۔اس نے اپنی خواہش کا اظہار لڑکی سے کیا جو کہ تھوڑی بہت منت ترلے کے بعد اس کا رابطہ اس پاکستانی مہمان سے کروانے پر راضی ہوگئی تھی اور اب ملِک میرے کمرے میں بیٹھا مجھے احترماًاس طرح دیکھ رہا تھا جیسے میں ابھی ابھی حج کرکے مکہ سے لوٹا ہوں۔وہ مجھے اپنے گھر آنے کی د دعوت دے رہا تھا تاہم میرا اگلے پورے ہفتے کا شیڈول ہائیڈروپاور پراجیکٹس کے لئے بک تھا اور ویک اینڈ پر ہی ملاقات ہو سکتی تھی۔

میں خود اس طرح اتنی چھوٹی سے جگہ پر ایک ہم وطن کے ملنے پر خوش تھا اور اس سے ناروے میں ملنے والے کھانوں کے بارے میں شکوہ کر رہاتھا۔ پچھلے دوتین دن سے مسلسل ابلی ہوئی لوبیا، ابلے چاول اور آلو کھا کھا کر ٹیسٹ بڈ جواب دے چکے تھے ۔نمک مرچ کے شدید کمی کے شکار اس ملک میں اگلے چند ہفتے گزارانا مشکل نظر آرہا تھا۔ملک مجھے ناروے میں اپنی سیٹنگ بنانے کے قصے سنا رہا تھا کہ کس طرح وہ آج سے پندرہ بیس سال پہلے خالی ہاتھ کسی نہ کسی طریقے سے یہاں پہنچنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔پہلے ایک گوری سے شادی کی،پیپر ببنائے اور پھر جب کاغذ برابر ہوگئے تو پاکستان سے شادی کرکے بیگم کو لے آیا اور اب ماشااللہ اس کا ایک چھوٹا سا ریسٹورنٹ اور تین ٹیکسیاں چل رہی تھی۔ دو بچے تھے جو کہ وہیں کی جم پو تھےاور اردو بمشکل ہی سمجھ سکتے تھے۔

میں نے کہا” یہ بتاو ملک کہ ادھر تو پاکستانی نہیں ہیں تو تمھارا ریسٹورینٹ کیسے چلتا ہے”۔ کہنے لگا ” آپ بھی بڑے سادہ ہو۔ بھئی ہم گوروں کی خوراک اور مشروبات بیچتے ہیں ۔مجبوری ہے”۔ میں نے اسے کہا کہ اس کا مطلب ہے اب تم سیٹ ہوگئے ہو اور خوب مزے ہورہے ہیں۔اس کے چہرے پر ایک رنگ آکر گزر گیا تاہم وہ سنبھلتے ہوئے رونی صورت بنا کر بولا ” کہاں بھائی؟ مزے تو پاکستان میں ہیں۔۔۔۔ ادھر تو پد مارنے کے لئے بھی حکومت کی اجازت لینی پڑتی ہے۔میں اپنے گھر میں ایک نیا باتھ روم بنانا چاہ رہا تھا۔ سب سے پہلے میونسپیلٹی کو درخواست دی۔ ان کے لوگوں نے فزیبیلٹی چیک کی کہ اس سے گھر بندوں کے لئے رہنے کی کم سے کم گنجائش تو متاثر نہیں ہوگی۔پھر ان کے لائسنس یافتہ نقشہ ساز سے گھر میں باتھ روم کا ترمیمی نقشی بنوایا۔ پھر ان کے منظور کردہ پلمبر سے پلمبنگ کا کام کروایا، بجلی والے سے بجلی اور پھر سینٹرل ہیٹنگ والے سے اس کا کام کیونکہ ہمیں یہاں باتھ روم ہر وقت خشک رکھنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں ہوتے تو جس طرح مرضی بنا لیتے”۔

پھر مزیذ فرمانے لگا کہ” میں یہاں ٹیکسی چلاتا ہوں لیکن ادھر کے قانون کی پابندی نے میری ڈرائیوننگ ایسی خراب کر دی ہے کہ قسم سے میں اب پاکستان میں جا کر خود گاڑی ڈرائیو نہیں کر سکتا۔ ہمیشہ ٹھوک دیتا ہوں- اسی لئے اب پاکستان جاتے ہی میں سب سے پہلے رینٹ پر ڈرائیور سمیت کار لیتا ہوں جو میرے پورے قیام کے دوران میرے ساتھ رہتی ہے”۔میں نے کہا “یہ تو واقعی ظلم ہے “۔

Advertisements
julia rana solicitors london

وہ ضد کرکے زبردستی مجھے اپنے ساتھ گاڑی میں سٹی سنٹر کا چکر لگوانے لے گیا۔پھر اس نے مجھے ریل اسٹیشن بھی دکھایا ہم نے ایک جگہ سے کافی پی ۔ اب رات ہورہی تھی اور نائٹ لائف انگڑائی لے کر اٹھ بیٹھی تھی ۔ کلب اور بار آباد ہونے لگے تھے اور سڑک کنارے سجائی گئی کرسیوں پر نوجوان جوڑے بیٹھے پینے پلانے میں مشغول تھے-ہم نے دو گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد واپسی کی راہ لی۔ سٹی سنٹر سے نکلتے ہی ایک اشارہ سرخ تھا لیکن ملک صاحب نےبائیں طرف کے بار کی طرف جاتے ہوئے ایک جوڑے کو مسلسل دیکھتے ہوئے اپنی گاڑی آگے بڑھا لی جو مخالف سمت سے آنیوالی کار کے ساتھ ٹھک گئی۔ گاڑیوں کی ٹکر کی آواز سن کر سڑک کنارے بائیں طرف کے بار میں اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ داخل ہوتی لڑکی تیزی سے بھاگ کر ملک صاحب کی طرف دوڑی اور انہیں تھپتھپا کر بولی ۔۔”آر یو اوکے ڈیڈ”

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply