اسلام آباد ،پولیس کے ناکے یا ڈیتھ سکواڈ

اسلام آباد ،پولیس کے ناکے یا ڈیتھ سکواڈ
طاہر یاسین طاہر
ریاست و حکومت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ قانون کی عمل داری کو یقینی بنائے۔مگر ریاست کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کو بھی یقینی بنائے۔ عمومی طور یہ کہا جاتا ہے کہ ریاست جب قانون کی عمل داری کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات اٹھاتی ہے تو اس کی توجہ کا مرکز شہریوں کا تحفظ ہی ہوتا ہے اور بادی النظر مٰن یہ بات درست بھی معلوم ہوتی ہے۔ ہم مگر جو تیسری دنیا کے باشندے ہیں،ہمارے ہاں قانون کی عمل داری کم اور فیوڈلز ،کی من مانی زیادہ چلتی ہے۔ہمارے ہاں پولیس ناکے معمول کی بات ہے۔ ان ناکوں کا مقصد سماج دشمن عناصر پر نظر رکھنا اور انھین قانون کے شکنجے میں لانا ہوتا ہے۔منشیات فروش،سمگلرز،دہشت گرد اور اغوا کار بالخصوص ان پولیس ناکوں کا ہدف ہوتے ہیں۔
تاریخی ٰ اعتبار سے ایسا مگر بہت کم ہوا ہے کہ کوئی انتہائی مطلوب دہشت گرد،سمگلر،منشیات فروش یا اشتہاری کسی پولیس ناکے پر پولیس کی گرفت میں آ گیا ہو۔اس کے باوجود ان ناکوں سے سماج دشمن عناصر کے دلوں میں ایک کوف سا ضرور ہوتا ہے اور وہ کھلم کھلا یا بے خوف و خطر ان پولیس ناکوں کو عبور نہیں کرتے،اگرچہ دہشت گرد،منشیات فروش،سمگلر دیگر طریقوں اور غیر مقبول راستوں سے شہروں میں داخل ہو ہی جاتے ہیں۔راولپنڈی اور اسلام آباد کے داخلی و خارجی راستوں پر پولیس و رینجرز کے کئی مشترکہ ناکے ہیں جبکہ بیشتر جگہوں پر صرف پولیس کے جوان ہی ناکہ بندی کیے ہوتے ہیں۔عام طور پر ان ناکوں سے گزرنے والی ان ہی گاڑیوں یا موٹر سائیکلوں کو روکا جاتا ہے جن پر کہ پولیس والوں کو شک گذرے یا دوسرے شہروں سے اسلام آباد میںداخل ہونے والی گاڑیوں کے مسافروں اور گاڑیوں کی چیکنگ کی جاتی ہے۔
یہ امر واقعی ہے کہ کسی بھی ناکے پہ موجود رینجرز یا پولیس کے اہلکاروں کو یہ اجازت نہیں کہ وہ کسی شہری پر گولی چلائیں۔ اگر بالفرض گاڑی یا موٹر سائیکل روکنے پر ،کوئی مشکوک شخص یا اشخاص گاڑی بھگا لیتے ہیں تو اس کے لیے بیترین حل یہی ہے کہ ان کا پیچھا کر کے ان کی گاڑی کا ٹائر برسٹ کیا جائے ،یا پھر اگلے ناکے پر وائر لیس کے ذریعے اطلاع کر دی جائے اور یوں بھاگنے والی گاڑی کو گھیر کر اس میں موجود افراد کو گرفتار کای جائے،تلاشی لی جائے اور قانونی کارروائی کی جائے۔ اگر ناکے پر گاڑی روکنے کے اشارے پر گاڑی میں موجود افراد پولیس یا رینجرز کے اہلکاروں پر فائرنگ شروع کر دیتے ہیں تو پھر پولیس و رینجرز کے اہلکاروں کو یہ حق ہے کہ وہ جوابی کارروائی کریں۔اس جوابی کارروائی کے دوران میں مشکوک شخص ہلاک بھی ہوجائے تو ریاست،قانون اور عام شہریوں کی ساری ہمدردیاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ ہی ہوتی ہیں۔اسلام آباد میں بالخصوص بے شمار ناکے لگے ہوئے ہیں۔ اگر کوئی شخص کسی ایک ناکے سے بھاگنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اگلے ناکوں پر اطلاع کر کے اسے گرفتار کرنا ممکن ہے۔مگر گذشتہ سے پیوستہ روزسلام آباد میں تھانہ سبزی منڈی کے علاقے آئی ٹین ون میں پولیس ناکے پر موجود ایگل فورس کے 2 اہلکاروں نے ایک گاڑی کو رکنے کا اشارہ کیا، گاڑی نہ رکی تو سمیع اللہ نیازی نامی اہلکار نے فائرنگ کر دی جس سے ایک شخص جاں بحق ہو گیا جبکہ گاڑی میں موجود خاتون محفوظ رہی۔پولیس فائرنگ سے ہلاک ہونے والے نوجوان کا تعلق مردان اور لڑکی کا تعلق لاہور سے بتایا جارہا ہے۔ایف آئی آر کے مطابق اہلکار سمیع اللہ نیازی نے گاڑی پر عقب سے تین فائر کیے، جن میں سے ایک گولی نوجوان تیمور کے سر میں عقب سے لگی اور اس کی موقع پر ہی موت واقع ہوگئی۔واقعے کے بعد نوجوان کے ورثاء نے آئی جے پی روڈ پر احتجاج کیا اور نوجوان کی لاش ایمبولینس میں رکھ کر سڑک بند کردی، جس کے باعث وہاں گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں۔ فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے تیمور کے والد رفیق بٹ کا کہنا تھا کہ ہم نے سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا کہ پولیس اہلکاروں نے روکے بغیر فائرنگ کی اور تیمور کو تین گولیاں لگیں، ہمیں صبح 4 بجے واقعہ کی اطلاع دی گئی اور ایس ایچ او نے کہا کہ پولیس اہلکار کو گرفتار کر لیا ہے لیکن اس سے ہماری ملاقات نہیں کرائی گئی۔ انہوں نے کہا کہ وزیر داخلہ اور چیف جسٹس آف پاکستان ہمیں انصاف دلائیں۔
دریں اثنا اسلام آباد میں پولیس فائرنگ سے نوجوان کی ہلاکت کے بعد ناکوں پر اقدامات کے لئے ہدایت نامہ جاری کردیا مشکوک گاڑی کے بھاگنے کی صورت میں صرف ٹائر پر فائر کرنے کی اجازت ہو گی۔ہدایت نامے میں واضح کیا گیا ہے کہ کسی مشکوک شخص پر سیدھے فائر کی اجازت کراس فائرنگ کی صورت میں ہوگی اس ہدایت نامے کا اطلاق شہر کی تمام داخلی اور خارجی پوسٹوں پر ہوگا اس پرعمل نہ کرنے والے اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔بتایا جا رہا ہے کہ لڑکی کو مرحوم تیمور نے لاہور سے سالگرہ کے لیے بلوایا تھا۔دونوں کی دوستی فیس بک پہ ہوئی تھی۔
یہ امر افسوس ناک ہے کہ شہری بھی اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے سے کرنے سے کتراتے ہیں جس کے باعث دل سوز واقعات وقوع پذیر ہوتے ہیں۔گاڑی بھگا لے جانے کی کئی وجوھات ہو سکتی ہیں جنھیں تحقیقی ادارے ضرور دیکھیں گے۔ لیکن پولیس کو بھی اپنے رویے پہ نظر ثانی کرنی چاہیے کہ آخر وجہ کیا ہے کہ شہری ان سے اس قدر گریز پا ہیں؟اسلام آباد کے پولیس ناکوں پہ اس نوع کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ البتہ ان ناکوں کے بارے یہ بھی ہے یہاں شریف شہریوں کو تنگ کیا جاتا ہے اور ان سے نذرانے بھی وصول کیے جاتے ہیں۔ہر واقعے کے بعد احکامات جاری کر دیے جاتے ہیں ۔اگر پولیس اپنے رویے میں دوستانہ تبدیلی لائے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس محکمے کو اس طرح کے شرمناک اور دل سوز واقعات کے باعث ندامت کا سامنا کرنا پڑے۔نیز شہریوں کو بھی چاہیے کہ وہ ذہ دار شہری ہونے کا ثبات دیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون کریں۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply