خطِ جدّی/کبیر خان

خط اُس سبزہِ نو رُستہ کو ہی نہیں کہتے جس کی آمد پر ماں نورِ نظر کو معمول کا تھپڑ جڑتی ہے ، پھر یہ فیصلہ نہیں کرپاتی کہ لاڈلا دوشاخہ آواز میں رو رہا ہے یا کم بخت کورس میں ہنس رہا ہے ؟۔ وہ مخمصے(بلکہ ’’بھمبلبھوسے‘‘) میں پڑجاتی ہے کہ بے دھیانی میں کہیں کِواڑ کے پیچ قبضے زنگ تو نہیں پکڑ گئے؟ اور میں ناس پِٹّی ساس کی منجی تلے ڈنگوریاں پھیرے جاتی ہوں؟؟

خط عربی اور فارسی میں لکیر، تحریر، نشان ، اور مکتوب کو بھی کہتے ہیں ۔ مکتوب یا خط کی کئی قسمیں رائج ہیں ۔ جیسے ذاتی، رسمی، عمومی، کاروباری، سرکاری خط ، ای میل ، مورس کوڈ اور سربستہ رازسائفر ( جواپنے یہاں سارے سارے دن سرکاری اور نجی ٹی وی پر طشت از بام ہوتا رہتا ہے) ۔ اسی رازداری کو ہماری بولی میں’’اُگیاڑ بھگیاڑ‘‘ اور سلیس اُردو میں الف ننگا ہونا کہتے ہیں۔

اردو ادب میں سِّرنہاں کا باضابطہ آغاز میرزا اسد اللہ خاں نے اپنے مجموعہ خطوط ”عودِ ہندی” میں کیا پھر دھیرے دھیرے ”اردوئے معلی” ، ”مکاتیب غالب” اور ”مہر غالب” سے ہوتے ہوئے ربّ جانے کہاں پہنچ گئے۔اُن کی دیکھا دیکھی ابوالکلام نے مکاتیبِ آزاد ، مولانا الطاف حسین حالی نے خطوط اور مرزا رجب علی بیگ سرور نے ”انشائے سرور” کے نام سے شائع کروا کر بازار میں پہنچادیئے۔ مفتیانِ انشاپرردازی میں اس امر پر اجماع امّت پایا جاتا ہے کہ یہ خطوط بازی انشا پردازی کی اعلیٰ مثال ہیں ۔ لیکن سہل پسندوں کے لئے ’’لیلیٰ کے خطوط‘‘ مصنّفہ قاضی عبدالغفار کافی و شافی ہیں ۔ منہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے’’لیلیٰ کے خطوط ‘‘سے ایک ٹکڑا بھلے آپ بھی چکھ کر دیکھ لیں:
’’   آپ نے کیوں اپنے مافی الضمیر کو الفاظ کے پردہ میں چھپایا، شرمانے کا کوئی محل نہیں! یہی تو کہ آپ بھی میرے حسن کے خریدار ہیں ۔ ۔ ۔‘‘

یا یہ کہ

’’  آپ نے کیوں نہ فرما دیا کہ آپ کی منزل دسترخوان کی حدود سے آگے ہے! کیا نہیں ہے؟‘‘۔

لیلیٰ کے خطوط سے کافی دور تک متاثر ہونے کے بعد ماسٹر بلونت سنگھ سیمؔاب نے بھی پھڑکیلے خطوط لکھے، جیسے:’’ اے حسن کے پرمیشور! تم میرے پیارے ہو۔ میری آنکھوں کے تارے ہو۔ میری زندگانی کے سہارے ہو۔ میرے دل میں تمہارے لئے اُنس و محبت ہے۔ پریم شردھا اور بھگتی ہے۔ آج تک آپ کی کوئی سیوا نہیں کر سکا۔ پچھلے دنوں یہ ناچیز تحفہ آپ کی جدائی میں بے قرار ہو کر رقم کیا تھا۔ سو نہایت دلی عقیدت ، عجز و انکسار ، صدق دل ، خلوص اور محبت بھرے دل کے ساتھ آپ کی خدمت اقدس میں تخلیقات کے پھولوں کا خوشنما ، خوبصورت تحفہ پیش کرتا ہوں۔ ۔۔۔۔۔۔۔ گر قبول افتد زہے عزو شرف۔۔۔۔ ناچیز سیماب ڈراماٹسٹ ۔۔۔۔۔ شان نگر۔۔۔‘‘

لیلیٰ کے خطوط اور سیمابؔ کی چِٹھیاں پڑھ پڑھ کر اپنا ’’بِشّی‘‘ بھی ایک دن اچانک بڑا ہو گیا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بستہ آٹھویں کے ٹاٹ تلے دفنا کر اسکول سے غائب ہو گیا۔ پہاپے، بابے، چاوے ڈھونڈ ڈھانڈ کر ’’پھاوے‘‘ ہوئے پھر رو دھو کرپاسے ہو رہے۔ نو مہینے پورے ہونے میں ابھی تین دن باقی تھے کہ گاؤں کی واحد دُکان کے پتہ پر چِٹّھی رساں چِٹّھی چھوڑ گیا۔ جس کے لفافہ پر دومونہی ، دو رنگی پنسل سے پہلے مروّج انتباہ درج تھا :
’’مندوئی‘‘ لاکھ بُرا چاہے کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے

اس کے بعد پتہ درج تھا اور آخر میں مکتوب الیہ کا نامِ نامی اسم گرامی ۔ اسکول سے واپسی پردکاندار نے ’’جان سے پیارے دوست سِردار اخمت خان زُلفیؔ‘‘ کو اُن کی زندگی کا پہلا سربمہر لفافہ تھمایا۔ جسے اپنے ’’آشیانہِ عالیہ‘‘(گھر کے قریبی گھنے جھاڑ) پر پہنچ کر کھولتے ہوئے مکتوب الیہ کے پسینے چھُٹے ، ہونٹوں پر پپڑی جمی اور ہاتھوں  پر لرزہ طاری تھا۔ اُس کی سب سے بڑی وجہ لفافہ سے لیک ہونے والی خوشبو تھی ۔ کیسے کیسے اندیشہ  ہائے دور دراز موصوف کو دہلا رہے تھے ۔ ۔ کھولوں کہ نہ کھولوں ۔۔۔۔۔ ؟ طویل تگ و دو سے ہار کر لفافہ چاک کیا۔ اندر جلی حروف میں لکھا تھا:

’’ یہ وہ سینٹ ہے جو ہیروئن نے میرے ساتھ پہلی فلم کی شوٹنگ کے دوران بھر بھر کےلگایا تھا۔ اوریہ جو فوٹو دیکھ رہے ہو،کسی ایرے غیرے کا نہیں ، تمہاری دعا سے ، تمہارے دِلی دوست کا ہے۔ جسے تم لاڈ سے’’بِشی ‘‘ اور فلمی دُنیا پیار سے منتوش کمار کہتی ہے۔ اورفوٹو میں ساتھ جو بھخاں بھخاں کرتی پَری ہے، ناچیز کی ہیروئن ملکہ ِحسن شمیم آرا ہے ۔ وہی شمیم آرا جس نے اعلان کر رکھا ہے کہ وہ اُس شیرجوان سے شادی خانہ آبادی کریں گی، جو باقی ماندہ کشمیر بدست خود آزاد کرائے گا۔ یہ فوٹو فلم کی شوٹنگ روک کر لیا گیا ہے۔ وہ کیا کہتے ہیں ؟، مہورت۔ ‘‘

باقی صورت احوال یہ ہے کہ مجھے تو تمہاری دعا سے ہیرو کا رول مل گیا ہے۔ میں نے بہت کہا کہ فی الحال ناچیز کو سائیڈ ہیرو ہی دے دیں ،اگلی فلم میں بھلے ہیرو بنا لینا۔ لیکن سیٹھ بڑا ضدی ہے۔ بولا۔۔۔’’میں تم میں سنتوش کمہار کی ساری خوبیاں دیکھ رہا ہوں، ویسا ہی نام رکھوں گا۔ آج سے تم منتوش کمہارہو۔ اور بس۔ ‘‘۔ اب تم ہی بتاو بندہ ایسے ضدی لوگوں کو کیا کہے۔ میرادل ہے کہ اپنے یار کے لئے بھی کچھ کر گذروں ۔ سوچتا ہوں کہہ کہلا کر اگلی کسی فلم میں تمہیں مظہر شاہ کا پارٹ شارٹ دلوادوں ۔ میری دلی دعا ہے کہ پردہ پر یار بیلی تمہیں میرے ہاتھوں خوب پِٹتے دیکھیں۔ اس میں ناراض ہونے کی کوئی بات نہیں ، جب تم سیکٹر ہیڈ کوارٹر کے موبائل پردہ سیمیں پر یاروں بیلیوں کے ساتھ دُھول گھٹے میں بیٹھ کر اپنا کام دیکھو گے تو خود پرخود تھوُ تھوُ کرو گے۔۔۔۔۔۔ ، کیا کہتے ہیں، چشمِ بد دور۔۔۔۔
پھر یوں ہوا کہ لاہور سے زلفی کے لئے منتوش کمار اور شمیم آرا کی جو جُڑواں تصویر تبرّکاً بھیجی گئی تھی، ویسی ہی ’’بن بہک فوٹوز‘‘ نے تین ٹانگوں والے کیمرے میں کاندھے تک بازو ڈال کر کھینچ نکالی ۔ فرق صرف یہ تھا کہ شمیم آرا کی جگہ

فردوس اور منتوش کمار کی تھاں زُلفی بقلم خود محوِ پرواز تھا۔ زلفی نے ایک تصویر منتوش کمار کے لئے اور دوسری پنجابی فلموں کی ملکہ جذبات فردوس کی خدمتِ اقدس میں بذریعہ معتبر ترین ذریعہ ڈاک ارسال کروا دی۔ اگلے دو تین دن میں چشمِ فلک نے ایک اور کایا کلپ ہوتے دیکھی ۔۔۔۔۔ ، تصویر کا ایک فریش (بلکہ رش ) پرنٹ نکل آیا۔۔۔۔، وہ دِلاں جو کبھی کی دِلوں اور بٹّوں سِلّوں سے اُتر چکی تھی، اچانک انگڑائی لے کر بیدار ہوئی۔ اور پھروہی سابق رنگ ڈھنگ۔۔۔
؎ ننگا رکھدی کلپ والا پاسا اُنج ساتھوں گُھنڈ کڈھدی

تازہ دنداسہ اور اس پر بے وجہ ہاسا۔ لش لش کرتے بکسوئے والے دو منزلہ سینڈلوں پر قدم قدم بھلیکھے ڈالتی چال ۔ کمر سے دور نیچے تک اِدھر اُدھرصدقے واری جاتا پراندہ ۔ یہ عقدہ آج تک نہیں کھُل پایا کہ دائیں کنّ پٹّی سے پوٹا بھراوپر تک بے حد ریشمی زلفوں کی تنگنائے غزل پر ویسا ہی دوپٹہ کیسے لٹکا ہوا تھا؟ ڈھاک پر گھڑا کیسے اٹکا اور مٹکا ہوا تھا؟۔ تلوے، اُنگلیاں، ناخن اخروٹی رنگ ڈھنگ میں مہندیائے ہوئے تھے، مان لیا ۔۔۔۔ لیکن بے سبب ہنسی میں جلترنگ سا کیسے گندھ گیا تھاـ۔۔۔۔ ؟۔ شفاف پانی میں شفاف ترعکس محوِ رقص کیسے تھا۔۔۔؟ گویا ایک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔

شمیم آرائیں ، زیبائیں، اور فردوسیں رہیں ایک طرف، اِدھر گراں موہڑے کی پرانی لیلائیں نئی وال چاکنگ ، کاغذی ہوائی جہازوں ، مقامی پتنگوں اورغلیلوں کے ذریعہ مکتوب الیہ کی طرف داغی جانے لگیں۔۔۔۔۔، ٹو ہوم اِٹ مے کنسرن۔ مضمون خواہ کچھ بھی ہو، مفہوم ایک ہی ہوتا تھا۔۔
ع تیرا پِچھّا نئیں چھڈنا بھانویں پے جان ہتھکڑیاں
اس ہوائی ڈاک کاایک فائدہ یہ ہوتا تھا کہ مُرسل اور مُرسل الیہ کے اتے پتے ہوا کے رُخ کے مطابق بدلتے رہتے تھے۔ (سیاست میں اب بھی یہی اصول رائج ہے)۔ چنانچہ کوئی

کسی کو زبانی قبول کرتا تھا نہ قلمی تسلیم ۔ اکثر متاع لوح و قلم چھِن جانے کے بعد بھی سلسلہ مراسلت چلتا رہتا تھا۔ بعض ایک ڈھاک پر چھلکتا گھڑا اٹکائے اوردوسری سے ڈیڑھ پونے دوسال کا ببوا لٹکائے پانی بھرنے کو نکلتیں تو اشاروں کنایوں کا تبادلہ تو ہو ہو جاتا ۔ مگر تابکہ؟ ایک دن معلوم پڑتا کہ وہ رازبردار جھاڑی غیرآباد اور ویران پڑی ہے ۔ وہ مقام ِفیض جہاں سے کبھی بگلے کے چھلّے توکبھی گھُٹے ہوئے ہاسے اُبھر کر ہوا میں تحلیل ہو جاتے تھے، اب کہیں دکھائی نہیں پڑتے۔۔۔۔ جھاڑی بوجوہ گنجی ہو چکی ہے۔۔۔۔۔ اور
ع صاف اِدھر سے نظر آتا ہے اُدھر کا پہلو

چنانچہ جہاں اخفائے رازکی کوئی ضمانت نہ ہو، وہاں سیانے دیوانے راستے بدل کر نکل لیتے ہیں ۔ شاخیں پتّے چِٹھیوں سندیسوں کے بار اٹھانے سے انکاری ہو جاتے ہیں ۔ ایسی میل کو بے ٹکٹ یا بے ٹھور ڈاک کہتے ہیں ۔ جسے چوہے بھی سونگھ کر رستہ بدل لیتے ہیں ۔ ۔۔۔۔
چِٹّھی نہ کوئی سندیس
جانے وہ کون سا دیس
جہاں تم چلے گئے

ایسی ہی کمیاب چِٹّھی کبھی کبھارہمارے گھر میں بھی آتی تھی۔ اور جب آتی تھی ، ایک ہنگامہ برپا ہوتا تھا۔ دادا ’’شام تنی‘‘ ایک پپرمنٹ لا دینے کے وعدہ پرہمیں دوڑاتے کہ ’’دادکے‘‘اور ’’نانکے‘‘ کے گھروں میں جا کر ’’بیورے بیورے‘‘جملہ بڑوں کو سدّا دے آو کہ چِٹّھی آئی ہے،نماشاں سے پہلے پہلے آکر پڑھ سُن جائیں۔ ہمیں دادکوں نانکوں کی طرف دوڑا کر خود بازار سے دیکھ بھال کے’’جوشی‘‘ چاول لانے نکل جاتے ۔ اور عصر کے قریب ایک کاندھے پر برانڈ کوٹ اور دوسرے پر ڈانگ کے ساتھ چاول کی تھیلی ہینگر کئے لوٹتے ۔ شام ویلے جب ’’رُٹی شُٹی‘‘تیار ہو جاتی تو نانا

’’ کُلی شُلی‘‘ کر کے پوسٹ کارڈ اٹھاتے اور اٹکل سے چِٹّھی پڑھنا شروع کرتے۔ (وہ خاندان قبیلہ کے واحد پڑھے پڑھائے بزرگ تھے جو ناصرف پچھلے ہفتے کا اخبارہفت روزہ سرفروش جوڑ کر کے اٹھال لیتے تھے بلکہ جملہ عدالتی اشتہارات کا بامعنی ترجمہ بھی با آواز بلند پڑھ کر بخشے کی بھرپور صلاحیت رکھتے تھے۔ چِٹّھی کا آغاز کچھ یوں ہوتا:
’’ با خِزمُت جناب کِبلا و قہوہ بالد صیب، بالدہ صیبا ، بڑے چاچا، پدّر اورجبّر والے چاچی چاچا، بڑی بے، نِکّی دے، کٹھّے والی بُبّی اور رنگڑ والی دیدی جی کے بعد بڑی بے کے پوترے پوتریوں کی ما کو ڈھیروں ڈھیر سلام دعا۔ بعد سلام کلام واضیا ہو کے یہاں پر ہر طرح کی خیرخیریت ہے اور آپ سب کی خیر خیریت خدا وند کریم سے نیک مطلوب چاہتا ہوں ۔ باقی سب پڑھنے سُننے والوں کو بوت بوت سلام کلام ۔ اوردوا ہے کہ سب ٹھیک ٹھاک ہوں ۔ کسی کو اُکھّر ٹھڈّا نہ لگا ہو گا۔ لگا بھی تو اتنا نہیں کہ بندہ رڑے میدان بھی ڈِرلی چاچے کی طرح ترپّے کھاتا پھرے۔ وینسے کھبّے پیر کے انگوٹھے کا خاص خیال رکھنا چاہیئے۔ باقی تھوڑا لکھے کو بہتا سمجھیں۔

باقی سورتے حال احوال یہ ہے کہ پھجّڑ والے شربت پہائی سے فُٹ پیری پر ملاقات ہوئی تھی۔ لگتا ہے وہ چھُٹی کی تیاری کر رہے ہیں ۔ مُنجے دیکھ کر کلِپ شلِپ واپس ریڑھی پر رکھ دیئے۔اُن کی منہ زبانی سننے میں آیا ہے کہ سلاح مہاند چاچا کے بال بچّے کے ہاں بال بچّہ ہوا ہے۔ آپ کی نونہہ کو بھی سہت شہیت کا دھیان رکھنا چاہیئے۔ کہیں اُکھر ٹھوکرلگ کر نانہہ شانہہ اُکھڑ جائے تو بڑا درد ہوتا ہے۔ باقی آپ خود سیانے بیانے ہیں۔ شربت پہائی کی منہ زبانی یہ بھی سُننے میں آئی ہے کہ کٹّا جننے پر جِیروُ نے مج سمیت سواہنی کو چونڈے سے پکڑ باہر کر دیا ہے۔ یہ بڑی جاستی کی بات ہے۔ قصور جننے والی کا ہے، جنوانے والی کا نہیں ۔ ایسی گُفیا باتیں گھروں سے باہر

نکلنے لگیں تو بندہ منہ دکھانے جوگا نئیں رہتا۔ باقی پڑھنے سُننے والے سب آپ سیانے بیانے ہیں ۔ تھوڑا لکھے کو بہتا جانیں۔۔۔۔۔۔۔ فکت آپ کا فرمانبردار بیٹا
واستا ئی ربّ دا توجانویں وے کبوتر
چِٹھّی میرے ڈھول نوں پہنچاویں وے کبوترا ۔۔۔۔۔ اللہ بیلی،اللہ راکھا۔ ‘‘

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمارے ہاں خط کی یہ قسم کئی دہائیوں تک رائج رہی ہے۔ اس خط کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس میں مکتوب الیہ سے جو بھی راز و نیاز کرنا ہے، سرِ عام کیا جاتا ہے۔ اور چھوٹوں بڑوں کے سامنے ، سرِ اجلاس کیا جاتا ہے۔ سُننے والے یا والی کے کانوں سے دھواں نکلنے لگے یا وہ دن کی پکّی رکھی ٹھنڈی ٹھار ہانڈی میں چمچہ چلانے کو سرک لے تو سمجھ لیں کہ تیر نشانے پر بیٹھا ہے۔ بصورت دیگر مِس فائر۔ بزرگوں کی سرپرستی میں لکھے پڑھے جانے والے اس خط کو راولاکوٹ سمیت پورے خِطّہ میں خطِ جدّی کہتے ہیں ۔اور اس سے انحراف خلاف قاعدہ قانون گردانا جاتا ہے۔ چنانچہ مشتری ہشیار باش۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply