مرنے کے بعد (Cryonics)- 1/وہاراامباکر

اس وقت چار کمپنیاں جو دنیا میں کرائیونکس کا بزنس کرتی ہیں۔ ایریزونا میں Alcor سب سے بڑا اور مشہور ادارہ ہے۔ اس کے علاوہ مشی گن میں کرائیونکس انسٹی ٹیوٹ، کیلے فورنیا میں امریکی کرائیونکس سوسائٹی اور روس میں کرائیوروسٹ یہ خدمات فراہم کرتی ہیں۔
سب سے پہلے اس ادارے کا ممبر بننا ہے۔ قانونی دستاویزات پر دستخط کرنے ہیں کہ مرنے کے بعد آپ کا جسم یہ ادارہ تحویل میں لے لے گا۔ پھر فیس ادا کرنی ہے۔
اگر آپ پورے جسم کو منجمد کروانا چاہتے ہیں تو اس کی فیس دو لاکھ ڈالر ہے۔ اگر سستا کام کروانا ہے، تو اس کا طریقہ neuro cryopreservation ہے۔ اس میں صرف سر کو جمایا جاتا ہے۔ اور اس میں اسی ہزار ڈالر کا خرچ ہے۔ یہ پیسے لائف انشورنس سے آتے ہیں۔ ایک بار یہ سب کر لیا تو اب آپ باقاعدہ ممبر ہیں۔ آپ کو پہننے کیلئے ایک نیکلس اور بریسلٹ دے دیا جائے گا جس میں آپ کی ممبرشپ ہو گی اور ایمرجنسی کی صورت میں ہدایات ہوں گی کہ انتقال ہو جانے کی صورت میں کرنا کیا ہے۔
اب اگلا مرحلہ تو صرف مرنے کا ہی ہے اور یہ بہت اہم ہے۔ کیونکہ سوال یہ ہے آپ کس طرح سے مرتے ہیں؟
مثلاً، اگر آپ گاڑی کے حادثے میں کچلے جاتے ہیں جس میں دماغ پر سے ٹریکٹر کا پہیہ گزر گیا ہے تو پھر قصہ ختم۔ لیکن اگر ایک مہلک بیماری کے ہاتھوں بسترِ مرگ میں جان دیتے ہیں تو پھر معاملہ فرق ہے۔
اور یہ وجہ ہے کہ کرائیکونکس سوسائٹی کے ممبر کہتے ہیں کہ ممبر بننے کے بعد ان کا زندگی گزارنے کا طریقہ زیادہ محتاط ہو گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب بسترِ مرگ پر ہوں تو کرائیونکس کمپنی الرٹ ہو جاتی ہے تا کہ وفات کے ساتھ ہی اپنا کام شروع کر دے۔
سب سے پہلے جسم کو برف پر رکھا جاتا ہے۔ خون کو رواں رکھنے کیلئے CPS کیا جاتا ہے۔ جسم کے اندر ادویات داخل کی جاتی ہے جو جسم کو خراب ہونے اور خون کو جمنے سے بچائیں۔ Heart-lung مشین سے منسلک کر دیا جاتا ہے جو جسم کے اندر سے حرارت چوس لیتی ہے، جب تک یہ جمنے کے قریب نہ پہنچ جائے اور پھر یہاں پر جادو ہوتا ہے۔ بڑی شریانوں میں میڈیکل گریڈ کا cryoprotectant محلول داخل کیا جاتا ہے۔ اگلے چند گھنٹوں میں یہ مکسچر خون کی جگہ لے لیتا ہے۔ ایک بار جسم اس سے بھر جائے تو پنکھوں اور مائع نائیٹروجن کے ذریعے جسم کو منفی 87 ڈگری سینٹی گریڈ تک سرد کیا جاتا ہے۔ اسے glass transition temperature کہا جاتا ہے۔ یہ وہ درجہ حرارت ہے جس میں جسم شیشے جیسی حالت کو پہنچ جاتا ہے۔ اور اس وقت میں جسم میں بہنے والا اینٹی فریز اس میں کرسٹل بننے سے بچاتا ہے جو ٹشوز کو پھاڑ دیتے۔
یہ vitrification کی حالت ہے۔ ایک بار اس تک پہنچ جائیں تو جسم کو ایک بڑے تھرماس میں رکھ دیا جاتا ہے جو دس فٹ لمبا اور ساڑھے تین فٹ چوڑا ہے۔ ایسے ایک تھرماس میں پانچ اجسام آتے ہیں۔ اس میں مائع نائیٹروجن بھری ہوتی ہے اور اس کا درجہ حرارت منفی 125 ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا ہے۔ اور یہاں پر آپ کو الٹا لٹکا دیا جائے گا۔ یہ اس لئے کہ اگر کسی وجہ سے تھرماس میں کوئی خرابی ہو یا ٹوٹ جائے تو سر غیرمنجمد ہو جانے سے محفوظ رہے۔
اور یہاں پر اب آپ الٹے لٹکے رہیں گے۔
کب تک؟ یہ کسی کو بھی نہیں پتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں پر خیال یہ ہے کہ جسم کو اس وقت تک اس حالت میں رکھا جائے جب تک میڈیکل ٹیکنالوجی اس مقام تک نہیں پہنچ جاتی جب وہ اس کو بحال کرے، منجمد ہونے کے دوران ہونے والے ضرر کی مرمت کرے، اور انہیں جو بھی بیماری ہوئی تھی، اس کا علاج کر دے۔
کرائیونکس کمپنی کے مطابق، یہ سو سال بھی ہو سکتے ہیں، ہزار سال بھی۔
ہو سکتا ہے کہ اس میں جسم میں ان گنت نینوبوٹ چھوڑ دئے جائیں جو تیرتے پھریں، خلیات کو مرمت کرتے رہیں۔ یا پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایٹمی سطح تک جانا پڑے اور ایٹموں کی ترتیب میں کچھ ردوبدل کرنا ہو۔ اور ایسی ٹیکنالوجی کے ذریعے جس کا ہم ابھی تصور بھی نہیں کر سکتے۔ یا پھر یہ طریقہ موجودہ میڈیسن کے قریب تر ہو۔
کرائینوکس کمپنی کا کام آج سے لے کر اس وقت تک ایک پُل بنانا ہے۔ یہ اپنے کام کو ایمرجنسی سروس کی توسیع کے طور پر دیکھتی ہیں۔
تصور کریں کہ آپ ہسپتال میں قریب المرگ ہیں۔ اب ڈاکٹر کچھ نہیں کر سکتے لیکن ساتھ کے شہر میں ایک دوسرا ہسپتال ہے جہاں پر کچھ نئے آلات آئے ہیں جو آپ کی جان بچا سکتے ہیں۔ ایمرجنسی سروس احتیاط سے آپ کو سپورٹ پر ڈال کر ایمبولنس میں اس جگہ لے جاتی ہے جہاں علاج کیا جا سکے۔
کرائیونکس کمپنی ایسی ایمبولینس ہے جس میں سفر جگہ کا نہیں بلکہ وقت کا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب اگلا سوال یہ کہ کس ترتیب میں لوگوں کو یہاں سے نکالا جائے گا؟ اس میں پالیسی یہ ہے کہ آخر میں آنے والے کو سب سے پہلے نکالا جائے گا۔
سب سے پہلے منجمد کئے جانے والے شخص جیمز بیڈفورڈ تھے۔ یہ ایک ماہرِ نفسیات تھے جن کے ساتھ یہ 1967 میں کیا گیا۔ نکالے جانے میں ان کا نمبر آخری ہو گا۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply