عقائد و نظریات میں تقلید درست کیوں نہیں؟ / حمزہ ابراہیم

عملی معاملات میں پیچیدگی کم اور وسعت زیادہ ہوتی ہے۔ انکے علم میں گہرائی کم، پھیلاؤ زیادہ ہے۔ فروعات میں موضوعات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ لیکن عقائد و نظریات میں موضوعات کم ہوتے ہیں، مگر گہرے اور لطیف ہوتے ہیں۔ لہٰذا فروعات میں اس کے سِوا کوئی چارہ نہیں کہ معاشرے کے چند لوگ ہی مہارت حاصل کریں، باقی انکی مہارت پر اعتماد کرتے ہوئے فائدہ اٹھائیں۔ البتہ کسی حد تک نظری علوم سے واقفیت کے بغیر ماہرین کی عملی رہنمائی سے فائدہ اٹھانا ممکن نہیں ہوتا۔

اسے یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ منطقی انداز میں سوچنا ہر انسان کی اپنی ذمہ داری ہے۔ لیکن سب علوم میں مہارت سب حاصل نہیں کر سکتے۔ لہذا بیمار آدمی کو علاج کیلئے ڈاکٹر کے پاس جانا ہو گا۔ لیکن اگر کوئی شخص منطقی انداز میں نہیں سوچتا، ڈاکٹر اسکی مدد نہیں کر سکتا۔ ہاں جو شخص کسی حد تک بیالوجی (حیاتیات) کی فہم رکھتا ہو، اسے ڈاکٹر کی بات کو سمجھنے میں آسانی ہو گی اور ڈاکٹر کی مہارت کی تصدیق کرنا بھی اس کیلئے آسان ہو گا۔ یہاں بیالوجی نظری علم ہے اور طب عملی علم ہے۔

تمام عملی علوم کی جزئیات میں جانا ہر انسان کیلئے ممکن نہیں ہے۔ ایک تو زندگی محدود ہے دوسرا بچپن سے ہی ہر کسی کو عملی مسائل سے واسطہ پڑنے لگتا ہے اور عملی علوم میں تقلید کی ضرورت ہوتی ہے۔ چنانچہ ان میں ماہر سے رجوع کرنے کے سوا چارہ نہیں ہے۔ فروعات میں ماہرین سے غلطی بھی ہو جائے تو اسکا نقصان کم ہوتا ہے، لیکن عام آدمی عملی معاملات میں خود سے قیاس آرائی کرے تو نقصان زیادہ ہو گا۔ دنیاوی معاملات میں اس فرق کی ایک اور مثال آئین کی ہے۔ آئین کا جو عملی پہلو ہے، یعنی قوانین، ان میں آپ وکلاء کی تقلید کرتے ہیں یا خود وکیل بنتے ہیں۔ لیکن جو آئین کا نظری پہلو ہے، یعنی سیاست، اس میں تقلید ممکن ہی نہیں۔ آپ کو سیاستدان کے دلائل سمجھنا ہوتے ہیں۔ انکے درست یا غلط ہونے کا فیصلہ بھی آپ پر ہوتا ہے۔ اپنی منطق مضبوط کرنا، درست سوچنا، ذہن کو سیدھا رکھنا، یہ آپکی اپنی ذمہ داری ہوتی ہے۔ دینی اعتبار سے دیکھا جائے تو لوگ فقہی مسائل میں ماہرین کی تقلید کرتے ہیں۔ اگر فروعات میں تقلید نہ ہو تو قیاس مع الفارق کا شکار ہو سکتے ہیں، کہ جس سے روکا گیا ہے۔ لیکن اصولِ دین میں تقلید کو حرام کہا گیا ہے، کیونکہ اس صورت میں عقل پر شخصیت پرستی کا پردہ پڑ سکتا ہے۔

عقائد میں ہر کسی کو خود سیکھنا ہوتا ہے کیونکہ یہ سوچ کا معاملہ ہے اور صحیح سوچنا ہر انسان کی اپنی ذمہ داری ہے۔ نظریات میں تقلید کا مطلب انسانیت سے ہاتھ اٹھانا اور بھیڑ بکری بن جانا ہے۔ عملی مشکلات تو تقلید سے حل ہو سکتی ہیں لیکن نظری مشکلات تقلید سے حل نہیں ہو سکتیں۔ بچے کے ذہن میں بچپن کے ناگزیر تجربات سے منطقی بدیہیات پیدا ہوتی ہیں اور معاشرے سے تعامل کر کے وہ زبان سیکھتا ہے۔ پھر جب اس کے ذہن کا نظم پیشرفت کرتا ہے، تب ہی نئے نئے نظری مسائل کو حل کرنے کی ضرورت پیدا ہوتی ہے۔ اگر نظری سوالات کا جواب تلاش کر کے کلیات کے علم میں اضافہ نہ کیا جائے تو نئے سوال بھی پیدا نہیں ہوتے۔ لہٰذا زندگی کی ابتداء سے ہی نظری مسائل کے حل کی ضرورت نہیں ہوتی کہ ماہرین کی فوری مدد درکار ہو۔ عقائد میں گہرائی بھی بہت زیادہ ہے، لہٰذا جوں جوں پیچیدگی بڑھے گی توں توں ان میں تقلید خطرناک ہوتی جائے گی، پھسلنے کی صورت میں گمراہی در گمراہی کا سفر شروع ہو گا۔ اسی لئے منطق میں شخصیت کو دلیل بنانا ایک مظالطہ قرار دیا گیا ہے۔ ”توسل بہ شخصیت“ (argument-from-authority) کسی معنی کو سمجھنے میں مددگار نہیں ہو سکتا، ہاں دھوکے میں ڈال سکتا ہے۔ شِبہ علم یا جہلِ مرکب کا شکار بنا سکتا ہے۔ پس ہر فرد جس حد تک ممکن ہو عقائد و نظریات میں خود علم حاصل کرے۔ زیادہ گہرائی میں جانا ممکن نہ ہو تو جتنا میسر ہے اتنا سیکھے۔ اس میں ماہرین صرف سہولت کار اور استاد کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ خود انکی عقل بھی معصوم عن الخطاء نہیں ہوتی۔

نیز کائنات کو ٹھیک سے سمجھنا ذہنی صحت اور فکری وسعت کیلئے بھی بہت ضروری ہے اور سماجی بہبود کا تقاضا بھی ہے، اس لئے ان علوم سے گریز معیارِ زندگی کو پست کر دیتا ہے۔ عوام کا درست سوچنا اور نظری مسائل میں صحیح اور غلط میں تفریق کرنا ایک سماج کی کامیابی کیلئے بھی بہت ضروری ہے۔ اکثر اوقات نیک نیتی سے کئے جانے والے جرائم کی بنیاد نظری جہالت ہوتی ہے، جیسا کہ نسل کشی وغیرہ۔

نظری علوم میں بہت گہرائی ہے۔ کوئی چاہے تو نفسیات کا ماہر بن جائے، سائنس میں آگے چلا جائے، یا سیاست کا پروفیسر بن جائے۔ لیکن ہر آدمی بہت آگے نہیں جا سکتا۔ البتہ لازم ہے کہ اپنے ذہن کو جس حد تک ممکن ہو منطق کا پابند بنائے۔ باہر سے کوئی کسی کی سوچ کو درست نہیں رکھ سکتا، جبر سے صرف بگاڑ پیدا کیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ ڈاکٹر یا انجینئر کی تو تقلید ہو سکتی ہے، مگر سائنسدان کی تقلید نہیں ہو سکتی۔ سائنسدان کی شخصیت حجت بھی نہیں کیونکہ اس سے بھی غلطی کا امکان ہوتاہے۔ اسکے دلائل کو دیکھنا ہوتا ہے، سوال اٹھانے ہوتے ہیں اور پھر خود ان سوالوں کا جواب ڈھونڈنا ہوتا ہے۔ نظری علوم میں جو شاگرد سوال نہ اٹھا سکے اور ان کے جواب نہ ڈھونڈ سکے، وہ آگے نہیں بڑھ سکتا۔ یہاں جسے دلیل کی بنیاد پر اختلاف کا سلیقہ نہ ہو اور مسائل کی گتھیاں خود سے نہ سلجھا سکے، وہ اچھا شاگرد نہیں ہوتا۔ سائنس میں پیشرفت کیلئے کوئی دوسرا راستہ موجود نہیں، کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے۔ اگر کوئی ایسا کہے تو وہ دھوکہ دے رہا ہے۔

عملی علوم اور نظری علوم میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ عملی علوم میں ماہرین کا ذاتی کردار انکی رائے کی توثیق کیلئے اہمیت اختیار کر جاتا ہے، کرپٹ ڈاکٹر سے علاج کروانا درست نہیں سمجھا جاتا۔ لیکن سائنسدان کی رائے اسکے ذاتی کردار نہیں، بلکہ اسکی دلیل کی روشنی میں قبول یا رد ہوتی ہے۔ اسی لئے منطق میں ”حملہ بہ شخص“(ad-hominem-reasoning) کو مغالطہ شمار کیا جاتا ہے۔ نظری علوم میں تقلید کرنا ایک مغالطہ ہے، یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ نظری علوم کے ماہرین سے آپکا تعلق استاد شاگرد کا ہوتا ہے، پیر و مرید کا نہیں ہوتا۔ نظریات میں تقلید کا مغالطہ آجکل جوادی آملی صاحب جیسے بعض صوفیا پھیلا رہے ہیں [1]۔ اسکی وجہ شاید یہ ہے کہ وہ بچوں پر ہونے والی جدید تحقیقات سے آشنا نہیں اور منطقی اصولوں کو پیدائشی علم سمجھتے ہیں۔ ایک وجہ تصوف میں ذہنی غلامی کا چلن ہے۔ صوفی لوگ شروع سے انسانوں کو ذہنی غلام بناتے آئے ہیں۔ طولِ تاریخ میں ایسے لوگ نیم خواندہ افراد کو مغالطے میں ڈال کر اثر و رسوخ حاصل کرتے رہے ہیں۔ وہ فکری الجھنوں اور نفسیاتی مسائل کو سیر و سلوک کے نام پر شاگردوں میں منتقل کرتے رہے ہیں اور ریاضت کی سزا دے کر انکے اذہان کو کچلتے رہے ہیں۔

جن اقوام میں نظریات پر تنقید کا ہنر نہیں سکھایا جاتا، وہاں نہ صرف یہ کہ شعر و ادب شعور سے خالی اور سطحیت کا شکار ہوتے ہیں بلکہ وہ ایجادات اور معیشت میں پیچھے رہ کر عالمی برادری میں بھکاری بن جاتی ہیں۔ ان میں عملی علوم کے ماہرین کا معیار بھی گر جاتا ہے کیونکہ عملی علوم کی بنیادیں نظری علوم میں ہوتی ہیں۔ عملی علوم کا موضوع نظری علوم میں دریافت ہونے والے اصولوں کے اطلاق میں مہارت پیدا کرنا ہے۔ چنانچہ جب سے مسلمانوں میں نظری میدان میں ملا صدرا جیسوں کے شبہات نے جگہ بنائی، وہ عملی صنعت و حرفت میں بھی پیچھے رہ گئے۔

ایسے معاشرے جو نظری علوم میں پسماندہ ہوں وہاں عوام میں تنگ نظری، جہالت، جرائم، غربت، گندگی، صوفی گری، جادو ٹونہ اور بیماریاں پھیل جاتی ہیں۔ غور سے دیکھا جائے تو پاکستان ایسی ہی صورتحال کا شکار ہے۔ جن مسلمان ممالک میں تیل اور گیس بیچ کر ان مسائل کی شدت کو کم کیا گیا ہے وہاں بھی قرض کی مئے کب تک پی جا سکے گی؟ نظری فاقہ مستی کبھی تو رنگ لائے گی۔

حوالہ:

Advertisements
julia rana solicitors

1۔ مہدی طحہٰ، ”تقليد در اصولِ دين از منظر آيت الله جوادی آملی  “،ھدانا، 12 دسمبر 2016ء

Facebook Comments

حمزہ ابراہیم
ادائے خاص سے غالبؔ ہوا ہے نکتہ سرا § صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply