شاید میری طرح آپکے لئے بھی یہ مختصر سے اعداد و شمار شاکنگ یا صدمے کا باعث ہوں ۔تازہ ترین اعداد و شمار جو کہ وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی تنویر حسین کی جانب سے سینیٹ کمیٹی کے سامنے پیش کئے گئے۔ وزیر موصوف کے مطابق پاکستان میں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے لیے مختص سالانہ بجٹ صفر اعشاریہ پانچ فیصد ہے جو کہ ایک کلومیٹر میٹرو ٹرین کے ٹریک پہ آنے والی لاگت سے بھی کم ہے۔ صرف یہ واحد انکشاف ہی ہم سب کے لئے انتہائی تشویش اور سنگین صورتحال کا عکاس ہے۔ وفاقی وزیر نے اس بات کو بھی واضح کیا کہ سائنسی تحقیق کاشعبہ فی الحال حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں۔
جدید دنیا میں ترقی کا صرف ایک راستہ ہے تعلیم و تحقیق۔ جو قومیں اس راستے پہ گامزن ہیں وہی ترقی کی دوڑ میں آگے نظر آتی ہیں۔ بہ نسبت ان ملکوں کے جنہوں نے ان حقائق سے نظریں چُرا کے اپنی ترجیحات کو غلط سمت میں موڑ رکھا ہے۔انتہائی تکلیف دہ بات ہے کہ ہم میٹرو ٹرین کے ایک کلو میٹر کے ٹریک کو اپنے ملک کے مستقبل اور ترقی کے مقابلے میں زیادہ اہم سمجھتے ہیں۔ لوگ ہارون رشید صاحب اور حسن نثار صاحب کے کالمز کی تلخیوں کو اگر صرف اس ایک پس منظر میں دیکھیں تو اندازہ کرنا دشوار نہ ہوگا کہ تلخیوں کا ماخذ کیا ہے۔
کوئی بھی زی شعور انسان اپنے آنے والی نسلوں کے مستقبل سے اسطرح نہیں کھیل سکتا جس طرح اس ملک کے حکمران کھیل رہے ہیں- یہ چند سو لیپ ٹاپ کے لالی پاپ قوم کے بچوں کو پکڑا کے قوم کو ایک تاریک مستقبل کے سوا کچھ نہیں دینے والے۔ پاکستان میں عموما ًحکومتیں اپنی عوام کو تعلیم سے دور رکھنے میں ہی اپنی اقتدار کی بقا سمجھتی رہی ہیں۔ اس لئے ایک شعوری یا لاشعوری کوشش سے عوام کے لئے تعلیم کی وہ سہولتیں فراہم نہیں کی جاتیں جو اس ملک کے بچوں کا بنیادی حق ہے۔ تعلیم کا معیار اور سہولتوں کی فراہمی کے معاملے میں ہم اپنے پڑوسی اور خطے کے ممالک سے بھی بہت پیچھے ہیں۔ بنگلہ دیش کو ہم سے علیحدہ ہوئے پینتالیس سال ہوئے لیکن ان کے ہاں خواندگی کی شرح پاکستان سے قدرے بہتر ہے۔ بنگلادیش میں شرح خواندگی اکسٹھ فیصد ہے جب کہ پاکستان میں خواندگی کی شرح اس کے مقابلے میں صرف چھپن اعشاریہ چار فیصد ہے۔
یہ تو تھا صرف اس ملک سے موازنہ جو ہماری بعد وجود میں آیا ۔ انڈیا اور ایران میں شرح خواندگی بالترتیب بہتر اور چھیاسی فیصد ہے۔ سری لنکا کی صورتحال اس خطے میں سب سے بہتر ہے جہاں خواندگی کی شرح بانوے اعشاریہ چھ فیصد ہے۔ پوری دنیا کے ممالک ترقی کے لئے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پہ اپنے جی ڈی پی کا کم ازکم دو سے تین فیصد خرچ کرتے ہیں جبکہ دنیا کہ امیر ترین ممالک مثلاًفن لینڈ، ڈنمارک، سوئیڈن، جاپان، سنگاپور اور تائیوان وغیرہ نے اپنے جی ڈی پی کا تین فیصد یا اس سے زائد بجٹ اس شعبے کے لئے مختص کر رکھا ہے۔ اس فہرست میں سرِ فہرست ساؤتھ کوریا ہے جو کہ اپنے جی ڈی پی کا چار اعشاریہ دو فیصد سالانہ اس مد میں خرچ کر رہا ہے۔ جب کہ اسرائیل چار اعشاریہ ایک فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر پہ ہے۔
پاکستان میں اس شعبے کی بدحالی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی ایک سو ستر یونیورسٹیز کے بجٹ کے لئے مختص کی جانے والی رقم سنگاپور کی صرف ایک یونیورسٹی کے بجٹ کے ایک تہائی کے برابر ہے۔ اور اس صورتحال کے ہوتے اگر کوئی شخص پاکستان کا مستقبل روشن دیکھتا ہے تو یہ محض دیوانے کا خواب ہے جس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں۔
یہ تو تھے کچھ اعداد و شمار اگر اسلامی ممالک پہ نظر ڈالیں تو اسلامی ملکوں کی آبادی دنیا کی ٹوٹل آبادی کے پچیس فیصد کے لگ بھگ ہے لیکن ان کا ریسرچ اور ڈویلپمنٹ کے حوالے سے سالانہ شائع ہونے والے مقالوں میں ٹوٹل شئیر بمشکل چھ فیصد ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلامی ممالک ترقی کی دوڑ میں پیچھے کیوں ہیں۔
جس امّت کے لئے پہلا پیغام اقراء تھا آج دنیا سے تعلیمی میدان میں کتنی پیچھے ہے اور اس کے پسِ پردہ حقائق کیا ہیں ان اعدادوشمار سے بخوبی ظاہر ہیں۔جدید علم اور ٹیکنالوجی ترقی کی واحد کنجی ہے جسے ہم نے میٹرو ٹریک کے نیچے کہیں کھو دیا ہے۔ اس ملک کے لوگوں کو آنکھیں کھولنا چاہئے اور علما ومشائخ کو جدید تعلیم و ترقی کے حصول کے تعلیمی جہاد کا اعلان کرنا چاہئے۔ کہ یہی وہ جہاد ہے جس سے ہم جہالت اور دہشت گردی کے عفریت کو شکست دے سکتے ہیں ۔ اب بحیثیت قوم ہمیں اپنی ترجیحات خود طے کرنا ہوں گی۔
میٹرو ٹرین یا تعلیم فیصلہ آپ کا۔
Facebook Comments
ساڈے بھوکے بال غذا منگدین
تیڈی موٹر وے کوں بھاہ لیسوں