محفلِ میلاد- نیا سال پرانی بحث/ڈاکٹر محمد شافع صابر

سوشل میڈیا پر  ایک ہی موضوع قابلِ  بحث ہے، کہ میلاد منانا جائز ہے کہ ناجائز؟ دونوں اطراف کے حامیوں  کے پاس ٹھوس دلائل ہیں ۔ افسوسناک امر یہ ہے، جب یہ دلائل بحث کی شکل اختیار کر لیں تو بات گالم گلوچ تک پہنچ جاتی ہے۔

قیام پاکستان کے بعد غلاف کعبہ کا ایک جلوس نکالا گیا، مولانا مودودی نے اس میں شرکت کی، لوگوں نے مولانا پر اس جلوس میں شرکت کرنے پر خاصی تنقید کی، کچھ نے رسائل و مسائل پر اس پر مولانا سے سخت جواب کیے، مولانا نے جواب میں یہی کہا کہ اگر میں شرکت نہ  کرتا، تو مجھ پر تنقید ہوتی، کی ہے تو بھی ہو رہی ہے۔تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ شرکت کرنے کی وجہ سے تنقید زیادہ قابل قبول ہے (یہ انکے جواب کا خلاصہ ہے، پورا جواب رسائل و مسائل سے پڑھا جا سکتا ہے) ۔ مولانا کا وہ جواب آج بھی ہم سب کے لیے مشعل راہ ہے۔

کچھ رسم و رواج / چیزیں ہم میں رچ بس گئی ہیں، اب وہ ہمارے لیے مذہبی تہوار کی سی شکل اختیار کر چکی ہیں۔اگر آپ اس کی سیدھی نفی کرتے ہیں تو ایک خاص مکتبہ فکر کی دل آزاری کا باعث بنتے ہیں ۔ آپ اسے حلال حرام، صحیح غلط یا جائز نا ناجائز کے ترازو میں تولیں گے تو مسئلہ کبھی حل نہیں ہو سکے گا۔

ہماری قوم کی اجتماعی بدقسمتی و ناکامی یہ ہے کہ نہ  ہمیں خوشی منانی آتی ہے نہ  غمی۔ ایک مکتبہ فکر غمی مناتا ہے تو روڈ بند، ٹریفک کی روانگی بند، موبائل سروس بند، دوسرا مکتبہ فکر خوشی مناتا ہے تو یہی حال ہوتا ہے۔ خوشی یا غمی منانے سے متاثر سب سے زیادہ عام آدمی ہوتا ہے۔

میلاد منائیے لیکن یاد رکھیے نبی کا ذکر نہ رُکے، نبی کا طریقہ نہ  چُھوٹے۔اگر نبی کی دی گئی تعلیم چُھوٹ گئی تو سب ختم۔ اگر آپ نے خوشی یا غمی کا جلوس نکالا ہے تو اگر لاؤڈ اسپیکر کی آواز سے کسی مریض کے آرام میں خلل پڑ  رہا، ایمبولنس کو راستہ نہیں مل رہا، لوگوں کی آمدورفت میں مشکل درپیش ہے، تو کہیں نا کہیں ہمارے خوشی یا غمی منانے کے طریقے میں کچھ کمی رہ گئی ہے۔

کچھ لوگ اسی بات پر زور ڈال رہے  ہیں کہ میلاد منانا بدعت ہے۔ میں اتنا سخت موقف اختیار کرنے کا کبھی حامی نہیں رہا ہوں۔جب آپ ایک ہارڈ لائن کھینچ دیتے ہیں تو مسئلہ بکھرے گا ہی، حل نہیں ہو گا ۔

ہر چیز کے دو پہلو ہوتے ہیں، مثبت اور منفی۔ آپ چیزوں کو جیسا پرکھیں گے ویسا ہی آپ کو دکھائی دے گا۔ میلاد سے مثبت چیزیں دیکھی جائیں تو کم از کم دس سے پندرہ دن مستحق لوگوں کو کھانا تو ملتا ہے، درود و سلام کی محفلیں سجتی ہیں، رہی بات اسراف، ریاکاری و فضول خرچی کی، اسکے بارے میں قرآن مجید کے احکامات واضح ہیں ۔

وطن عزیز میں سب سے زیادہ پیروکار اہلسنّت و اہل جماعت کے ہیں ۔جب آپکے انکے اظہارِ عشق و محبت کو بدعت کےساتھ نتھی کر دیں گے تو آپ ان سے سخت جواب ہی پائیں گے۔

میلاد منانے کا طریقہ پر اختلاف ہو سکتا ہے، لیکن انکے جذبات کو آپ کفر کہیں گے تو وہ جواب میں بھی آپکو بدعتی ہی کہیں گے۔ سب سے بڑا گناہ ہی دل آزاری ہے، یعنی آپ ایک مکتبہ فکر کے ایک اظہارِ محبت پر ہی بدعت و کفر کے فتوے لگا رہے ہیں، کیا اس سے بڑی کوئی اور دل آزاری ہو سکتی ہے؟

میلاد کے نام پر جو یہ ڈانس پارٹیاں / تلوار بازی جیسی خرافات ہوتی ہیں، آپ خود دیکھ لیں کہ کسی بھی پڑھے لکھے عالم نے آج تک اس عمل کو پسند نہیں کیا، اسکی نفی کی ہے، آپ انفرادی فعل کو اجتماعی مت کہیں، جب آپ اس انفرادی فعل کی بنیاد پر ایک مکتبہ فکر کے سارے پیروکاروں کو ہی غلط کہیں گے تو صورتحال مزید خراب ہو گی۔

حکومت کو چاہیے کہ جلوسوں و مجالس کی ایک جگہ مختص کر دے، تاکہ عام آدمی کو آمدورفت میں کوئی مشکل پیش نہ  آئے ،تو آدھے لوگوں کے گلے شکوے ویسے ہی کسی حد تک دور ہو جائیں گے ۔ فرقہ وارانہ فسادات میں بدعت، کفر کے فتوے لگا کر آگ بڑھانے کو سبھی تیار ملیں گے، ان فرقہ وارانہ مسائل کو کیسے ختم کیا جائے، یہ کوئی بتانے کو تیار نہیں، یہی ہمارا المیہ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دین اسلام کی بنیاد ہی محبت ہے ۔جب آپ اپنے عمل، اخلاق اور کردار سے اس محبت کو بانٹیں گے تو ہر مکتبہ فکر کے لوگ آپ کی بات کو توجہ دیں گے، عین ممکن ہے کہ وہ آپ کی بات مان بھی لیں۔ تو بس لوگوں کے دلوں میں محبت بنی رہنی چاہیے، یہی دین ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply