آئینہ ان کو دکھایا تو۔۔۔۔

آئینہ ان کو دکھایا تو۔۔
عائشہ اذان
آئینہ لے کر اسے اگر کسی ایسی جگہ رکھ دیا جائے کہ ہر آتے جاتے کی نظر میں رہے مگر پھر بھی کچھ لوگ اس کو دیکھ کر اس کے وجود کے منکر ہوں تو ان عقل کے اندھوں کو کون سمجھا سکتا ہے ؟
یہ سماج اللہ نے نہیں اللہ کی مخلوق نے بنایا ہے، ہاں اس مخلوق کی تخلیق کرنے والے رب نے عقل و شعور سے آراستہ آدم و حوا کی اولاد کو اس کائنات سے لطف اندوز ہونے کا پورا حق دیا ہے ۔ بس کچھ پابندیاں اور فرائض رکھے ہیں جو ہر معاشرے نے اپنے اپنےحساب سے تبدیل کر دئیے ہیں ۔رب کانظام اور پیغام تبدیل نہیں ہوتا مگراپنی آسانیوں کے لئے اس میں ردوبدل کرنے والے سماج کا حصہ ہیں جسے اس میں رہنے والے مل جل کر بناتے ہیں۔
آئینہ اگر مسجد میں رکھ دو تو مولوی پریشان اور قحبہ خانوں میں رکھ دو تو مے نوش ناراض تو اس کا ایک حل ایک بار ایک بادشاہ نے کیا۔
بادشاہ بہت بدصورت تھا اور اسکی قوم خوبصورت ترین تھی ایسے میں اس نے اپنے وزیر سے کہا کہ ہر گھر اور نشست گاہوں سے آئینوں کو توڑ دیا جائے ۔رعایا پر آئینہ دیکھنے کی پابندی لگ گئی۔یہ طریقہ کبوتر کی طرح خطرہ دیکھ کرآنکھیں بند کر لینے یا بگلے کی طرح ریت میں سر چھپانے کے مترادف ہے۔ آج ہم جس دور میں ہیں، آئینہ دکھانے پہ برا ماننے والوں سے گزارش ہے کہ درگزر کر یں یا خود کو دیکھنے کے قابل بنا لیں ۔
ہمارے ہاتھ میں قلم اور آپ کے ہاتھ میں بندوق۔ قلم۔۔۔ جو بک نہ سکے اور جھک نہ سکے آ پ اسے گولی سے دھمکائیں یا گالی سے ،ان پر سر مو فرق نہیں پڑ تا۔ قلم والے آئینہ تو دکھاکر ہی رہیں گے۔
تنقید کا آئینہ دکھانے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ سماج کی گھٹی اور بٹی ہوئی سوچ کو ایک مثبت رخ دیا جائے۔
وہ آنکھ جو چھ سال کی بچی کی سسکتی لاش پہ اشکبار ہے،وہ بچہ جس کو مسجد میں لٹکا دیا گیا اور کہاں تک سنائیں آپ بھی سب جانتے ہیں بس آواز اٹھانے سے قاصر کیوں ہیں ؟
یہ جو بکتا ہے اور آپ روزانہ دیکھتے اور سنتے ہیں یہ آدھا سچ ہے، پورا سچ سننے کو ابھی کوئی بھی تیار نہیں ۔ایک قوم اپنی پستی میں جاتی ہوئی حالت پر ماتم تو کر سکتی ہے پر کھڑے ہو کہ اس کے خلاف ان سلسلوں کو روکنے سے ڈرتی ہے کیونکہ کہیں ہم اپنے عزیزوں سے دور نہ کر دئیے جائیں یا آئینے میں کہیں ہماری شبیہ نہ دِکھ جائے ،پر صاحب یہ اکیسویں صدی ہے اور پڑھی لکھی آج کی نسل چپ بیٹھنے والی نہیں سوال پہ سوال ہوں گے ۔
دھوکہ بازی سے منافقت تک اور مظلوم کی آہ سے ظالم کے گناہ تک یہ آواز اور آئینے اس معاشرے کے کل کو خوبصورت بنانا چاہتے ہیں اور آپ یا میں ان کو روک نہیں سکتے ۔آئینہ توڑنے سے تلخ حقائق چھپ نہیں جائیں گے بلکہ ٹوٹے آئینے کی کرچیاں آ پ کو لہو لہان کر دیں گی ۔از بس احتیاط۔

Facebook Comments

عائشہ اذان
سچ سے سوچ کے خوابوں کو قلمبند کرنے کی خواہش میں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply