بلوچستان کی خواتین صحافی اور اُنکے مسائل/عبدالکریم

بلوچستان ایک قبائلی خطہ ہے ، ایک قبائلی نظام میں خواتین کو گھر سے باہر نکل کر کام کرنے کی اجازت پہلے تو بہت مشکل سے ملتی ہے  ۔ اگر اجازت مل جائے تو اس کام کے دوران مختلف مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ جس کی وجہ سے وہ کام چھوڑنے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔

ایسی ہی ایک مثال کوئٹہ کی رہائشی سبین ملک کی بھی ہے۔ جنہوں نے یہ سوچ کر صحافت میں قدم رکھا کہ وہ بلوچستان کی محرومیوں اور یہاں کی عوام کے  مسائل کو اجاگر کرنے میں اپنی توانائیاں صَرف کریں گی۔ لیکن انھیں قدم قدم پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، یہاں تک کہ انہیں نسل پرستانہ جملے بھی سننےپڑے ۔ سبین ملک کہتی ہیں  کہ جس چیز کو بیحد چاہتے ہوں اس کو چھوڑنے کیلئے ایک وجہ کافی نہیں ہوتی بلکہ مختلف وجوہات چاہئیں  ہوتی  ہیں۔ جس کی بِنا پر آپ کو فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ آگے آپ اس شعبے کا حصہ نہیں ہوسکتے۔

سبین ملک نے مختلف اداروں کے ساتھ بطور فری لانس صحافی کام کیا ہے۔ بی بی سی اردو کی  ایک خصوصی مہم ( شی ) کا  بھی حصہ رہی ہیں اور بی بی سی کیلئے اس موضوع پر مختلف مضامین بھی لکھ چکی ہیں ۔

سبین کے بقول  ، بلوچستان میں صحافی ہر قسم کی  مشکلات کا سامنا کرتے ہیں وہ چاہے پرنٹ میڈیا سے تعلق رکھتے ہوں یا الیکٹرنک میڈیا سے  ۔ ہمارے ہاں صحافیوں کے  زیرِ  استعمال آلات کی تو اہمیت ہے لیکن اگر کوئی صحافی دوران کوریج خدانخواستہ جان سے چلا جائے تو اس کیلئے اور ان کے خاندان کی کفالت کیلئے کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے۔

سبین کے مطابق  بلوچستان میں خواتین کی کوئی عزت نہیں، یہاں روازنہ کی بنیاد پر خواتین مختلف طریقوں سے ہراساں کی جاتی ہیں۔

الیکٹرنک اور پرنٹ میڈیا میں اپنے مستقبل کو تاریک دیکھ کر انہوں نے سوشل میڈیا کا سہارا لیا ۔ لیکن یہاں فیک آئی ڈیز کے ذریعے ان کی کر دار کشی کی گئی۔ یہاں تک کہ  اسے نسل پرستی کا بھی سامنا رہا ۔ان کو  پیغامات ملے کہ آپ کا تعلق لاہور سے ہے۔  جان سے مارنے کی دھمکیاں ملیں  ۔ ان سے کہا گیا کہ آپ کو بلوچستان کے  بنیادی مسائل پر بات کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے ،مختلف سکیورٹی اداروں کے ساتھ مجھے منسلک کیا گیا کہ میں اس کے ایجنڈے کی تکمیل کیلئے کام کررہی ہوں ۔ یہ بھی الزام لگایا گیا کہ مجھےایک ٹویٹ پر پیسے ملتے ہیں ۔

سبین ملک کہتی ہیں کہ یہ وہ وجوہات  ہیں جن  کی وجہ سے انہوں نے فیلڈ سے کنارہ کشی  اختیار کرلی ۔

مشکلات کی کہانی سبین ملک تک محدود نہیں ہے بلکہ بلوچستان کی ایک اور نوجوان خاتون صحافی نعیمہ زہری نے بھی مشکلات کے سامنے شکست قبول کرکے صحافت کے  شعبے کو خیرباد کہہ دیاہے۔

نعیمہ زہری کا تعلق بلوچستان کے علاقے خضدارسے ہے ۔ وہ ایک فری لانس صحافی ہیں ۔ انہوں نے مین سٹریم میڈیا کے بلوچستان کے غیرمتوازی رویے کو دیکھ کر صحافت کے میدان میں قدم رکھا۔ وہ چاہتی تھیں کہ وہ بلوچستان اور خاص کر اپنے علاقے میں پیش آنے والے واقعات کو دنیا کے سامنے لائیں  ۔ ان کے بقول  2013  میں ان کے دو ماموں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے۔ لیکن پاکستان کے مین سٹریم میڈیا میں ایک ٹکر تک نہیں چلا جب کہ دوسری طرف اسلام آباد میں پیش آنے والا چھوٹا سا واقعہ بریکنگ نیوز کے طور پر ڈھیر سارے ٹی وی چینلز پر بیک وقت چل رہا ہوتا ہے۔

نعیمہ زہری کے بقول ان کے خواب اس وقت چوکنا چور ہوئے جب اسے اپنے کام کے حوالے سے دھمکیاں ملنی  شروع ہوئیں۔ ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے نعیمہ زہری کا کہنا تھا کہ وہ اپنی ایک سٹوری کیلئے اپنے  گاؤں سے دو گھنٹے کی مسافت طے کرکے زہری کے علاقے میں غربت کے  مسئلے پرسٹوری کے کردار سے انٹرویو لے رہی تھی کہ اس دوران دو مسلح افراد آئے جو کہ وہاں کے مقامی سردار کے کارندے تھے ان پر اسلحہ تان کر  کہا کہ یہ سردار کا علاقہ ہے آپ یہاں کوریج نہیں کرسکتے اگر دوبارہ آپ یہاں دیکھی گئیں  تو آپ کو گولی مار دیں گے۔

نعیمہ کے بقول   اس وقت وہ نیا دور کیلئے سٹوری پر کام کررہی تھیں ۔ جب انہوں نے نیا دور کے ایک بندے سے اس معاملے کی بابت بات کی تو ان کا جواب تھا کہ اگر ایسا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو ہم لوگ آپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔

بات یہاں تک نہیں رُکی، نعیمہ زہری کے بقول ان پر ان کے علاقے میں پتھر برسائے گئے ۔ اور وہ آن لائن ٹرولنگ کی بھی شکار رہیں۔

نعیمہ کے بقول خطرات اور خاندانی دباؤ کی وجہ سے انہوں نے صحافت کو خداحافظ کہا لیکن اب وہ چاہتی ہیں کہ بلوچستان کی آواز بنیں ، لیکن چونکہ ہمارا   قبائلی معاشرہ یہاں پر خواتین کا گھر سے نکل کر باہر کام کرنا بُرا سمجھتا   ہے۔ اور اسے بُری  نظر سے دیکھا جاتا ہے ۔

مہک شاہد بلوچستان کی واحد خاتون سپورٹس صحافی ہیں۔ ان کا تجربہ بھی بحیثیت  خاتون صحافی باقی خاتون صحافیوں کی طرح مختلف نہیں رہا ہے ۔ ان کے بقول جب وہ گھر سے نکلتی ہیں تو لوگوں کی گندی نظریں ہمیشہ اس کا پیچھا کررہی ہوتی ہیں ۔ ان کو جان بوجھ کر دوران فیلڈ تنگ کیا جاتا ہے ۔ ان پر میدان میں موجود تماشائیوں کی طرف سے نازیبا اور غیراخلاقی فقرے کسے جاتے ہیں ۔ جن کو وہ برداشت کرتی ہیں ۔ مہک شاہد ایک قومی چینل سے بھی کچھ وقت کے لیے وابستہ رہی۔ ان کے بقول چینل کے ایک سینئر رپورٹر ان کو بھائی پکارنے سے منع کیاکرتے اور کہتے کہ میں آپ سے دوستی کرنا چاہتا ہوں۔ بجائے بھائی کے دوست آفس میں ایک دوسرے کا زیادہ خیال رکھتے ہیں۔

مہک کے بقول   خاتون ہونا یہاں ایک جرم سمجھا جاتا ہے لوگ ہمیں   سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہیں اچھنبے کی بات یہ ہے کہ مردوں کی نظریں ہم سے تقاضا بھی   کرتی  ہیں کہ ہم ہی بنا پوچھے ان کے  ذہنوں میں اُٹھنے والے سوالات کے جوابات دیں   ۔

مہک شاہد کہتی ہیں کہ خواتین اتنی مجبور ہوتی ہیں کہ ان کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر بات بھی نہیں  کر پاتیں ۔ کیونکہ مردانہ معاشرے میں قصوروار ہمیں ہی ٹھہرایا جاتا ہے۔ اس لیے انہوں نے بھی قومی چینل کے آفس میں ہونے والی ہراسگی کے مسئلے پر چپ سادھ لی  کیونکہ اگر میں بولتی تو میرا کیریئر ختم ہوسکتا تھا اس لیے اس کو بچانے کیلئے میں نے چینل چھوڑ دیا اب وہ اپنے یوٹیوب چینل پر کام کررہی ہیں ۔

بشریٰ قمر کو بلوچستان کی پہلی اور واحد بیوروچیف ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ وہ جی ٹی وی سے وابستہ ہیں۔ بشریٰ قمر کہتی ہیں کہ بظاہر تو یہ کہا جاتا کہ بلوچستان ایک قبائلی معاشرہ ہے اور یہاں خواتین کو عزت دی جاتی ہے۔

لیکن جب خواتین اس معاشرے میں صحافت کے شعبے کو اپناتی ہیں ،تو  افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہاں کے  اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ جو خاتون کسی بھی صورت میں میڈیا میں آتی ہے وہ اچھی نہیں ہے ۔اور اسے ایک بہتر نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ یہاں تک خواتین صحافیوں کو کہا جاتا ہے کہ اگر تم سکرین پر آرہی ہو اور ہم تجھے تنگ کرتے ہیں تو تجھے برا نہیں لگنا چاہیے ۔ یہاں تک کہ خواتین   پڑھے لکھے لوگوں وکلاء  اور ڈاکٹروں کو کور کرتی ہیں  تو ان پڑھے لکھے لوگوں کا رویہ بھی خواتین رپورٹرز کے ساتھ نامناسب ہوتا ہے ۔ یہاں تک کہ مرد دھکے دیتے ہیں گالم گلوچ کرتے ہیں اور ہمیں مختلف برے القابات سے نوازا جاتا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشریٰ قمر کے بقول  جب وہ وکلا ء   ہڑتال کے دوران سائلین کی  مشکلات پر سٹوری کررہی تھیں تو وکلا کی جانب سے ان کو ہراساں کیا گیا۔
بشریٰ قمر نے خواتین صحافیوں کی صحافت چھوڑنے کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں خواتین مرد صحافیوں کے  برابر کام کرتی ہیں۔ کیونکہ یہاں بیٹ کا نظام نہیں ہے ۔ تو ایک دن میں موسم ، حادثات اور سیمینارز کی خبر دیتی ہیں ، لیکن ان خواتین صحافیوں کو ان کے  دفاتر میں وہ عزت اور مقام نہیں دیا جاتا ہے جو ایک مرد کو حاصل ہے ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply