ڈھوک سکون-1/ظفر اقبال وٹو

ندی میں سرخی مائل پانی بہہ رہا تھا جس کی گہرائی نامعلوم تھی۔ ندی کے پیندے میں پانی کے متعدد راستے تھے جن کے ساتھ ساتھ کوندر اور سر کے پودے تھے۔ ہمارے پانچ عدد ڈالے چیونٹیوں کی طرح قطار بنائے کچے راستے پر ندی کو پار کرنے کا سوچ رہے تھے لیکن سرخ رنگ پانی کی دہشت سے ڈرتے تھے۔

قافلے کی سب سے پہلی گاڑی ہماری تھی۔ میرے ڈرائیور قمر شاہ نے بسم اللہ پڑھ کر اللہ توکل پر گاڑی پانی میں ڈال دی اور احتیاط سے آگے بڑھتے ہوئے کھاڑی کے دوسرے کنارے پر لے آیا۔ اس کے بحفاظت دوسرے کنارے پر پہنچتے ہی پچھلی چاروں چیونٹیوں نے اس کے بنائے گئے راستے پر ندی پار کی اور پھر ہم ندی کی دوسری کھاڑی کو پار کرنے لگے جس کے بعد ندی میں ریت سے بنا ایک بہت بڑا بیلہ آ گیا جس کے بالکل درمیان ندی کے اندر زندہ پیر موجود تھا۔

بیلے کے وسط میں دس سے پندرہ فٹ کی قدرتی اونچائی تھی جس کے اوپر ایک مزار تھا۔ یہاں پر کوئی قبر نہ تھی بس مزار تھا۔ ایک مسجد بنی ہوئی تھی اور ساتھ ہی ایک برآمدہ۔ اس درگاہ کے اطراف میں تین چار فٹ اونچا اینٹوں کا چبوترہ بنا ہوا تھا اور درگاہ کو اونچے گھنے پرانے درختوں نے اپنے نیچے چھپایا ہوا تھا جس سے ماحول اور پراسرار نظر آتا تھا۔ ان درختوں پر کثیر تعداد میں رنگ برنگے کپڑے لٹکے ہوئے تھے جن میں بڑی تعداد میں دلھا کے پہننے والے کلاہ بھی لٹکتے نظر آئے۔

ہماری چیونٹیاں اس درگاہ کے اطراف بیلے پر پارک ہو چکی تھیں۔ اندر برآمدے میں چار بندے بیٹھے کسی ذکر میں مشغول تھے ان میں سے ایک چبوترے سے اتر کر ہمارے پاس آیا اور خاموشی سے ہمیں دیکھنے لگا۔ ہم نے یوں اچانک وارد ہو کر شائد ان کے مراقبے کو خراب کر دیا تھا۔ درگاہ کے باہر لگے نلکے سے ہماری ٹیم کے لوگ پانی پینے لگے۔ ندی کے پانی کی پیمائش کرنے اور پانی کی کوالٹی کی جانچ کرنے والی ٹیم کو یہ جگہ پسند آئی تھی۔

لہٰذا انہوں نے اپنا اسٹیشن یہاں لگانے کا فیصلہ کیا۔ وہ بوٹ اتار کر ندی کے پانی میں اترنے کی تیاری کرنے لگے۔ ٹیم کے باقی لوگوں کو میں نے ایک گاڑی ادھر چھوڑ کر دوسری گاڑیوں میں اگلی کھاڑی پار کر کے دوسرے کنارے پر موجود گاؤں کی طرف جانے کا کہا۔ گاؤں ایک پہاڑ کے دامن میں آباد تھا اور میرا پروگرام اس پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کر سروے اسٹیشن لگوانے کا تھا۔

مزار کے چبوترے سے اترنے والا شخص ہماری بھاگ دوڑ دیکھ کر مسکرایا تھا اور میری نظر اس کی مسکراہٹ پر رک گئی تھی۔ میں نے اپنی پانی پیمائش ٹیم کے ایک بندے کو بلایا اور اس کے کان میں آہستگی سے سرگوشی کی کہ اس شخص سے گپ شپ لگا کر مزار کے متعلق معلومات ضرور لینا۔ ہم گاؤں کے پاس پہنچ گئے تھے جہاں پر میں نے اپنی سوشل اور ماحولیاتی ٹیم کے ممبران کو کہا کہ آپ لوگ گاؤں میں پھیل جائیں اور یہاں کے سماج اور لوگوں کی خواہشات کو ٹٹولیں۔ مسائل کی جانچ کریں اور پانی کی ضروریات کا اندازہ لگائیں۔

میں پتھروں کی جانچ کرنے والی ٹیم، سروے ٹیم اور ڈیم کے ماہر انجنئیرز کو لے کر سڑک کے اس بلند ترین مقام کی طرف لپکا جہاں گاڑیاں چھوڑ کر ہمیں کوہ پیمائی شروع کرنی تھی۔ گاڑی سے اتر کر جب چوٹی کی طرف اوپر دیکھا تو یہ خاردار گھنی جھاڑیوں سے پر تھی جن کے لامتناہی کانٹے ہمارے جسموں پر کٹ لگا کر ہمارے خون سے لاہوری چٹخاروں کا مزہ لینے کو بے تاب تھے۔

ہم پچھلے آٹھ دنوں سے پوٹھوہار میں گھوم رہے تھے لیکن یہ چوٹی ہمیں سب سے بلند اور دشوار لگ رہی تھی۔ ہم اللہ کا نام لے کر آہستہ آہستہ اوپر چڑھنے لگے۔ یہ چڑھائی توقع سے زیادہ دشوار ثابت ہو رہی تھی کیونکہ جھاڑیوں نے اس کے عمودی پن کو چھپا رکھا تھا۔ احسن رشید سب سے آگے جیالوجیکل ہتھوڑے سے جھاڑیوں میں راستہ بناتا جا رہا تھا لیکن یہ اتنی زیادہ تھیں کہ ان میں سے بمشکل گزرا جا سکتا تھا۔

مجھے سب سے زیادہ اپنے سروئیر اظہر کا خیال آ رہا تھا جو کہ کئی کلو وزنی ایکوپمنٹ کندھے پر اٹھائے اوپر چڑھ رہا تھا۔ اس کے ساتھ اس کا اسسٹنٹ سروئیر ظہیر تھا جس نے راڈ اور باقی سامان پکڑا ہوا تھا۔ سخت گرمی اور حبس تھا اور دوپہر کا وقت۔ سب کی پانی کو بوتلیں خالی ہو رہی تھیں اور واحد سہارہ سروئیر کے پاس موجود کولر نظر آ رہا تھا جو کہ آہستہ آہستہ ہمارے ساتھ چڑھائی چڑھ رہا تھا۔

نیچے زندہ پیر پر دھونی جما دی گئی تھی۔ ندی کے عین وسط میں موجود اس مقبرے کو ندی میں آنے والا کوئی بڑے سے بڑا سیلاب بھی نقصان نہیں پہنچا سکا۔ پچھلے پچاس سال سے کئی ٹیمیں اس علاقے کا دورہ کر چکی تھیں لیکن وہ اس مقبرے کا کچھ نہیں بگاڑ سکی تھیں۔ “اس ٹیم نے بھی خوار ہو کر واپس جانا ہے۔ ہمیں فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں” مسکرانے والے بندے نے نیچے ہماری پانی پیمائش ٹیم کے ممبر کو بتایا تھا۔ اس نے بڑے اطمینان سے کہا تھا “بابا اپنے آپ کو خود بچا لے گا”۔

گاؤں میں جانے والی سماجیات کی ٹیم ممبران کو میں نے لوگوں سے ڈھکے چھپے الفاظ میں بات چیت کرنے کا کہا تھا۔ کیوں کہ ہم ابھی ابتدائی جانچ کرنے آئے تھے۔ پتہ نہیں اس مقام کی موزونیت کے بارے کیا فیصلہ ہونا تھا لیکن کسی نے گاؤں میں افواہ اڑا دی تھی کہ یہ گاؤں ڈیم میں ڈوب جائے گا۔ میں نے اپنے لوگوں کو احتیاط برتنے کا کہا تھا۔ مجھے سب سے زیادہ پریشانی سروے ٹیم کے حوالے سے تھی کیوں کہ انہوں نے گاؤں اور ندی میں جا کر پیمائشیں لینا تھیں جہاں کوئی بھی ان کے ساتھ الجھ سکتا تھا۔

تاہم یہ گاؤں ابھی تک خاموش تھا۔ لوگ ہمیں ندی میں پھرتا اور پہاڑوں پر چڑھتا دیکھ کر چپ تھے۔ وہ ہم سے لا تعلق تھے اور یہی بات مجھے اور زیادہ پریشان کئے جا رہی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply