بھارت : مسلم نوجوان ایک بار پھر نشانہ پر ؟ (2)۔۔افتخار گیلانی

اسکو سب سے پہلے 2001 میں 15سال کی عمر میں گرفتار کیا گیاتھا، جب اس نے حیدر آباد میں امریکہ کے خلاف مظاہرہ میں شرکت کی تھی۔ یہ کیس سات سال تک عدالتی غلام گردشوں میں گھومتا رہا۔ 2004میں گجرات پولیس نے حیدر آبا د آکر محتشم کے پڑوسی مولانا نصیرالدین کو ریاستی وزیر داخلہ ہرین پانڈے کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا۔ اس پر کئی افراد نے پولیس اسٹیشن کے سامنے احتجاج کیا۔ گجرات پولیس افسر نے فائرنگ کرکے موقع پر محتشم کے بڑے بھائی کو ہلاک کردیا۔ جبکہ اس بھیڑ کو ڈانٹ پھٹکار سے یا حیدر آباد پولیس کے ذریعے معمولی لاٹھی چارج سے بھگایا جا سکتا تھا۔ بجائے ہمدردی دکھانے کے محتشم پر کار سرکار میں مداخلت کا مقدمہ درج کیا گیا۔ جب اس کیس سے فراغت ملی تو 2008میں انکو شہر میں ایک سال قبل ہوئے بم دھماکوں میں ملزم بنا کر گرفتار کیا گیا۔ تشدد اور الیکٹرک شاک دیکر بھی جب یہ کیس ٹک نہیں پایا، تو بتایا گیا کہ محتشم نے قبرستان میں ایک خفیہ میٹنگ میں شرکت کی تھی، جس میں فرقہ وارانہ فساد کرنے کی سازش رچی گئی تھی۔

رہائی کے بعد جون 2008میں محتشم نے ہفتہ روزہ تہلکہ میگزین کو بتایا کہ پولیس بس مسلم نوجوانوں کو جیلوں کے اندر رکھنا چاہتی ہے۔ 2008میں بھوپال سے 150کلومیٹر دور نرسنگھ گڈھ میں ایک فوٹو اسٹوڈیو کے مالک تبریز حسین ، اسکے دو بھائیوں آفتاب اور انتخاب اور شاکر علی اور اسکے بھائی عرفان علی کو گرفتار کرکے بتایا گیا کہ ان کے پاس پوسٹر اور پمفلٹ برآمد ہوئے ، جن میں بابری مسجد کو دوبارہ بنانے کا ذکر تھا۔ عرفان علی، ماجد علی کو بھی بعد میں اسی کیس میں گرفتار کیا گیا اور ان سبھی کے خلاف بغاوت کی دفعات کے تحت مقدمات درج کئے گئے۔ سیمی کے خلاف درج کیسز میں پولیس شاید اکیلے یسین پٹیل کو ہی انسدار دہشت گردی کے قانون POTAمیں سیشن عدالت کے ذریعے پانچ سال تک سزا دلوا سکی۔ ان کے خلاف دائر فرد جرم میں بتایا گیا کہ وہ دن کے ڈیڑھ بجے پوسٹر چپکا رہے تھے۔ جس میں ایک بند مٹھی کے ساتھ امریکہ، روس، برطانیہ اور فرانس کے جھنڈے بنائے گئے تھے۔ اس میں اقوام متحدہ کو ان ممالک کی لونڈی سے تشبیہ دی گئی تھی۔

یہ کیس دہلی میں شیو نارائین ڈھنگرہ کی عدالت میں چل رہا تھا اور کارروائی کے دوران جج صاحب خود ہی وکیل استغاثہ کا رول ادا کر رہے تھے۔ وکیل دفاع نے جب پولیس سے پوچھا کہ بھری دوپہر کو اگر آپ نے انکو پوسٹر چپکاتے ہوئے پکڑا ، وکیل دفاع نے پوچھا کہ اس پوسٹر میں ایسی کیا بات ہے کہ یسین پٹیل کے خلاف انسداد دہشت گردی کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے؟ جج صاحب نے کہا کہ یہ پوسٹر تو AK-47سے بھی زیادہ خطر ناک ہے۔ جب اسٹینو کو آرڈر لکھاتے ہوئے، جج صاحب نے ایک جملہ غلط لکھوایا اور اسکی تصحیح کرنے کی پٹیل نے کوشش کی، تو جج نے وکیل دفاع کی طرف رخ کرکے کہا کہ ’’اپنے موکل سے کہو، کہ اپنی زبان پر قابو رکھے ورنہ اسکو اسکا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔‘‘

تامل ناڈو کے جواہرا للہ کی تنظیم تامل ناڈو منترا کھاز گم ، جو صوبہ کی ایک اہم سماجی تنظیم ہے،کے متعلق بتایا گیا کہ یہ سیمی کا ایک فرنٹ ہے۔ ٹریبونل میں جواہر اللہ نے بتایا کہ وہ 1989 تک سیمی سے وابستہ تھے اور اسکے بعد ان کا اسکے ساتھ کوئی تعلق نہیں رہا ہے۔ ان کے دور تک تو یہ ایک قانونی تنظیم تھی۔ سرکاری وکیل نے ٹریبونل میں ایک کاغذ پیش کرکے کہا کہ جواہراللہ نے ایک مسجد کی انتظامیہ کمیٹی سے ایک کمرہ کرایہ پر لیا تھا، جو سیمی کا دفتر ہے اور ابھی تک اس کا کرایہ وہی ادا کرتے ہیں۔ جب جج نے اس کاغذ کو دیکھنے کیلئے کہا تو معلوم ہوا کہ اس پر جواہر اللہ کے دستخط ہی نہیں تھے۔ جج نے تنبیہ نے ساتھ اس کاغذ کو پھینک دیا۔

2006میں کیرالا کے کوٹایم شہر کے نواح میں یوم آزادی کی تقریب میں عبدالرزاق مدعو تھے۔ ان کی تقریر کا موضوع ’’جنگ آزادی میں مسلمانوں کا کردار‘‘ تھا۔ مگر تقریر کے بعد ان کو گرفتار کیا گیا، کیونکہ پولیس نے بتایا کہ وہ سیمی کے رکن ہیں اور تقریر میں انہوں نے فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کا کام کیا ہے۔ 2012میں جب دہلی میں عدالتی ٹریبونل میں سیمی پر پابندی سے متعلق سماعت شروع ہوئی، تو ایڈوکیٹ اشوک اگروال اور مرحوم ایڈوکیٹ سالار محمد خان کے اصرار پر میں نے بطور صحافی کئی ماہ تک چلنے والی اس کارروائی کو کور کیا۔ ویسے تب تک میرا بھی یہی خیال تھا سیمی کے خلاف کچھ نہ کچھ ضرور ہے۔ حکومت توبالکل یونہی جھوٹ تو نہیں بول رہی ہوگی۔ مگر اس سماعت کے دوران تو کئی ہوشربا انکشافات سامنے آئے۔دہلی ہائی کورٹ کے جج جسٹس وی کے شالی کی صدارت والا یہ ٹریبونل سیمی پر عائد پابندی کو برقرار رکھنے کے جواز پر ساتویں مرتبہ سماعت کررہا تھا۔ کارروائی کے دوران مہاراشٹر کے شولا پور میں وجے پور ناکہ کے انسپکٹر شیواجی تامبرے نے ایک حلف نامہ دائر کیا تھا،جس میں بتایا گیا کہ سیمی کے کچھ مبینہ کارکنوں کے گھروں پر جب انہوں نے چھاپے مارے تو وہاں سے اْردو میں لال روشنائی سے تحریر کردہ ایک ڈاکیومنٹ ملا جس پرایک شعر درج تھا؛

موج خوں سر سے گزر ہی کیوں نہ جائے

آستانِ  یار سے اٹھ جائیں کیا

Advertisements
julia rana solicitors london

غالب کے اس شعر کا انسپکٹر تامبرے نے مراٹھی ترجمہ کچھ یو ں کیا تھا’’رکتچی لات دوکیا پسن کا جینا‘ متراچیہ امبراتھیاپسون اتھن کا جینا‘۔ انسپکٹر تامبرے نے گواہی دیتے ہوئے کہا کہ یہ شعر ہندوؤں کے خلاف مسلمانوں کے جذبات کو برانگیختہ کردیتا ہے۔ ایک اور حلف نامہ میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ سیمی مہاراشٹر کو ملک سے الگ کرنے کی سازش کررہی ہے۔(جاری ہے) بشکریہ روزنامہ 92 نیوز

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply