مودی کا دو قومی نظریہ ۔ ژاں سارتر

پاکستان کا قیام کسی جنگ کا نتیجہ تھا  نہ کسی جنگی شکست کے بعد کوئی شرمناک معاہدہ صلح اس کی بنیاد بنا ،  پھر بھی خود سے پانچ گنا بڑےپڑوسی کے جارحانہ عزائم نے اسے اس وقت کی “بائی پولر ورلڈ” میں ایک جانب جھکنے پر مجبور کیا۔ ایک ایسا ملک جس کی معیشت کا تمام تر دارومدار زراعت اور زراعت کا انحصار اس پانی پر تھا جو پڑوسی ملک سے آتا تھا۔ پڑوسی بھی ایسا جس نے آغاز ہی سے کشمیر پر قبضے کے بعد دریائی پانی کے معاملے میں من مانی شروع کردی۔ اس موقعے پر غلطیاں تو ہمارے حکمرانوں نے بھی کیں لیکن اگر دیانتداری سے دیکھا جائے تو پاکستان کو امریکی کیمپ میں دھکیلنے کی زیادہ ذمہ داری بھارت ہی پر عاید ہوتی ہے۔ (معاف کیجیے، میں دانشوری بگھارنے کے لیے بھارت کو بری الذمہ اور صرف اپنے وطن کو مطعون کرنے کی صلاحیت اور جرات نہیں رکھتا)۔ ان ابتدائی برسوں سے ہماری امریکا کے ساتھ جو رفاقت رہی، اس نے ہمیں چند فوائد تو ضرور بہم پہنچائے لیکن طویل المدتی مفادات میں ہم خسارے ہی میں رہے۔ اس خسارے پر نہ صرف ملک کے اندر بلکہ باہر سے بھی ہمیں تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسری جانب اسی دور میں بھارت نے نہ صرف کامن ویلتھ کے ذریعے سرمایہ دار بلاک کے ساتھ تعلقات کو خوشگوار رکھا بلکہ سوویت یونین کے ساتھ بڑے جنگی معاہدوں کے ذریعے خود کو خطے کی بڑی طاقت بنایا اور اسی طاقت کے زور پر ہمارا مشرقی بازو جو ہماری اپنی نا اہلی کے باعث ذہنی اور فکری طور پر ہم سے دور ہوچکا تھا، اس کی علاحدگی کے عمل کو مکمل کیا۔ اگر ہم اپنی گزشتہ انہتر برس کی خارجہ پالیسی کا جائزہ لیں تو امریکی بلاک میں ہمارا ایکٹیو رول ہی ہماری سب سے بڑی غلطی نظر آتا ہے جس پر اہل دانش نے ہمیشہ ہی بجا طور پر تنقید کی۔ گزشتہ صدی میں دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر امریکیوں کے جوش کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے آنے والی صدی کو امریکی صدی بھی قرار دے ڈالا تھا تاہم چند ہی برس میں سوویت یونین نے جوہری میدان میں امریکی برتری کو ختم کرتے ہوئے بیسویں صدی کو سرد جنگ کی صدی میں تبدیل کردیا۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد سرد جنگ ختم ہوئی تودنیا ایک بار پھر بائی پولر سے “یونی پولر” ہوگئی۔ اسی دور میں امریکا نے سرمایہ دار دنیا کی قیادت کرتے ہوئےسوویت یونین کی جگہ ایک نیا دشمن تخلیق کیا اور نوم چومسکی کے پراپیگنڈا ماڈل کے عین مطابق مرئبی میڈیا نے عوام کو سرخ خطرے کی جگہ سبز خطرے سے خوفزدہ کرنا شروع کیا۔ آج دنیا کے بیشتر ممالک میں سرگرم عمل زیادہ ترمسلم دہشت گرد تنظیموں کی بنیاد رکھنے سے سرپرستی کرنے کا عمل امریکی خفیہ ایجنسیوں ہی نے انجام دیا ہے اور دے رہی ہیں۔ بہرطور قوانین فطرت کے مطابق دنیا زیادہ عرصے تک یک قطبی نہیں رہ سکتی تھی، اس لیے ایک جانب روس نے انگڑائی لینا شروع کی دوسری جانب عوامی جمہوریہ چین کی ابھرتی ہوئی معیشت نے امریکی عزائم کے لیے ایک ایسے خطرے کی گھنٹی بجا دی جو ظاہر اور فوری نوعیت کا تو نہیں لیکن بہرحال موجود ہے۔

 جس طرح سرد جنگ کے زمانے میں امریکا نے سوویت روس کی “ناکہ بندی” کرنے کے لیے یورپ میں نیٹو اور ایشیا میں سیٹو اور سینٹو کے دفاعی معاہدے کیے تھے، انہی کی طرز پر چین کا راستہ روکنے کے لیے نئے معاہدے اس بار بھی تشکیل دئیے جارہے ہیں۔ تاہم دنیا کی بدلتی ہوئی صورتحال کے مطابق اس بار یہ معاہدے تجارتی بھی ہیں اور عسکری بھی۔ چین اگر اپنی تجارت بڑھانے اور پھیلانے کے لیے سٹرنگ آف پرلز اور ون بیلٹ ون روڈ جیسے منصوبوں پر عمل کر رہا ہے تو امریکا بھی اس کاراستہ روکنے کے لیے ٹرانس پیسیفک ٹریٹی جیسے تجارتی معاہدوں کے ساتھ ساتھ ایشیا میں نئے عسکری معاہدوں میں مصروف ہے۔ اس ضمن میں یہ بات بہرحال دلچسپ ہے کہ جس غلطی پر پاکستان ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنا اور اس غلطی کا خمیازہ بھی بھگتا، وہی غلطی اس بار بھارت کر رہا ہے جس نے امریکا کے ساتھ فوجی تعاون اور اپنے جنگی اڈے فراہم کرنے کا معاہدہ کر لیا ہے۔ یہ معاہدہ جو گزشتہ روز امریکی سیکرٹری خارجہ جان کیری نے بھارت کے دورے کے دوران کیا، واضح طور پر پاکستان اور چین کے خلاف ایک ایسا عمل ہے جس کی کوئی بھی تاویل نہیں پیش کی جاسکتی۔ نہ تو چین ہمالیہ پار کرکے بھارت پر حملہ آور ہو سکتا ہے اورنہ بھارت سے پانچ گنا چھوٹا پاکستان بھارت کے لیے کوئی عسکری خطرہ بن سکتا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ امریکا اس خطے میں ایک نئی بساط بچھا کر چین اور اس کے حلیف پاکستان کے خلاف ایک نئی مہم جوئی کا ارادہ رکھتا ہے اور بھارت کے لیے اپنے ازلی حریف پاکستان کو “اوقات میں رکھنے” کا یہ ایک نادر موقع ہے۔ اس معاہدے اور اس کے نتیجے میں خطہ جس عدم توازن کا شکار ہوگا، اس کا اندازہ کرنا قطعی مشکل نہیں۔ امریکی خارجہ پالیسی کی اس کامیابی کی ایک بڑی وجہ بھارت میں زیرک اور دور اندیش قیادت کا فقدان ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ایشیا اور افریقہ میں امریکی عزائم کے لیے ہمیشہ مذہب پسند حکومتیں اور گروہ ہی کارآمد رہے ہیں اور بھارتیہ جنتا پارٹی کا یہی وصف اس امریکی قربت کی بنیاد ثابت ہو رہا ہے۔ خطے میں بالادستی، سپر پاور اور سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کے دلکش تصور نے نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے مودی کی وہی حالت کی ہے جو ایک “نودولتئیے” کی ہوتی ہے۔ اسی کیفیت کے زیر اثر ایک جانب انہوں نے لال قلعے سے پاکستان کو للکارا ہے تو دوسری جانب اپنے عوام جن کی نصف سے زائد تعداد بیت الخلاء جیسی بنیادی ضرورت سے بھی محروم ہے، کو ہدایت کی ہے کہ ہر شہری ہر روز ایک روپیہ بینک میں جمع کرائے تاکہ اس سے حاصل ہونے والے بہتر کروڑ ڈالر سالانہ کی رقم سے بھارتی فوج کے لیے ہتھیار خریدے جاسکیں۔ جی ہاں اسی بھارتی فوج کے لیے جس کا جنگی بجٹ باون ارب ڈالر سے زائد ہے اور وہ دنیا بھر میں ہتھیار اور جنگی سامان درآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ عوام سے جمع کی جانے والی رقم بھارتی جنگی اخراجات کے ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن اس تجویز کے پس پشت مقصد صرف بھارتی عوام میں جنگی جنون پیدا کرنا ہے جبکہ حقیقی طور پر بھارت کی سلامتی کو کسی جانب سے کوئی خطرہ نہیں۔

مودی کے عزائم ایک بار پھر ان خدشات کی مکمل طور پر تصدیق کرتے ہیں جن سے ہمارے بڑے دوچار تھے اور انہوں نے متحدہ ہندوستان سے علیحدگی کا فیصلہ کیا تھا۔ بھارت میں دو قومی نظریئے کی بنیادیں کسی کو کیسی ہی بلاجواز کیوں نہ نظر آئیں لیکن ہر بار بھارتی جارحیت اور مکمل اختیار اور طاقت کی اندھی خواہش اس نظرئیے کو نئی زندگی دیتی چلی آئی ہے۔ کبھی اندرا گاندھی اس نظرئیے کو خلیج بنگال میں غرق کرنے کا دعویٰ کرتی ہیں تو کبھی ایٹمی دھماکوں کے بعد بھارتی وزیر دفاع آزاد کشمیر کو بزور طاقت حاصل کرنے کے دعوے سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ دو قومی نظریہ حقیقی طور پر وجود رکھتا ہے۔ ۔۔ اور جب سے بی جے پی کی حکومت آئی ہے تو اس نے نہ صرف بھارت کے اندر مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کا جینا حرام کر کے بلکہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو موجودہ نہج پر پہنچا کر یہ ثابت کیا ہے کہ ہم تسلیم کریں نہ کریں، انتہا پسند ہندو پوری طرح دو قومی نظرئیے پر یقین رکھتے ہیں۔ ہماری تو بنیاد ہی اس نظرئیے پر کھڑی ہے تاہم بھارتی عوام کو بھی مودی کا دو قومی نظریہ مبارک ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors

ژاں سارتر کے قلمی نام سے لکھنے والے رانا اظہر کمال لاہور میں مقیم اور بائیس برس سے صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ آپ نے وہ سب کچھ کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے جو ژاں پال سارتر خود اپنی زندگی میں نامکمل چھوڑ گیا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”مودی کا دو قومی نظریہ ۔ ژاں سارتر

Leave a Reply to Humayun Sarfraz Cancel reply