چانسلر کا انکم ٹیکس کٹوتی پر یو ٹرن/فرزانہ افضل

چانسلر نے پیر 3 اکتوبر 2022 کو منی بجٹ کے ٹاپ ریٹ ٹیکس کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے ۔تقریباً دس روز قبل برطانیہ کے چانسلر یا وزیر خزانہ کواسی کووارٹنگ کے منی بجٹ کا اعلان ہوتے ہی برطانیہ بھر میں ہلچل مچ گئی۔ پارلیمنٹ، ٹوری پارٹی کے بیک بنچرز ، عوام، اداروں اور میڈیا نے اس کے خلاف شدید رد عمل کا اظہار کیا۔ انہوں نے اس منی بجٹ پلان کو برطانیہ کی تاریخ میں اب تک کا معاشی طور پر غیر مربوط ترین اور بدترین منصوبہ قرار دیا۔ گو کہ اس بجٹ کو کسی حد تک حمایت بھی ملی مگر بڑے پیمانے پر اکثریت نے اس کی مخالفت کی۔ اس بجٹ کے حق میں رائے دینے والے تجزیہ نگاروں میں سے ایک نے کہا یہ ایک بہترین بجٹ ہے جسے اب تک کسی بھی چانسلر نے پیش کیا ہے, ٹیکس کٹوتیاں اس قدر بڑی اور بولڈ ہیں اور زبان اس قدر غیر معمولی کہ اسے خود کو چٹکی کاٹنا پڑی کہ وہ کوئی خواب نہیں دیکھ رہا تھا اور انگلینڈ میں موجود اپنے ملک کا بجٹ سن رہا تھا۔

میڈیا کے ایک اور نمائندے نے کہا کہ چانسلر کواسی کوواٹنگ کا پہلا بجٹ زلزلہ خیز ہے۔ ٹیکسوں میں کمی کرتے ہوئے، معاشی ترقی کو سامنے رکھ کر چانسلر نے ایک حقیقی ٹوری پیکج تیار کیا ہے ۔ یوکیپ پارٹی کے سابق رہنما نائیجل فراج نے قدرے غیر مبہم حمایت کی اور مارگریٹ تھیچر کے دور میں انکم ٹیکس میں 30 فیصد سے 29 فیصد کی کمی کا موازنہ حالیہ بجٹ سے کرتے ہوئے کہا کہ 1986 کے بعد سے یہ بہترین بجٹ تھا۔ جبکہ ادارہ معاشی امور کے ڈائریکٹر جنرل مارک لٹل ووڈ نے کہا یہ کوئی نقصان دہ بجٹ نہیں ہے یہ معیشت کا “بوسٹ اپ” بجٹ ہے۔ ایک چانسلر کو معاشی ترقی کی اہمیت کے بارے میں اس قدر جذباتی ہو کر بات کرتے ہوئے سننا نہایت خوشگوار تھا۔

جب کہ اس بجٹ کے مخالفین کا کہنا تھا کہ یہ بجٹ تو درمیانی مدت کی ترقی بڑھانے میں بھی کچھ نہیں کرے گا بلکہ جدید معاشی عدم استحکام کا باعث بنے گا ۔ حکومت کو اس دردناک حقیقت سے لاتعلقی ہو سکتی ہے ، مگر حقیقت آخر میں جیت ہی جاتی ہے, بریگزٹ کے دوران بینک آف انگلینڈ کس قدر پیچھے چلا گیا اور اب اوپر سے یہ مالیاتی پالیسیاں، یوں معلوم ہوتا ہے کہ برطانیہ کو طویل عرصے تک بدترین معاشی پالیسیوں پر عمل کرنے کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

ایک اخبار کے اداریے کے مطابق چانسلر نے یہ بجٹ پیش کر کے غریبوں کی ہتک کی ہے۔ ان کے منصوبے معاشی طور پر غیر محدود بنیادی طور پر غیر مساوی اور مالی طور پر خطرناک ہیں۔ سابق کابینہ سیکرٹری گس و ڈونل نے کہا کہ انہوں نے اتنا بڑا مالی محرک پہلے کبھی نہیں دیکھا ، بینک آف انگلینڈ کی شرح سود سے لیکر اس منی بجٹ تک معیشت کو زور سے بریکیں اور ایکسیلیریٹر لگا رہے ہیں۔

اس تمام تر مخالفت کے باوجود پرائم منسٹر لز ٹرس اس بجٹ کی حمایت میں ہیں اور وہ بارہا اپنے انٹرویوز میں یہ کہہ چکی ہیں کہ اگر ان معاشی پالیسیوں سے وہ غیر مقبول ہو جاتی ہیں تو ان کو منظور ہے کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ ٹیکس کٹوتی پالیسی اور حالیہ منی بجٹ معاشی ترقی کیلئے اور ملکی معیشت کو نارمل کرنے کے لئے اشد ضروری ہیں۔ مگر چند روز قبل لز ٹرس نے اعتراف کیا کہ ان کی حکومت سے پیش کیا گیا منی بجٹ خلل کا باعث بنا ہے اور اس کے بعد کئی  معاشی جھٹکوں کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔ جس میں پاؤنڈ کی ڈالر کے مقابلے میں قیمت کا ریکارڈ گراؤ نہایت اہم ہے۔ ٹرانسلیٹر کواسی کوراٹنگ کے اس منی بجٹ کے مطابق سب سے زیادہ آمدنی والے افراد کے لیے 45 فیصد سے 40 فیصد کی جب کہ دوسرے ٹیکس دہندگان کو ایک فیصد کی کٹوتی ملی تھی، کیونکہ انہیں نیشنل انشورنس میں اضافے سے یوٹرن کے ذریعے رقم ملے گی ۔ چانسلر نے کہا یہ سب عوامل ترقی میں اضافے میں مدد کریں گے۔ تاہم مارکیٹ کی جانب سے اس پیکج کے بارے میں مضبوط ردعمل سامنے آیا۔ یہ پیکج گزشتہ پچاس برس کا سب سے بڑا ٹیکس کٹ تھا۔

ماہرین اقتصادیات ، میڈیا ، عوام اور پارلیمنٹ کے حکومت پر بڑھتے ہوئے دباؤ اور منی بجٹ کی مخالفت کیوجہ سے لز ٹرس اور کواسی کوواٹنگ نے انکم ٹیکس کی 45 فیصد سے 40 فیصد کٹوتی کے فیصلے پر یوٹرن لے لیا۔ جب بروز پیر 3 اکتوبر کی صبح چانسلر اور پرائم منسٹر پراعتماد چہرے کے ساتھ اجلاس میں داخل ہوئے اور چانسلر نے اس ذلت آمیز یوٹرن کا اعلان کیا۔ اور ٹیکس کٹوتی کے فیصلے کو دباؤ کے تحت ختم کردیا ۔ جب کہ یہ فیصلہ مارکیٹ کو اور بھی نیچے لے گیا گزشتہ دس روز کے دوران حکومت پہلے ہی بہت زیادہ سیاسی سرمایہ خرچ کر چکی ہے۔ اس منی بجٹ اور اس یوٹرن کے فیصلے نے مارگیجز ، سرکاری قرضوں اور پاؤنڈ پر ہنگامہ خیز اثرات مرتب کیے ہیں۔ آئیے ہم مختصراً ان اثرات کا جائزہ لیتے ہیں۔

مارگیج پر اثرات:
23 ستمبر 2022 کے منی بجٹ کے پریشان کُن تعارف کے بعد گھروں کے قرضوں کی 40 فیصد مصنوعات مارکیٹ سے واپس اٹھا لی گئی ہیں۔ کیونکہ پیشین گوئی کے مطابق بینک آف انگلینڈ اگلے موسم گرما تک شرح سود 6   فیصد تک بڑھا سکتا ہے۔ مگر آج کے یوٹرن کے بعد یہ پیشین گوئی  5.5 فیصد پر آ گئی ہے۔ دیکھا جائے تو اس کے نتیجے میں گھروں کے سودے ذرا کم قیمت میں ہونے چاہیئں۔ ایک مارگیج بروکر نے کہا کہ ہمیں یہ بتانے میں تھوڑا وقت لگے گا کہ یہ تبدیلی کس طرح سے مدد کرے گی مگر یہ ضرور ہے کہ مختصر مدت تک قرضے لینے والوں کو مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ کی توقع کرنا ہوگی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ نئی  ڈیل پر شرح سود بڑھتی رہے گی۔

یہ بات اس حقیقت کی عکاسی کرتی ہے کہ پچھلا ہفتہ اس قدر تتربتر تھا کہ قرض دہندگان یعنی بینکس اور بلڈنگ سوسائٹیز جنہوں نے مارکیٹ میں افراتفری کے دوران اپنے سودے واپس اٹھا لیے تھے، ابھی تک مارکیٹ میں واپس نہیں لائے ہیں۔ اور جو ڈیلز اب تک دوبارہ سیل پر ڈالی گئی ہیں وہ کہیں زیادہ مہنگی ہیں۔ مثال کے طور پر نیٹ ویسٹ بینک نے اتوار کو اعلان کیا کہ وہ اپنے ریٹس بڑھا رہے ہیں اور ریمارگیج پر دو سال کا فکس ریٹ 4.28 فیصد سے بڑھا کر 5.62 فیصد کردیا ہے. مگر حالات اس قدر غیر مستحکم ہونے کے ساتھ قرض دہندگان کو بھی یہ اندازہ لگانا پڑتا ہے کہ وہ کتنا بزنس لینا چاہتے ہیں اور یہ کہ وہ اپنے حریفوں سے کتنے کم ریٹ پر آفر کرتے ہیں تو ان کی ڈیمانڈ ضرورت سے زیادہ بڑھ سکتی ہے، جو کہ ہو سکتا ہے کہ وہ پورا نہ کر پائیں۔ بینکوں اور قرض دہندگان اداروں کے لئے بزنس کا حجم ، انکی سروس اور ڈیمانڈ کو پورا کرنے کی قابلیت بہت اہمیت رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب اس یوٹرن کے فیصلے کے بعد بنکس اور بلڈنگ سوسائٹیز ایک دم سے فیصلے نہیں کر سکتیں۔

مارکیٹ کا ردعمل۔
ٹیکس کٹوتی کے یوٹرن کے اعلان کے ساتھ ہی پاؤنڈ کا ڈالر کے مقابلے میں قدر کا دو سینٹ کا اضافہ ہوا۔ پاؤنڈ پھر سے 1.13 ڈالر کا ہوگیا ، جو قیمت منی بجٹ کے اعلان سے پہلے تھی۔

پبلک فنانس پر اثرات۔
چانسلر کی جانب سے 45 فیصد کی انکم ٹیکس کی شرح کو ختم کرنے کا حیران کن اقدام اسکے لا پرواہ طریقہ کار کی علامت تھا۔ جسے گزشتہ ہفتے کی  مارکیٹ کے ہنگامہ کے کلیدی عنصر کے طور پر پیش کیا گیا۔ پرائم منسٹر نے بھی گزشتہ روز اس بات کا اعتراف کیا کہ چانسلر کا ٹیکس کٹوتی کا فیصلہ یک طرفہ تھا اور کابینہ سے بغیر مشورے کے کیا گیا تھا ۔ اور انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اس بات کو مانتی ہیں کہ اتنا بڑا فیصلہ کرنے سے پہلے سطح ہموار کرنی چاہیے تھی۔ یوٹرن کے بعد 45 بلین پاؤنڈ کا ٹیکس بجٹ پیکج صرف دو بلین پاؤنڈ کی کمی کے بعد اب 40 بلین پاؤنڈ کا ہے۔ ماہرین اقتصادیات بجٹ کے بقیہ پلان کے بارے میں فکر مند ہیں ان کے مطابق اس یوٹرن کا مالیاتی استحکام پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے ۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کووارٹنگ کو اپنے بجٹ کے وعدوں سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے یا پھر عالمی سطح پر برطانیہ کی خراب ساکھ کو ٹھیک کرنے کے لئے اور بیرونی اور عالمی سرمایہ کاری کو بہتر بنانے اور فروغ دینے کے لئے عوامی اخراجات میں بڑے پیمانے پر کٹوتیوں کا عہد کیا جاسکتا ہے۔

کساد بازاری یا ریسیشن کے امکانات 
حکومت کے انکم ٹیکس کی شرح زیادہ رکھنے اور اخراجات کے منصوبوں کو برقرار رکھنے سے کساد بازاری کے امکانات کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے لیکن اس سے مہنگائی کا خطرہ بھی بڑھ سکتا ہے اس لیے ماہرین اقتصادیات کو توقع ہے۔ کہ بینک آف انگلینڈ کو اگلے موسم گرما تک شرحیں بڑھانا ہوں گی۔ جس سے بڑھتی ہوئی قیمتوں کو کم کرنے میں ملے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors

اکثریت کا کہنا یہ ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ ملک کو ساتھ لے کر چلے۔ وزیراعظم اپنے ارادوں میں مضبوط اور منصوبوں میں پختہ دکھائی دیتی ہیں۔ مگر لز ٹرس اور کووارٹنگ کو اقتدار سنبھالنے کے ایک ماہ بعد ہی اس منی بجٹ کا اعلان کر کے ، پھر اس پر یوٹرن لے کر شدید ندامت کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ لز ٹرس کی حکومت کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ جس میں بینیفٹس میں کٹوتی ، مہنگائی کا بحران اور بجلی اور گیس کی قیمتوں کا بحران شامل ہیں۔ گیس کہ ریگولیٹر میں کہاں ہے کہ اس موسم سرما میں گیس میں کی شارٹیج متوقع ہے یعنی برطانیہ میں بھی گیس کی لوڈ شیڈنگ ہو سکتی ہے۔ لز ٹرس کی حکومت کا آغاز ہی ان کے حق میں اچھا ثابت نہیں ہو رہا اور انکو اپنے ان منصوبوں اور اقدامات پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تو دیکھتے ہیں کہ اگلے جنرل الیکشن میں کیا لز ٹرس بطور کنزرویٹوو پارٹی لیڈر اور پرائم منسٹر جیت کی حقدار ہوں گی یا نہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply