سائفر کہانی/نصرت جاوید

ساڑھے تین سال کے طویل وقفے کے بعد گزرے ہفتے کی صبح مجھے کچھ ضروری ملاقاتوں کے لئے لاہور جانا پڑا۔ کوئی ناگہانی صورت حال درپیش نہ ہو تو میں جہاز کے بجائے اسلام آباد سے لاہور جانے کے لئے کار پر سفر کو ترجیح دیتا ہوں۔ سفر کے دوران مختلف مقامات پر رُکتا ہوں تو کئی برسوں سے بے سدھ ہوا ذات کا رپورٹر انگڑائی لے کر بیدارہوجاتا ہے۔ اتفاقاََ ملے اجنبی افراد سے ہوئی گفتگو ہمارے حقائق کے کئی ایسے پہلو آشکار کردیتی ہے جو گھر تک محدود ہوئے ذہن میں بہت سوچ بچار کے لمحات میں بھی نمودار نہیں ہوتے۔ مذکورہ سفر نے بھی ایسی کئی باتوں سے روشناس کروایا۔

اہم ترین سوال جو مختلف لوگ اٹھاتے رہے وہ “سائفر”نام کی شے کے بنیادی حقائق سے بھی آگاہ نہیں تھے۔ اس ضمن میں وسیع پیمانے پر پھیلی بے خبری نے مجھے انتہائی دُکھ سے اس حقیقت کو ایک بار پھر شدت سے تسلیم کرنے کو مجبور کیا کہ ہمارے نام نہاد میڈیا کے مچائے شور کے باوجود ہم عوام کو سمجھا ہی نہیں پائے کہ “سائفر” کیا بلا ہے۔ اس کی مبادیات کو بیان کئے بغیر ہم صحافی عمران خان صاحب کی اندھی نفرت یا عقیدت میں مبتلا ہوئے افراد کی محض من پسندانہ توجیہات ہی بیان کرنے میں مگن ہیں۔

عمران خان صاحب کے حامی نظر بظاہر جائز بنیادوں پر یہ سوال اٹھارہے ہیں کہ اگران کے قائد کے خلاف امریکہ نے واقعتاکوئی “سازش” نہیں رچائی تھی تو موجودہ حکومت مشہور زمانہ سائفر کی “کاپی” منظر عام پر کیوں نہیں لارہی۔ خان صاحب سے منسوب جو آڈیو لیک حال ہی میں منظر عام پر آئی ہے وہ یہ حقیقت بھی منظر عام پر لائی ہے کہ ایک کائیاں سیاستدان کی طرح سابق وزیر اعظم اس امر سے بخوبی آگاہ تھے کہ ہمارے عوام کی بے پناہ اکثریت کو “سائفر” کے بنیادی لوازمات کی خبر نہیں۔ وہ اسے ایک خط یا “مراسلہ” تصور کرتے ہیں جو واشنگٹن میں مقیم ہمارے سفیر نے ایک امریکی سفارت کار سے ملاقات کے بعد اسلام آباد کو آگاہ کرنے کے لئے ویسے ہی انداز میں لکھا تھا جیسے مثال کے طورپر میں یہ کالم لکھ رہا ہوں۔

عمران خان صاحب جن دنوں”سائفر” کی دہائی مچانا شروع ہوئے تو ہماری وزارت خارجہ کا یہ پیشہ وارانہ فرض تھا کہ وہ اپنے ترجمان کے ذریعے فقط اس نوعیت کے مراسلے کے بنیادی اوصاف عوام کو سمجھادیتے۔ مان لیتے ہیں کہ سرکاری افسروں کی چند مجبوریاں ہوتی ہیں۔ ان کے لئے یہ ممکن ہی نہیں کہ “حکومت” تصور ہوتے سیاستدان کے پھیلائے بیانیے کو “رد” کرتے سنائی دیں۔ “آف دی ریکارڈ” اور “ڈیپ” نام کی بھی تاہم چند بریفنگز ہوتی ہیں۔ وزارت خارجہ کے حکام عوام میں مقبول شمار ہوتے صحافیوں اور اینکر خواتین وحضرات کے منتخب گروپ کے ساتھ اس نوعیت کی بریفنگ کا اہتمام کرسکتے تھے۔ بعدازاں”ذمہ دار ذرائع” سے منسوب کرتے ہوئے حقیقت لوگوں کو سمجھائی جاسکتی تھی۔ افسروں کو مگر اپنی نوکری بچانا ہوتی ہے۔ حکومت وقت کو ناراض کرنے کی جرات نہیں دکھاتے اور یوں میری دانست میں پیشہ وارانہ بددیانتی نہ سہی غفلت کے مرتکب یقینا ہوتے ہیں۔

“سائفر” کے حوالے سے بنیادی حقیقت یہ ہے کہ وہ عام زبان میں نہیں لکھا جاتا۔ جو پیغام پہنچانا ہو اسے خفیہ زبان میں لکھنا ہوتا ہے۔ سفارتی زبان میں اسے “کوڈ” کہا جاتا ہے۔ دنیا بھر کی جاسوسی ایجنسیاں ہمیشہ اس تڑپ میں مبتلا رہتی ہیں کہ وہ اس “کوڈ” تک رسائی حاصل کرپائیں جو ان کے حریف ممالک خارجہ امور کی بابت پیغام رسانی کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ “کوڈ” میں جب کوئی اہم پیغام لکھ دیا جائے تو وزارت خارجہ میں وصول ہوجانے کے بعد زیر استعمال “کوڈ” سے آگاہ افسر ہی اسے “ڈی کوڈ” کرسکتے ہیں۔

اہم ترین موضوع پر جب کوئی “سائفر” مل جائے تو اسے “ڈی کوڈ” کرنے کے بعد جو مضمون تیار ہوتا ہے اسے ہماری ریاست کے پانچ اہم ترین افراد کے علاوہ کسی اور کے دیکھنے کا اختیار ہی حاصل نہیں۔ وزارت خارجہ کے کلیدی مدارالمہام کے علاوہ جن دیگر افراد تک “ڈی کوڈ” ہوئی جو “کاپی “بھیجی جاتی ہے اصولی طورپر اسے پڑھ کر فی الفور ضائع کردیا جاتا ہے۔ فقط وزارت خارجہ کے ریکارڈ ہی میں اسے اپنی اصل صورت میں محفوظ رکھا جاتا ہے۔

خفیہ زبان یا “کوڈ” میں جو پیغام رواں برس کے آغاز میں واشنگٹن میں تعینات پاکستانی سفیر نے اسلام آباد بھجوایا اس کی “کاپی” میرے اور آپ ہی نہیں صدر مملکت، وزیر اعظم، آرمی چیف یا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے روبرو بھی رکھ دی جائے تو وہ اسے سمجھ نہیں پائیں گے۔ اس کے ذریعے پیغام کو سمجھنے کے لئے انہیں اس شخص یا افراد کی “گواہی” درکار ہوگی جنہوں نے مذکورہ”سائفر” کو “ڈی کوڈ” کیا تھا۔ ان کی جانب سے فراہم کردہ “گواہی” کی تصدیق کے لئے مگر یہ بھی لازمی ہے کہ جس دن وہ “سائفر” ڈی کوڈ ہوا تھا اس دن کے لئے مروجہ “کوڈ” کی تفصیلات سے بھی گواہی کو جانچنے والے کامل آگاہ ہوں۔

مختصراََ “عوام کو حقیقت سے آگاہ کرنے کے لئے “سائفر کی محض “اصل” ہی درکار نہیں۔ اس میں دئے پیغام کی زبان سمجھنے کے لئے اس دن استعمال ہوئے “کوڈ” تک رسائی بھی درکار ہوگی۔ وہ “کوڈ” عیاں ہوگیا تو ہماری ریاست پر نگاہ رکھنے والی ایجنسیاں تھوڑی محنت کے بعد اندازہ لگاسکتی ہیں کہ کونسی بات بیان کرنے کے لئے کیا”کوڈ” استعمال ہوتا ہے۔ دنیا کی کمزور ترین ریاست بھی یہ “راز” عیاں کرنے کی جرات نہیں دکھائے گی۔

“سائفر” کے حوالے سے مذکورہ حقیقت پانچ مہینے گزرجانے کے باوجود مگر موجودہ حکومت عوام کو سمجھانہیں پائی ہے۔ ریاستی اداروں نے بھی اس ضمن میں مناسب پیش قدمی سے اجتناب برتا۔ ہمارا میڈیا تو عرصہ ہوا صحافیانہ جستجو ترک کئے ہوئے ہے۔ عمران خان صاحب نے لہٰذا کمال مہارت سے اپنے حامیوں کو قائل کردیا ہے کہ امریکہ ان کی وطن پرستی سے اُکتا گیا تھا۔ انہیں دھمکانے کی کوششیں ناکام ہوگئیں تو انہیں اقتدار سے فا رغ کروانے کے لئے “آپریشن رجیم چینج” لانچ کردیا گیا اور یوں ایک “امپورٹڈ حکومت” ہم پر مسلط کردی گئی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمارے “محافظ” بھی اس تناظر میں اگر “سہولت کاری” نہیں تو غفلت وکوتاہی کے مرتکب دکھائی دئے۔ اپنے دیرینہ حامی ہی نہیں عام پاکستانیوں کی کماحقہ تعداد کو بھی عمران خان صاحب “سائفر”کے حوالے سے اپنی جانب سے بنائی داستان کی بابت قائل کرچکے ہیں۔ ان کے مخالفین کے پاس اب کف افسوس کی اذیت سے گزرنے کے سوا کوئی راستہ ہی نہیں بچا۔نوائے وقت

Facebook Comments

نصرت جاوید
Nusrat Javed is a well-known Pakistani columnist, journalist, and anchor who writes for the Express News, Nawa e Waqt, and Express Tribune.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply