فوجداری قانون اصلاح طلب ہے/آصف محمود

پاکستان میں فو جداری قانون بطور خاص توجہ طلب ہے۔ معاشرے کو اس قانون کی قباحتوں سے جب تک نجات نہیں مل جاتی تب تک ایک صحت مند سماج کی تشکیل ممکن ہی نہیں۔ اس قانون نے معاشرے کی فکر کو مفلوج کر رکھا ہے۔ یہ جو ہم تھانہ کچہری، کی سیاست کی اصطلاح سنتے ہیں یہ اصل میں اسی حقیقت کا اعلان ہے کہ بالادست طبقات نے اس معاشرے کی فکر کو زنجیر سے جکڑ رکھا ہے۔ یہ زنجیر اس وقت تک نہیں ٹوٹ سکتی جب تک غلامی کی یاد گار اس قانون کو بدل نہیں دیا جاتا۔

فوجداری قانون کی سکیم قابل غور ہے۔ یہ انسانی وقار اور انسانی آزادیوں سے متصادم ہے۔ اس قانون کی مبادیات میں شہری کی کوئی حیثیت نہیں۔ وہ محض رعایا ہے جو عزت نفس، شرف انسانیت اور وقارسے محروم ہے۔ آسان تفہیم کے لیے چند مثالیں میں آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں۔

اس قانون کی سکیم یہ ہے کہ الزام لگا اور پولیس نے آدمی کو گرفتار کر لیا۔ مقدمے میں حقیقت کے سامنے آنے اور با عزت بری ہونے سے پہلے جو مقامات آہ و فغاں، آتے ہی وہ کسی بھی شریف آدمی کو عزت نفس ہی سے نہیں اس کے احساس سے بھی محروم کر دیتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ پولیس کو یہ بھی اختیار ہے وہ شک کی بنیاد پر کسی کو اٹھا لے۔ جھوٹے مقدمے میں پھنسا لے۔ جب پولیس کے احتساب کا کوئی با معنی نظام ہی موجود نہیں ہے تو گویا اسے اس بات کی آزادی ہے وہ جب چاہے کسی کی عزت اچھال دے۔

اس نو آبادیاتی فوجداری قانون کے بندوبست کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے اس کا قانون و انصاف سے تعلق ثانوی ہے، اس کا بنیادی وظیفہ یہ ہے کہ عوام (رعایا) کو ایسی چکر میں ڈال دو کہ وہ اس کی ہڈیوں کے گودے تک ایک ان دیکھا خوف سرایت کر جائے۔

ایف آئی آر درج ہوتی ہے۔ سچی ہے یا جھوٹی، اس کا فیصلہ تو بہت بعد میں ہوتا ہے۔ فیصلے سے پہلے جو مراحل ہیں وہ قابل غور ہیں۔ پہلا مرحلہ گرفتاری کا ہے۔ آدمی گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ گرفتاری کے بعد پولیس پابند ہے کہ اسے چوبیس گھنٹے کے اندر اندر مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرے۔ یعنی پولیس کو بڑے ہی غیر محسوس طریقے سے یہ اختیار دے دیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی آدمی کو اٹھا لے اور چوبیس گھنٹے کے لیے اس کی آزادی کو سلب کر لے۔ قانون کے الفاظ بظاہر ایسے ہیں کہ یہ گرفتار شدہ آدمی کے حق کی بات کی گئی ہے لیکن قانون کی روح یہ ہے کہ محض ایک الزام کی بنیاد پر کوئی بھی شخص پورے چوبیس گھنٹے کے لیے پولیس کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ آپ کہیں جا رہے ہیں، آپ کی شادی ہے، آپ کی والدہ بیمار ہے، آپ کا کوئی پیارا ہسپتال میں ہے، آپ کا ایک ایک گھنٹہ قیمتی ہے، آپ کیس دوسرے شہر میں ہیں، ان سب نزاکتوں سے قطع نظر پولیس کو یہ اختیار ہے الزام کا تکلف پورا کرے اور آپ کو چوبیس گھنٹے کا مہمان بنا لے۔ ان چوبیس گھنٹوں میں آپ پر کیا بیتتی ہے، کسی کو اس سے سروکار نہیں۔

یہ قانون 1898کا ہے۔ بارہ عشرے بیت گئے۔ صدی سے زیادہ کا وقت گزر گیا لیکن ہمارے چوبیس گھنٹے کم ہونے میں نہ آئے۔ جب یہ قانون بنا تھا اس وقت بھی اس کا مقصد یہی تھا کہ ان چوبیس گھنٹوں کے خوف سے معاشرہ سہما رہے۔ مغلوں کے دور میں گرفتار شدہ آدمی فوری طور پر قاضی کے پاس لے جایا جاتا تھا۔ حتی کہ گر فتاری بھی قاضی کے حکم کے بغیر نہ ہوتی تھی۔ سنگین ترین جرائم میں جہاں قاضی کو بتانا ممکن نہ ہوتا گرفتاری کی جا سکتی تھی مگر پہلی فرصت میں قاضی کے پاس ملزم پیش کرنا ہوتا تھا۔ اب نیا قانون بنا۔ مہذب سفید فام قوم اپنے White Man’s Burden کے تحت بر صغیر کے لوگوں کو تہذیب سکھانے آئی اور اس کی آزادیوں کو پہلے ہی مرحلے میں سلب کر لیا گیا۔

وہ اور وقت تھا۔ نقل و حرکت کے ذرائع محدود تھے۔ پھر بھی اس قانون پر نقد ہوا اور انسانی آزادی سے منافی قرار دیا گیا۔ آج تو جدید دور ہے۔ ملزم گرفتار کیا جائے تو زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹے میں اسے عدالت کے سامنے پیش کیا جا سکتا ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ دور غلامی کے یہ چوبیس گھنٹے کم ہونے میں نہیں آ رہے؟ اسلام آباد، لاہور، کراچی، کوئٹہ، پشارو یا کسی بھی چھوٹے شہر یا گائوں یا قصبے میں پولیس کسی کو گرفتار کرے اسے عدالت تک لے جانے میں کتنا وقت لگتا ہے؟ کیا چوبیس گھنٹے لگتے ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ یہ چوبیس گھنٹے کا نو آبادیاتی دورانیہ آج تک کم نہیں ہو سکا۔

مجموعہ ضابطہ فوجداری میں اس دورانیے کی شان نزول اور اور تعین دونوں موجود ہیں اور ان کا مطالعہ سوالات کا جواب دینے کی بجائے مزید سوالات پیدا کر دیتا ہے۔ دفعہ 60میں لکھا ہے کہ جب کوئی پولیس افسر کسی کو گرفتار کرے گا تو غیر ضروری تاخیر کے بغیر اسے مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کرے گا۔

دفعہ61میں اس غیر ضروری تاخیر کی وضاحت کی گئی ہے ا ور کہا گیا کہ پولیس کسی گرفتار شدہ شخص کو چوبیس گھنٹے سے زیادہ اپنے پاس نہیں رکھ سکے گی اور اس دورانیے میں اسے مجسٹریٹ کے پاس پیش کیا جائے گا۔ اب الفاظ کا حسن ایسا ہے کہ بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ قانون پولیس کے اختیارات پر ایک قدغن لگا رہا ہے اور عام شہریوں کے حق کا تحفظ کر رہا ہے لیکن عملی طور پر اس کے برعکس ہو رہا ہے۔ عملی طور پر یہ قانون پولیس کو چوبیس گھنٹوں کا لائسنس دے رہا ہے۔

اس میں ایک اور قباحت بھی ہے۔ وہ یہ ہے قانون کی روح بالکل مختلف ہے اور عمل درآمد کی نوعیت بالکل الگ ہے۔ دفعہ 61 میں ہی وقت کے تعین کا فارمولا بھی دیا گیا اور کہا گیا ہے کہ ملزم کو عدالت تک لانے میں جو سفر ہو گا اس کا وقت ان چوبیس گھنٹوں میں شامل نہیں ہو گا۔ لیکن سفر کہاں سے کہاں تک ہو گا؟ لکھا ہے کہ

From te place of arrest to the Magistrate’s court

یعنی جہاں سے ملزم گرفتار ہوا اس جگہ سے عدالت تک کا سفر۔ تعبیرات اور شرح اس سے یقینا مختلف ہو سکتی ہیں کہ گرفتاری کے اندراج وغیرہ کے مراحل میں تھانہ بھی آتا ہے لیکن قانون کے الفاظ کی یہ تعبیر بھی تو ہو سکتی ہے کہ جائے گرفتاری سے ملزم سیدھا عدالت لے جایا جائے گا۔ بیچ میں تھانے میں قیام و طعام اور خاطر تواضع، کی گنجائش نہیں ہو گی۔ تاہم اگر اس تعبیر پر یقین کیا جائے کہ گرفتاری کے بعد عدالت سے پہلے تھانہ منطقی طور پر آتا ہے تو پھر اس تعبیر کا بھی یقین کرنا ہو گا کہ تفتیش بھی اسی چوبیس گھنٹے کے دورانیے میں ہونی چاہیے اور فزیکل ریمانڈ کا سلسلہ ختم ہو جانا چاہیے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

فوجداری کے قانون میں درجنوں ایسے مقامات آہ و فغاں ہیں جہاں ترامیم کی ضرورت ہے اور فزیکل ریمانڈ کو عملا مکینیکل ریمانڈ، میں بدل دینا ایک ایسا ہی مقام ہے۔

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply