زندگی اور خودغرضی /ڈاکٹر مختیار ملغانی

زندگی کے مقاصد کو ایک طرف رکھتے ہوئے پہلے اس بات پہ غور کرنا ضروری ہے کہ زندگی کیا ہے؟
زندہ اور غیر زندہ میں کیا فرق ہے؟ یہ سوال بظاہر بہت سادہ اور آسان ہے لیکن گہرائی میں جا کر دیکھا جائے تو معاملہ قدرے پیچیدہ معلوم ہوگا، بالکل یہی مسئلہ وقت کا ہے، ہم سب جانتے ہیں کہ وقت کیا ہے لیکن اگر چار لفظوں میں وقت کی تعریف کرنا پڑ جائے تو دانتوں پسینہ آجائے۔ زندہ اور غیر زندہ ،یعنی مردہ، کے فرق پر بہت سے نکات پیش کئے جا سکتے ہیں، ایک فرق احساس کا ہے، جو محسوس کرے وہ زندہ ہے، لیکن یہ تعریف اس لئے درست نہیں کہ تھرمامیٹر اور دیگر مختلف آلات اپنے اندر حساسیت رکھتے ہیں اور اسی بنا پر خاص اکائی کے پیمانے پر ہم مختلف پیمائشیں کرتے ہیں، ایک اور فرق کھانے پینے کی صلاحیت بھی ہو سکتا ہے کہ زندہ خوراک ،انرجی، کے محتاج ہوتے ہیں، لیکن سب کو معلوم ہے کہ پتھر سورج کی انرجی کو جذب کرتے ہیں، اسی لئے گرمیوں میں پتھر گرم اور سردیوں میں سرد ہوتے ہیں، لہذا یہ فرق بھی حتمی نہیں، اسی طرح افزائشِ نسل والا فرق بھی نامکمل ہے، مثلاً وائرس اپنی نسل بڑھاتے ہیں حالانکہ انہیں جاندار نہیں کہا جا سکتا، وائرس کی مثال یو ایس بی جیسی ہے، جس میں انفارمیشن تو موجود ہے لیکن جب تک اس یو ایس بی کو کمپیوٹر، یعنی زندہ خلیے ، کے ساتھ نہ لگایا جائے، یہ مردہ ہی رہتی ہے ۔اہم ترین فرق ،فکر، کو قرار دیا جا سکتا ہے، لیکن یہ بھی درست نہیں، مصنوعی ذہانت غور وفکر کی صلاحیت رکھتی ہے لیکن یہ زندہ نہیں، اسی طرح انسانوں کے علاوہ دوسرے جانداروں میں غور وفکر کی خصوصیت عموماً ناپید ہے لیکن وہ زندہ ہیں، اور انسانوں میں بھی کتنے ہیں جو غور وفکر کرتے ہیں، اس لئے غور وفکر زندہ اور مردہ میں بنیادی فرق قرار نہیں دیا جا سکتا۔
زندگی کی سب سے بنیادی اور اہم ترین علامت، اپنی بہتری کی کوشش، ہے۔ جو کچھ اور جو کوئی بہتری کی طرف گامزن نہیں، اسے زندہ کہنا درست نہیں، جیسے دائرے سے اس کے گول پن کو ہٹانا ممکن نہیں، اسی طرح حقیقی زندگی سے، اس کی بہتری کی کوشش، کو نہیں چھینا جا سکتا، مردہ بہتری کی سوجھ بوجھ نہیں رکھتا اسی لئے کسی قسم کی کوشش نہیں کرسکتا، زندہ خلیہ ہمیشہ سازگار ماحول کی طرف جھکاؤ رکھے گا کہ یہی اس کی جبلت ہے۔اس کے بغیر ارتقاء کا عمل کبھی بھی ممکن نہ ہو پاتا۔
زندگی کی تگ و دو میں گاہے کچھ جاندار اپنے قبیلے کی بقاء پر اپنی زندگی قربان کرتے دکھائی دیتے ہیں، یہ بھی زندگی کے تسلسل کی کوشش ہے، مثلاً چیونٹی دشمن پر اپنے جسم کو کسی بم کی صورت پھاڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے، تاکہ اپنے جسم میں موجود تیزاب سے دشمن کو نقصان پہنچا سکے، یہ اگلی نسل کو بچانے کی کوشش ہے، ایسی صورت میں اس ایک چیونٹی کو ایک عضو اور قبیلے کو پورا جسم تصور کیا جانا چاہئے ، بالکل ایسے ہی جیسے بھیڑیے کی ٹانگ شکاری کے جال یا کڑکی میں پھنس جائے تو وہ اپنی ٹانگ چبا کر باقی جسم کو زندہ سلامت بچا لے جا سکتا ہے۔یہ سب زندگی کی کوششیں ہیں، البتہ یہ بات درست ہے کہ زندگی کبھی کبھار ،بہتری، کے معاملے میں دھوکہ بھی کھا سکتی ہے کہ جسے وہ ترقی سمجھ رہی ہے، حقیقت میں وہ تنزلی ہو، لیکن یہ استثناء ہے۔
جیسے کششِ ثقل کا قانون ہر جسم کیلئے یکساں ہے، اسی طرح بہتری اور بلندی کی کوشش ہر زندگی کی ناگزیر علامت ہے، حتی کہ خودکشی کرنے والا شخص بھی اس فیصلے پر تب پہنچتا ہے جب زندگی کا بوجھ موت سے بدتر محسوس ہو، وہ بھی اپنی دانست میں بہتری کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔
اس بحث میں سب سے پیچیدہ نکتہ یہ ہے کہ، اپنی بہتری کی کوشش، والے معاملے کو جب ہم اس کی جڑ میں جھانک کر دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس طاقت کے پیچھے واحد محرک ،خودغرضی ، کا عنصر ہے، یہ انکشاف جتنا بھی بھیانک کیوں نہ ہو، لیکن حقیقت یہی ہے کہ ہر شخص اپنی ذات میں خود غرض ہے، یہاں خود غرضی کو خارجی نہیں، بلکہ داخلی معنوں میں لیا جائے۔ اس لفظ کو عموماً منفی معنوں میں پڑھا اور سمجھا جاتا ہے، اسی لئے ہمیں اس کی قبولیت میں تردد ہے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ جیسے پانی اگر گیلا نہ ہوتو وہ پانی ہی نہیں، ایسے ہی زندگی اگر خود غرضی سے پاک ہوتو اسے زندگی کہنا مشکل ہوگا، کیونکہ جیسے پہلے عرض کیا کہ زندگی اپنی خصلت میں اپنی ہی بہتری کیلئے کوشاں رہتی ہے، یہاں ایسے لوگوں کی مثال دی جا سکتی ہے جنہوں نے دوسروں کیلئے اپنی زندگیاں قربان کیں، سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ ایسے شہداء کو بھلا کیونکر خودغرض کہا جا سکتا ہے، مکرر عرض ہے کہ خودغرضی کو اس کے اساسی معنوں سے تعبیر کیا جائے، کہ ایسے افراد کے پاس دو ہی راستے تھے، ایک یہ کہ دوسروں کی جان بچاتے ہوئے اپنے ضمیر یا آخرت میں خدا کے سامنے سرخرو ہویا جائے، یا تو پھر اپنی جان بچا کر مرتے لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے، لیکن اس دوسری صورت میں فرد تمام عمر اپنے ضمیر کی لعن طعن اور احساسِ جرم میں مبتلا ہو سکتا ہے، فرد نے ضمیر کے بوجھ تلے اور خدا کے سامنے سرخرو ہونے کو ترجیح دی، یہ خودغرضی کی، اس کے داخلی معنوں میں، ایک مثال ہے۔
کسی فرد کا انتہائی قریبی شخص اگر حادثے میں ٹانگوں سے معذور ہو جاتا ہے تو فرد کے سامنے دو راستے ہیں، ایک یہ کہ تمام کام چھوڑ کر دن رات اپنے عزیز کی خدمت کرے، دوسرا یہ کہ عزیز کو اس کے حال پر چھوڑ کر اپنی روزمرہ کی مصروفیات میں مگن رہے، سماج کا عام آدمی عزیز کی خدمت کو ترجیح دیتا ہے، کہ عزیز کی خدمت میں جو مشکلات ہوں گی وہ ان کی نسبت قابلِ برداشت ہیں جو اسے مریض سے منہ پھیرنے پر جھیلنا ہوں گی، یہ ضمیر کی آواز بھی ہو سکتی ہے، فرض شناسی کا عنصر یا پھر سماجی دباؤ بھی ہو سکتا ہے، وجہ جو بھی ہو ، فرد کا انتخاب، اپنی بہتری کی کوشش، ہی ہوگا، مزکورہ صورتحال میں بہتری مریض کو وقت دینا اور اس کی خدمت کرنا ہے۔اگر مریض کی دیکھ بھال کے فائدے سے فرد کی اپنی زندگی کے نقصان کا تخمینہ زیادہ ہے تو ہزاروں مجبوریاں گنوانے میں فرد کوئی عار محسوس نہ کرے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply