بیٹی/آغر ندیم سحر

ایک ماہ قبل میانوالی میں عمران نامی درندے نے اپنی سات دن کی بیٹی کو گولیاں مار کر موت کے گھاٹ اتاردیا‘ کیوں کہ وہ بیٹی کی بجائے بیٹے کی پیدائش کا خواہش مند تھا۔اس دل دہلا دینے والے واقعے کو آج 6  ماہ گزر چکے  اور میں ابھی تک اس واقعے اور اس جیسے درجنوں واقعات کے مطالعے میں مصروف ہوں۔

مثلاً اسی طرح کا واقعہ نومبر ۲۰۲۱ء میں نارووال میں پیش آیا تھا جہاں عمران نامی شخص نے اپنی بیوی عشرت بی بی کو اپنی ماں کے ساتھ مل کر قتل کر دیا تھا کیوں کہ  14 سال سے شادی شدہ عشرت بی بی کچھ ہی دنوں میں تیسری بیٹی کو جنم دینے والی تھی اور یہ ان کے سسرال کو قبول نہیں تھا‘حالانکہ اس جوڑے کا ایک بیٹا بھی تھا۔

جون ۲۰۲۱ء میں اسلام آباد میں جب ایک ساس کو معلوم پڑا کہ اس کی بہو نے دو بیٹیوں یعنی اس کی پوتیوں کو جنم دیا ہے تو اس نے ہسپتال کے گائنی وارڈ میں شور شرابا شروع کر دیا اور ڈاکٹر پر مقدمہ دائر کرنے کی دھمکی دی‘ڈاکٹر بار بار سمجھاتی رہی کہ یہ ہمارے اختیار میں نہیں مگر وہ عورت پوتیوں کو دیکھنے کی بجائے روتی چلاتی گھر چلی گئی اور ہسپتال سے جاتے ہوئے بیٹے کو دھمکی دی کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے کر واپس گھر آئے ورنہ اس کا گھر میں داخلہ منع ہوگا‘لڑکا بھی اپنی ماں کے ساتھ گھر روانہ ہو گیا اور لڑکی کے میکے والوں نے ہسپتال کے اخراجات اٹھائے اور اپنی بیٹی کو گھر لے گئے۔

فروری ۲۰۲۱ء میں تیس سالہ صبا کو اس کے شوہر ‘ساس‘دیور اور شوہر کے بہنونی نے تشدد کے بعد گلا گھونٹ کر مار دیا تھا‘وجہ کیا تھی؟ صبا نے چاہ ماہ قبل دوسری بیٹی کو جنم دیا تھا جس پر اس کے سسرال والے ناخوش تھے۔

جون ۲۰۲۰ء میں سندھ کے شہر دادو میں عبداللہ سومرو نے اپنی جواں بیوی یمنٰی کو دوسری بیٹی پیدا کرنے کے جرم میں لوہے کے سریے سے پیٹ پیٹ کر مار ڈالا تھا۔

اگست۲۰۱۹ء میں قصور میں نسرین نامی خاتون کو اس کے شوہر نے اس لیے تشدد کر کے قتل کیا تھا کہ اس کے ہاں چوتھی بیٹی نے جنم لیا تھا۔

جولائی ۲۰۱۹ء ڈیری غازی خان کے ایک پس ماندہ گاؤں میں لبنیٰ نامی لڑکی کو اس لیے اس کے سسرالیوں نے گھر سے نکال دیا تھا کہ اس نے دوسری بیٹی کیوں پیدا کی۔

اپریل ۲۰۱۹ء میں جھنگ کے علاقے میں بھی ایک ایسا ہی اندوہ ناک واقعہ پیش آیا کہ باپ کو جب الٹراساؤنڈ کے ذریعے معلوم پڑا کہ دوسری دفعہ بھی بیٹی پیدا ہوگی‘اس نے اسقاط حمل کا آپشن بہتر سمجھا۔

فروری ۲۰۱۹ء میں پاک پتن ‘دسمبر۲۰۱۸ء میں کوئٹہ‘نومبر۲۰۱۸ء میں گجرات‘اگست ۲۰۱۸ء میں جہلم‘جنوری ۲۰۱۸ء میں سیالکوٹ اور اکتوبر ۲۰۱۷ء میں گوجرہ میں بھی اس سے ملتے جلتے واقعات پیش آ چکے۔کہیں ماں کو مار دیا گیا اورکہیں بیٹی کو‘کہیں معاملہ طلاق پہ ختم ہوا اورکہیں ماں بچی دونوں کو مار دیا گیا اور تحقیق کے بعد ہر واقعے کے پیچھے ایک ہی کہانی ملی کہ بیٹی کیوں پیدا کی؟۔

منٹو صاحب نے کہا تھا کہ ’’ہم سارے مرد اپنے بستر پر تو عورت چاہتے ہیں مگر عورت(بیٹی)پیدا کوئی بھی نہیں کرنا چاہتا‘‘۔

یہ واقعات میڈیا نے بروقت رپورٹ کر لیے اور ہم تک پہنچ گئے مگر حقیقت یہ ہے کہ ایسے سینکڑوں واقعات یا تو والدین بے عزتی کے ڈر سے دبا دیتے ہیں یا مخالف طبقے کی دھمکیوں کی وجہ سے اس سے ملتے جلتے واقعات تاریخ میں دفن ہو جاتے ہیں۔کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ہم ذہنی طور پراس درجہ پس ماندہ کیوں ہیں؟ایک اسلامی معاشرے میں رہتے ہوئے اسلام کی بنیادی تعلیمات سے ناواقف کیوں ہیں؟

ایدھی ہوم کے سربراہ فیصل ایدھی کے مطابق ایدھی ہوم کے جھولوں میں ڈالے گئے بچوں میں 80  فیصد بچیاں ہوتی ہیں جب کہ ملک کے مختلف حصوں میں کچرا کنڈیوں میں ملنے والے نوزائیدہ بچوں کی لاشوں میں بھی ۸۰ فی صد سے زائد بچیاں ہی ہوتی ہیں۔ایسا کیوں ہے کہ ہم بیٹی کی پیدائش کو منحوس تصور کرتے ہیں‘بیٹے کی پیدائش پر تو مٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں اور بیٹی کی پیدائش پر صفِ ماتم بچھا لیتے ہیں۔دادا اور دادی پوتے کی پیدائش پر تو غریبوں میں پیسے تقسیم کرتے ہیں اور پوتی کی پیدائش پر ’’جو اللہ کا حکم‘‘کہہ کر آنسو بہانے لگتے ہیں۔ماں باپ جب بیٹوں کو اس لیے دوسری شادی پر مجبور کرنے لگیں کہ پہلی سے صرف بیٹیاں پیدا ہو رہی ہیں تو معاشرے میں ایسے واقعات تسلسل سے ہونے لگتے ہیں۔ہم ذہنی طور پر اس قدر مفلوج ہو چکے ہیں کہ بیٹے کی پیدائش کے لیے تعویز اور دھاگے تک باندھتے ہیں تاکہ کسی طرح سے بیٹی کی پیدائش سے بچ سکیں۔

ایسے خاندانوں کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں جن کا خیال یہ ہے کہ وراثت اس وقت تک لاوارث رہتی ہے جب تک اس گھر میں بیٹا پیدا نہ ہو۔ ایسے واقعات کے پیچھے ہندوانہ سوچ کا حامل معاشرہ اور لوگ ملوث ہیں جن کے باعث بیٹیوں کی پیدائش ماں باپ کے لیے آزمائش بنا دی جاتی ہے‘بیٹیوں کی پرورش اور شادی بیاہ کو اس قدر تکلیف دہ بنا دیا گیا ہے کہ لوگ بیٹیوں کو واقعی بوجھ سمجھنے لگے ہیں۔

ہمارے ہاں تو یہ بھی رسم چل پڑی کہ بیٹیوں کو بیٹا کہ کر مخاطب کیا جاتا ہے تاکہ بیٹیوں کو بہادر ہونے کا احساس دلایا جا سکے‘کیا مرد ہی بہادری کی علامت ہے؟کیابیٹی کہنے سے بیٹی کمزور پڑ جاتی ہے؟یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ بیٹی لفظ ہی کمزوری اور کم ہمتی کی علامت ہے‘ کیابیٹیاں بہادر اور حوصلہ مند نہیں ہو سکتیں‘ کیابیٹیاں باپ کا سر فخر سے بلند کر سکتیں؟۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایسی تکلیف دہ صورت حال میں جب بیٹیاں اپنے حق کے لیے سڑکوں پر نکلتی ہیں تو ہم مرد ہی انھیں تنقید کا شنانہ بناتے ہیں حالانکہ ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ اگر آج وہ وراثت میں حق مانگنے کے لیے سڑکوں پر نکلی ہیں تو اس کہ کوئی وجہ تو ہوگی۔ عورت اگر اپنا وجود ثابت کرنے نکلی ہے تو اس کہ وجہ یہی ہے کہ میرے اس ’’تعلیم یافتہ‘‘معاشرے نے اسے اس قدر مجبور کر دیا ہے کہ وہ یہ بتانے پر مجبور ہو گئی کہ میں بیٹی ہوں اور میں بھی بہادر ہوں‘میں بیٹی ہوں اور میں بھی اپنے باپ کا سر فخر سے بلند کر سکتی ہیں۔ ہمیں مجموعی طور پر ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا‘ہمیں بیٹے کے ساتھ ساتھ بیٹی کی پیدائش پر بھی کہنا پڑے گا کہ’مبارک ہو بیٹی ہوئی ہے‘،جب تک ایسا نہیں ہوگا‘ہم ایسے واقعات کے ساتھ ہی زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گے۔92نیوز

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply