گولڈن ایج (28) ۔ عروج کے بعد/وہارا امباکر

عرب سائنسدانوں کا باقی دنیا پر بڑا اثر رہا ہے اور یہ صرف خالص سائنس کا ہی نہیں تھا۔ زراعت، آب پاشی، کیمیکل صنعتیں جیسا کہ شیشہ گری یا سرامکس، چینی کی صنعت۔ اس کے علاوہ انجنیرنگ کے کارنامے جیسا کہ ڈیم، نہریں، پانی کے پہیے اور پمپ، گھڑی سازی وغیرہ نے کروڑوں عام لوگوں کی زندگی کو براہِ راست یا بالواسطہ طریقے سے متاثر کیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

۔۔۔۔۔۔۔۔
اس دور کا ایک اور دلچسپ تحفہ آج عام استعمال ہونے والا مشروب کافی ہے۔ یہ نویں صدی میں دریافت ہوئی۔ ایک کہانی کے مطابق ایتھیوپیا کے چرواہے خالد نے نوٹ کیا تھا کہ اس کی بکریوں کو یہ پسند تھی اور اس نے اسے توڑ کر پہلا کافی کا مشروب تیار کیا۔ ایتھیوپیا سے یہ مصر اور یمن پہنچی۔ اور موجودہ شکل میں اسے عرب میں روسٹ اور کشید کر کے بنایا گیا۔ پندرہویں صدی تک یہ ترکی، فارس، مشرقِ وسطٰی اور شمالی افریقہ تک پہنچ چکی تھی۔
اسے “مسلمان مشروب” کہا جاتا رہا اور ابتدا میں یورپ میں اس کو اپنانے کے خلاف مذہبی وجوہات کی بنا پر مزاحمت رہی۔ یورپ میں اجازت ملنے کے بعد وینس سے اٹلی پہنچی جہاں پر سترہویں صدی کے وسط میں پہلا قہوہ خانہ کھلا۔ ولندیزی اسے انڈونیشیا لے گئے اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے توسط سے یہ اٹھارہویں صدی میں برطانیہ پہنچ گئی۔
(ایتھیوپیا کی حکومت 2007 میں اس کے کاپی رائٹ کے مشہور عدالتی کیس جیت گئی)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر ایک ہزار سال میں ہونے والی سائنسی آؤٹ پُٹ کی پیمائش کی جائے تو آپ دیکھیں گے کہ اسلامی دنیا میں یہ سن 700 میں بڑھنے لگی۔ نویں صدی کا پہلا نصف مامون کے بیت الحکة کا وقت تھا جب یہ تیزی سے اوپر گئی اور سن 1000 میں یہ اپنے عروج پر تھی۔ اگلے پانچ سو سال میں اس کا رفتہ رفتہ زوال آیا۔
اس کے مقابلے میں یورپ میں ہونے والی سرگرمی پندرہویں صدی کی ابتدا تک ناقابلِ ذکر رہی اور اس کے بعد اچانک اس میں ہونے والی تیزی نظر آتی ہے۔ یہ پندرہویں صدی کے وسط میں اسلامی دنیا سے آگے نکل گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
یورپ میں یہ احیائے نو کا دور تھا۔ یہ کلچرل تحریک تھی جو چودہویں سے سترہویں صدی تک رہی۔ اٹلی میں فلورنس میں شروع ہو کر یہ باقی یورپ میں پھیلی اور اس میں فلسفہ، ادب، آرٹ، سائنس اور مذہب کی کئی انٹلکچوئل تحریکیں تھیں۔ مائیکل اینجلو اور لیونارڈو ڈا ونچی کے نام نظر آتے ہیں۔
پرانی سوچ کے کئی مورخ ایسا تاثر دیتے ہیں کہ احیائے نو قرونِ وسطیٰ سے ہونے والا قطع تعلق تھا اور سولہویں صدی میں کوئی “سائنسی انقلاب” برپا ہوا تھا جس نے جدید دور کی پیدائش کی۔ لیکن آج کے زیادہ مورخ درست طور پر ایسا نہیں دیکھتے۔ یہ قدیم دور سے ہونے والے مسلسل جاری سفر میں ہونے والا اسراع تھا۔ احیائے نو کو سائنس یا سائنسی طریقے کی پیدائش کا وقت سمجھنا تاریخی اعتبار سے غلط ہے۔ ہاں، یہ کہا جا سکتا ہے کہ یورپ میں یہ سلسلہ دوبارہ شروع ہوا تھا۔ اور اس کی وجہ یونانی اور عربی کام کو یورپ میں اور لاطینی میں لے جانا تھا۔ دوسرا یہ کہ اندلس کی فتح نے یورپی سائنسدانوں کو قرطبہ، غرناطہ اور طلیطلہ جیسے علمی مراکز تک رسائی دے دی۔
یہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ احیائے نو کا مقام فلورنس تھا۔ نہ کہ یورپ کی کوئی اور جگہ۔ ایسا کیوں؟ کئی یورپی مورخین اس کی وجہ اتفاق کو گردانتے ہیں کہ یہاں پر لیونارڈو، بوٹی سیلی اور مائیکل اینجلو جیسے لوگ پیدا ہو گئے۔ لیکن عظیم لوگ اسی وقت آتے ہیں جب مناسب اور موافق کلچرل حالات ملیں۔
جس طرح نویں صدی کے بغداد میں الخوارزمی یا الکندی آئے تھے۔ فلورنس کا مادیسی خاندان علم اور فنون کا ویسا ہی پرجوش سرپرست تھا جیسا کہ ابتدائی عباسی خلفاء۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply