دبئی سے ابوظہبی تک/گل نوخیز اختر

دبئی میں برادرم غوث قادری اور کاشف محمود ہمارے میزبان تھے۔ قاسمی صاحب ، عزیز احمد اور خاکسار ایک ہی ہوٹل میں قیام پذیر ہوئے۔یہاں عزیر احمد نے پہلی مرتبہ انکشاف کیا کہ دبئی کے خلفیہ کا نام ’برج الخلیفہ ‘ ہے۔دبئی کبھی مجھے پسند نہیں رہا۔ عجیب سی مصنوعی زندگی ہے۔ دھماچوکڑی خوب ہے لیکن ایسا لگتاہے ہر کوئی زبردستی خوش نظر آنے کی کوشش کرتاہے۔ایک بات یہاں کی اچھی ہے، آپ کے پاس مہنگا ترین فون یا شاندار گاڑی بھی ہو تو کسی کو کوئی پروا نہیں۔ اپنے ہاں تو لوگ قیمتی گھڑی یا چم چم کرتی گاڑی رکھ لیں تو بلے بلے ہوجاتی ہے، یہاں کوئی کسی کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا۔ جس نے جو کمانا ہے اپنے لیے کمانا ہے اور خود پر جوکچھ لگانا ہے اپنے لیے ہی لگانا ہے۔ کون کیا لباس پہن کر پھر رہا ہے کسی کا مسئلہ نہیں۔ یہاں برقعے، نقاب، اسکارف، ٹائٹس، شارٹس جو مرضی پہن لیں سب چلے گا۔ ساحل سمندر پر اس سے بھی کم درجے کا لباس جا بجا نظر آتا ہے لیکن کسی کے ایمان میں خلل نہیں پڑتا۔دبئی آسمان کو چھوتی عمارتوں کی آماجگاہ ہے۔ یہاں رنگ و نور کا سیلاب ہے ، تیزی ہے ، زندگی ہے اور اس کے اندر چھپا ہوا کوئی گہرا کرب ہے۔دن بھر کے کھانوں اور سیرو تفریح کے بعد جب ہم واپس ہوٹل پہنچتے تو میں چپکے سے اپنے کمرے سے نکل کر’زیارتوں‘کے لیے سڑک پر آجاتا۔میلوں تک پیدل چلتا اور مختلف مناظر دل میں اتارتا چلا جاتا۔ دبئی میں کہیں کہیں بھکاری بھی نظر آجاتے ہیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ ان میں ہم وطن زیادہ ہوتے ہیں۔ سب کا ایک ہی مخصوص جملہ ہوتاہے’پاسپورٹ گم ہوگیا ہے، کھانے کے پیسے نہیں ‘۔ یہ لوگ چھپ کر ہم وطنوں کو تاڑتے ہیں اور پھر ان کے آگے دُکھڑے رونے لگتے ہیں۔
کاشف محمود کی ہمراہی میں ہم چاروں دبئی مال میں داخل ہوئے تو قاسمی صاحب اپنے لیے سوٹ خریدنا چاہتے تھے، مجھے پرفیومز کی تلاش تھی اور عزیر بھائی ترکش ریسٹورنٹ کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔پرفیومز کے معاملے میں عزیر بھائی کی حکمت عملی کا میں ہمیشہ سے قائل رہا ہوں۔ اس بار بھی انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور ایک برینڈڈ پرفیومز کی بڑی سی آئوٹ لٹ میں گھس گئے۔سب سے مہنگا پرفیوم پسند کیا اور چیک کرنے کے طور پر پچیس تیس دفعہ اپنے اور میرے اوپرا سپرے کردیا۔ یہ خوبصورت حرکت وہ مختلف ایئرپورٹس پر بھی کرتے ہیں اور حیرت کی بات ہے کہ سیل گرلز ان کی شکر گزار ہوتی ہیں کہ انہوں نے ان کے پرفیومز کو چیک کرنے کی سعادت بخشی۔ڈھیر ساری شاپنگ کے بعد بیگز اٹھائے ہم لوگ باہر نکلے تو برج الخلیفہ کی عمارت مختلف روشنیوں سے منعکس ہورہی تھی۔ یہاں ہر رات فواروں کا رقص ہوتاہے جسے دیکھنے کیلئے پوری دنیا سے لوگ آئے ہوئے تھے۔ کاشف بھائی نے مشورہ دیا کہ ترکش ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر یہ شو دیکھتے ہیں اور ساتھ کھانا بھی انجوائے کرتے ہیں۔ میں کھانے کا شوقین نہیں لیکن کھانا واقعی لذیز تھا۔کھانے کے بعد خوبانی رنگت کی ترکش حسینہ نے چھوٹے چھوٹے چار عدد جام ہمارے سامنے رکھ دیے اور چہرے پر مسکراہٹ سجاتے ہوئے اشارہ کیا کہ ’لیجئے ناں‘۔ میں نے غور سے پہلے جام کی طرف اور پھر بے بسی سے عزیر بھائی کی طرف دیکھا۔ انہوں نے فوراً تسلی دی’پی لیں!ترکش قہوہ ہے‘۔رات گئے تک کاشف صاحب ہمیں دبئی گھماتے رہے۔ہوٹل پہنچنے تک یہ حال ہوگیا تھا کہ بیڈ تک چل کر جانے کی بھی ہمت نہیں تھی۔لیکن سونا ضروری تھاکیونکہ کل ابوظہبی کیلئے روانہ ہونا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اگلی صبح میں تیسرے فلور پر پہنچا تو ناشتے کا عظیم الشان میلہ لگا ہوا تھا۔ ٹیبل پر پہنچا تو عزیر بھائی کا شکریہ ادا کیا کیونکہ وہ میرے حصے کا ناشتہ بھی ٹیبل پر سجا چکے تھے تاہم قاسمی صاحب نے آگاہ کیا کہ یہ ناشتہ عزیر صاحب اپنے لیے لائے ہیں۔ میں نے بوکھلا کر ناشتے پر نظر ڈالی۔ چھ اُبلے ہوئے انڈے، چار آملیٹ، تین پراٹھے، ایک جگ جوس، دو گلاس دودھ اور بھاری مقدار میں پوریاں موجود تھیں۔ میں نے پوچھا عزیر بھائی یہ ناشتہ آپ کریں گے؟ ان کے لہجے میں رقعت در آئی، بھرائی ہوئی آواز میں بولے’شوگر کی وجہ سے زیادہ نہیں کھاسکتا‘۔
اگلا اسٹاپ ابوظہبی تھا۔ دبئی سے ابوظہبی کا سفر لگ بھگ ڈیڑھ دو گھنٹے کا ہے۔ سڑک موٹر وے کی طرح ہے تاہم اصل دبئی پندرہ منٹ میں ہی ختم ہوجاتاہے اس کے بعد صحرائی علاقے جابجا نظر آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ ابوظہبی کے ہوٹل میں ہماری بکنگ سفارت خانے کی جانب سے ہوچکی تھی۔میں نے ہوٹل پہنچتے ہی اپنے بھانجے شہاب کو فون کیا ۔وہ خوشی سے نہال ہوگیا اور اپنی دوسالہ پیاری سی بیٹی ہانیہ اور اہلیہ انعم کے ساتھ فوراً ملنے پہنچ گیا۔ یہ تینوں اپنے ماموں سے بہت محبت کرتے ہیں اور ماموں کی بھی یہ جان ہیں۔رات کو پاکستانی سفارت خانے کی تقریب تھی جس میں شاعری، مزاح، نثر اور بہت کچھ تھا۔ یہاں قائم مقام سفیر امتیاز فیروز گوندل اور ان کی ٹیم نے انتہائی شاندار انتظام کررکھا تھا۔تقریب ایسی شاندار تھی کہ مت پوچھئے۔ دیار غیر میں چھوٹا سا پاکستان لگ رہا تھا۔یہ ہمارے سفر کی آخری منزل تھی۔ اگلے دن پاکستان روانگی تھی۔ ابوظہبی ائیرپورٹ سے جہاز نے وطن عزیز کی طرف اڑان بھری تو دل خوشی سے بھر گیا۔پندرہ دن کی اداسی ایک دم سے بے چینی میں بدل گئی۔طیارے کے ٹائروں نے پاکستان کی زمین کو چھوا تو اپنے آپ میں ایک عجیب سی طاقت محسوس ہونے لگی۔رات کے تین بجے جب ہم تین مسافر تمام تر کلیئرنس کے بعداپنے اپنے سامان کی ٹرالیاں دھکیلتے ہوئے ایئرپورٹ سے باہر نکلے توقہقہے لگاتا،کھلکھلاتا،گنگناتا، اٹکھیلیاں کرتا، شرارتی لاہور اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے ہمارا منتظر تھا۔
(بشکریہ:روزنامہ جنگ)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply