عوامی نیشنل پارٹی کی بنیاد سال 1986میں خان عبدالولی خان اور ان کی زوجہ بیگم نسیم ولی خان نے رکھی۔ پارٹی کی نظریاتی اساس میں پوسٹ مارکس ازم،جمہوری سوشل ازم، لبرل سوشلزم، ترقی پسند نظریات (بائیں بازو) پشتون ولی اور خالص سیکولرازم کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے جس سے متاثر ہوکر روس نواز سیاسی نظریات والے جوق در جوق اس نوزائیدہ پارٹی میں شامل ہوتے گئے۔ مگر ان سب کے باوجود اس جماعت کا سیاسی کعبہ چارسدہ ہی ٹھہرایا گیا۔
ولی خان کے بعد ان کے بیٹے اسفندیار نے جب پارٹی کی کمان سنبھالی تو ان کے اپنی سوتیلی والدہ اور پارٹی بانی بیگم نسیم ولی خان کیساتھ فاصلے بڑھ گئے اور مرتے دم تک وہ اسفندیار سے دور رہیں، مگر حیرت انگیز طور پر بیگم نسیم ولی خان کا میکہ اسفندیار کا پسندیدہ رہا۔ اسفندیار نے اپنے بعد اپنے بیٹے ایمل ولی خان کو مستقبل میں پارٹی سربراہ بنانے کا حتمی فیصلہ کیا ہے جس کی سیاسی سمجھ بوجھ اتنی ناپختہ ہے کہ ان کے بچگانہ بیانات وقتاً فوقتاً سوشل میڈیا کی زینت بنتے رہتے ہیں۔
ہم دوبارہ سا2008سے شروع کرتے ہیں جب عوامی نیشنل پارٹی نے اتحادی حکومت بنا کر خیبر پختون خوا میں اپنی حکومت قائم کرلی اور پاکستان پیپلز پارٹی کا سب سے مضبوط اتحادی رہا۔ سندھ میں دو صوبائی سیٹیں جیتنے کے بعد وہ زرداری کے اتنے قریب آگئے کہ واضح طور پر کراچی میں عوامی نیشنل پارٹی نے فیصلہ کُن کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا۔
سندھ سے دو صوبائی سیٹیں جیتنے والی پارٹی کا صوبائی صدر شاہی سید نامی بندہ ایک اَن پڑھ شخص ہے جنہوں نے 70 کی دہائی میں خیبرپختونخوا سے ہجرت کرکے کراچی میں بطور رکشہ ڈرائیور اپنے کیرئیر کا آغاز کیا۔ بالآخر اے این پی کے پلیٹ فارم پر آکر موصوف نے کراچی میں زمینوں پر قبضے، دھونس دھمکی اور ٹرانسپورٹ مافیا بنا کر اربوں روپے کے اثاثے بنا کر خود کو پارٹی کا وفادار ثابت کیا۔ آج شاہی سید کے کراچی شہر میں لاتعداد پٹرول پمپس ہیں۔ جن دو بندوں نے صوبائی سیٹیں جیتی تھیں ان کی اپنی کہانیاں بھی دلچسپ ہیں جس پر بعد میں روشنی ڈالیں گے۔
زرداری سے قربت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ عوامی نیشنل پارٹی نے سال 2008 سیلاب کے ساتھ ہی سال 2009 میں قدرتی آفات کے سرکاری ادارے پراونیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی سلطان حبیب اورکزئی نامی بندے کو پچاس کروڑ میں ایک طرح سے ٹھیکے پر دیدیا گیا۔ اور دیدہ دلیری کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ موصوف نجی محفلوں میں برملا اس بات کا اظہار کرتا رہتا تھا کہ دوبارہ کسی زلزلے اور قدرتی آفات سے میں اس سے ادارے سے دوگنا کماؤں گا۔
ان کے دور حکومت میں مردان اور چارسدہ میں کرپشن کا وہ بازار گرم کیا گیا تھا کہ لوگ برملا کہتے تھے کہ نیشلیانوں کا بس نہیں چلتا کہ لوگوں کی چمڑیاں اتار کر بیچ دیں۔ مردان اور چارسدہ کے تھانوں میں سپاہی سے لیکر ایس ایچ او لیول کی تعیناتی کی بولیاں لگتی تھیں۔ پارٹی کے مرکزی رہنماء نے زرداری کیساتھ کراچی میں براہ راست ڈیل کرکے دو آئی جیز کی تعیناتیاں کیں۔ سابق وزیراعلی ٰخیبر پختونخوا حیدر ہوتی کے والد اعظم خان ہوتی نے میجر جنرل ریٹائرڈ وصال خان طورو سے اس کے بیٹے فیاض محمد خان طورو کی بطور آئی جی خیبر پختونخوا تعیناتی کرکے نوے کروڑ کی خطیر رقم بطور رشوت لی تھی۔
اعظم خان ہوتی کی عیاشیوں کا یہ عالم تھا کہ کسی بھی خوبرو سرکاری ملازم خاتون کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ ان کے سامنے نہ آئے۔ یہ واقعہ مجھے میرے قریبی دوست نے سنایا تھا کہ ایک نوجوان خاتون یونیورسٹی پروفیسر، جو ان کی کولیگ تھی، کے چہرے پر زخم کے نشان تھے۔ میں نے پوچھا کہ یہ نشان کیسے پڑے ہیں تو معلوم ہوا کہ کل رات اعظم خان ہوتی نے ان کو گھر بلایا اور کہا کہ اگر نوکری بچانی ہے تو نوشہرہ کینٹ کے ایک بریگیڈیئر کیساتھ ایک رات سونا پڑیگا۔ انکار پر ان کا خوبصورت چہرہ ادھیڑ دیا گیا۔
اعظم ہوتی کے بارے میں مشہور تھا کہ خوبرو لڑکوں اور لڑکیوں کو من مانے مطالبات پر فوجی افسران یا بیوروکریٹس کو بطور کمیشن سپلائی کرتے تھے اور بدلے میں ان سے اپنا کام کرواتے تھے۔ سوات سیلاب اور بعد ازاں فوجی آپریشن کے بعد جو گل موصوف نے کھلائے ہیں ان کو دائرہ تحریر میں لانا بھی بذات خود ایک بے شرمی ہے۔

جاری ہے
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں