اقبال مسیح/شازیہ ضیاء

کسی بھی قوم کی ترقی اور فروغ کے لئے سب سے مضبوط اور مستحکم جز و اس قوم کے نوجوان ہوتے ہیں جو ملکی و مِلی عمارت کو پروقار ستونوں پر اٹھانے میں معمار کی سی  حیثیت رکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اقوام ِ عالم اپنی دھاک دوسری اقوام پر بٹھانے کے لیے اپنے نوجوانوں اور نونہالوں پر انحصار کرتی ہے۔ کسی بھی قوم کا   رواں لہو اور پرجہد جسد یہ نوجوان ہی ہیں جنہوں نے اپنی قوموں کی فرسودہ عمارت کو مسمار کرکے جنون جدید سے تاریخ بدل ڈالی ہے اور تحریک پاکستان اس کی زندہ مثال ہے۔

مارچ 1948ء میں ڈھاکہ میں قائداعظم محمد علی جناح نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:” میرے نوجوانوں ! میں تمہاری طرف توقع سے دیکھتا ہوں کہ تم پاکستان کے حقیقی پاسبان اور معمار ہو”۔

کیونکہ قوموں کا مستقبل نوجوانوں کی معیاری سوچ، فکر، بامقصد اور بلند جذبوں کا ہی مرہون منت ہوتا ہے اس کی روشن خیالی ہی ملک و قوم کی ترقی کی منازل کا تعین کرتی ہے، بصورت دیگر تنزلی اور پستی کا  منہ دیکھنا پڑتا ہے۔

پاکستان کی تعمیر ہمارے نوجوانوں کی علمی و عملی جدوجہد کا ثمر ہے، مگر یہ کیفیتِ فخر کیفیتِ فقر میں تبدیل تب ہوتی ہے جب ہم پاکستان میں شرح خواندگی کو مسلسل پستی میں اترتے دیکھتے ہیں۔ یہ عجیب شرمندگی کا مقام ہے کہ جو ملک علم اور عمل کی بنیاد پر کھڑا کیا گیا تھا وہ آج ناخواندگی کے ملبے تلے دبنے کے قریب ہے۔ حال ہی کی یونیسکوUNESCO کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی شرح خواندگی 58 فیصد بتائی گئی  ہے ۔ اس سے پیشتر اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں  سکول جانے والے بچوں کا کُل تناسب100 میں سے 70 فیصد ہے جس میں سے صرف 50 فیصد بچے ہی پرائمری  سکول سے مڈل  سکول کی تعلیم تک رسائی حاصل کر پاتے ہیں اور باقی پچاس فیصد گھریلو پسماندگی اور فکری خستہ حالی کے سبب سکول جانا چھوڑ دیتے ہیں۔ اس طرح کروڑوں بچے ایک دن کے لیے بھی سکول کا منہ نہیں دیکھ پاتے۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر یہ بچے سکول نہیں جاتے تو پھر یہ بچے جاتے کہاں ہیں؟

اقوام متحدہ کی ذیلی اداروں کی رپورٹ کے مطابق ان بچوں سے جبری مزدوری کروائی جاتی ہے جو نہ صرف مقامی طور پر بھی بلکہ قانونًا جرم ہے۔ ایک دوسری رپورٹ کے مطابق لاکھوں بچے اپنے گھر کا ایندھن جلانے اور پیٹ کا ایندھن بجھانے کے خاطر ایک دن کے لیے چالیس روپے تک کماتے ہیں لیکن اس سے نہ تو تعلیم حاصل کرنے کے قابل رہتے ہیں اور نہ ہی ان کے گھر کے حالات سنور پاتے ہیں اور اس طرح ان کا تمام بچپن جبری مشقت میں گزر جاتا ہے۔

یعنی 75- 70 سالوں میں بھی یہ ترقی کا خواب آنکھوں تلے ہی محدود ہے۔ وجہ یہ ہے کہ حکومتی سطح پر ہم اپنے بچوں اور نوجوانوں کو بجائے تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے کم سنی سے ہی محنت مزدوری اور تلاشِ معاش کی سرکوبی پر مجبور کر دیتے ہیں۔ ہمارے دیہاتوں میں اس جبر و ستم کی بھیانک صورت سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام کے متعلق دیکھنے کو ملتی ہے جو کمسنوں کو جسدًا اور عقلًا غلام بنا رہی ہیں۔ یا پھر   اس غلامی کی تمام زنجیروں کو توڑ کر رفعِ غلامی اور مسیح ِطفلانہ آزادی کے انقلاب کو برپا کر چکی ہیں۔

یہاں مسیح سے میری مراد اقبال مسیح ہے۔ غالب یقین یہی ہے کہ اکثر نے یہ نام پہلے کبھی نہ سنا ہوگا مگر یہ بھی شرمندگی کی بات ہے کہ جس چار سالہ بچے کے نام پر یورپ میں اعزاز تقسیم کیے جاتے ہیں، جس کے کام سے پاکستان میں بیس  سکول تعلیمی مراحل طے کر رہے ہیں اور جس کی کوشش اور جدوجہد اطالوی ناول کا حصّہ ہے اُسی سے  عموماً ناآشنا ہیں۔

اقبال مسیح کون تھا؟ 

قبال مسیح 1983 میں ضلع گوجرانوالہ کے نواحی شہر مریدکے، پنجاب میں پیدا ہوا۔ بڑے بھائی کی شادی کے لیے اقبال کے والد نے مقامی تاجر ارشد سے 600 روپے قرض لیا جو بعد میں مطلوبہ وقت استطاعت نہ ہونے کی وجہ سے چار سالہ اقبال کے لیے غلامی کا طوق ثابت ہوا۔ تتلیوں اور جگنوؤں کے تعاقب کی عمر کی جگہ چھ سال تک لگاتار 14گھنٹوں کی کارپٹ بُننے  کی محنت و مشقت نے لے لی، مگر قرض تھا کہ دائمی نوعیت کا ہوتا چلا جا رہا تھا۔ 1990 میں دس سال کی عمر میں اس اذیت سے فرار کی راہ سوجھی لیکن خدا کی امان ان کالی بھیڑوں سے جنہوں نے اقبال کو پکڑ کے اسے واپس ظالم تاجر کے دست سپرد کر دیا اور یوں یہ اذیت اقبال کے لئے عذاب بن گئی یعنی پہلے سے زیادہ مشقت۔ فطری تقاضا ہے کہ انسانی ذہن غلامی قبول نہ کرے تو وہ باغی ہو جاتا ہے۔ اور اسی بغاوت نے اقبال کے ذہن میں جگہ بنالی اور راہ فرار کی تلاش میں ایک سال بعد ہی خوش قسمتی سے وہ چائلڈ لیبر (CHILD LABOR) کے خلاف سرگرم تنظیم سے جا ملا جو اقبال کے لیے پاکستانی قانون کے مطابق نجات دہندہ بنی۔

اقبال کی کوشش فرار لاہور میں تین ہزار مغلوب اور مسکین بچوں کی جاگیر داروں سے رہائی اور آزادی میں کارگر ثابت ہوئی۔ اقبال مسیح نے دس سال کی عمر میں ( BONDED CHILD LIBRATION) کے نام سے بچوں کی آزادی کی پہلی تحریک کی بنیاد رکھی۔ یعنی اب اقبال مسیح ایک لیڈر کی حیثیت رکھتا تھا۔ کوئی بعید نہ تھی کہ تقدیر میں عمر دراز ہوتی تو دنیا ایک اور نیلسن منڈیلا اور مارٹن لوتھر کنگ کو ابھرتا پروان چڑھتا دیکھتی۔ دس سال کی عمر میں ہی سرمایہ داروں سے ٹکر لے کر ہزاروں بچوں کو رہا کرایا۔ اقبال مسیح کے کارناموں کا جب چرچا ہوا تو دنیا اس گیارہ سال کے بچے پر حیرت زدہ تھی۔ 1994 میں اقبال نے 11 سال کی عمر میں عالمی ‘ریبوک یوتھ ان ایکشن ایوارڈ’ حاصل کیا جس کے تحت سالانہ پندرہ ہزار امریکی ڈالر کی تعلیمی سکالرشپ بھی اعزاز میں پائی۔ برینڈیز یونیورسٹی نے بھی اقبال کو کالج کی عمر کو پہنچنے تک مفت تعلیم کی پیشکش کی۔ اقبال نا  صرف بہادری اور جرات بلکہ ذہانت کے لحاظ سے بھی قابل ستائش ہے جس نے اپنے عزم اور حوصلے  کے وصف کو بلند رکھتے ہوئے چار سالوں کا تعلیمی سفر دو سالوں میں بآسانی طے کرلیا جبکہ وہ قد و قامت کے لحاظ سے اپنے ہم عمروں سے نسبتًا چھوٹا دکھائی دیتا تھا۔ سویڈن اور امریکا کے سکولوں کے طالبعلم بھی اقبال سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور اقبال کے خراج میں اپنی ذاتی جیب سے فنڈ قائم کیا جس کے تحت پاکستان میں تقریبا ٍ بیس  سکول تعلیمی سرگرمیوں میں مصروف عمل ہیں۔

ابھی اقبال کی بہادری اور جرات مردی کے قصے خواص و عوام میں شہرت پا ہی رہے تھے کہ سن 1995 میں اقبال کی امریکہ سے پاکستان واپسی پر 16 اپریل کو اس ننھے معصوم کو جو   اَب بھی طفلانہ جذبات سے سرشار بے فکر اپنی سائیکل چلانے میں مشغول تھا ، درندہ صفت افراد نے بے لگام فائرنگ کر کے  اس صفہ ہستی سے تو مٹا دیا مگر وہ اس کے قابل ستائش کارنامے لوگوں کے دلوں اور تاریخ کے اوراق سے نہ مٹا سکے۔ تحقیقی اداروں کا کہنا ہے کہ یہ کام اسی تاجر نامراد کا ہے جس کی قالین گاہ سے اقبال فرار ہوا تھا ۔ یہ بھی الزام سازی کی جاتی ہے کہ اقبال کا قاتل اشرف ہیرونامی ہیروئن کا عادی مقامی شخص ہے لیکن ثابت کچھ نہ کر سکے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ جہاں دنیا قدم قدم اقبال کو خراج تحسین پیش کر رہی تھی وہاں پاکستان سے تو خیر کیا ملتا حتی کہ مقتولین کو انصاف تک نہ مل سکا۔ آج تک پاکستانی پولیس اقبال کے قاتلوں کو گرفتار کرنے سے قاصر ہے۔ یہ عالمی سطح پر پاکستان کے لئے افسوس کا مقام ہے۔

امریکی اخبار دی واشنگٹن پوسٹ اقبال کے قتل کےدو سال بعد یہ لائن لکھتے ہوئے اقبال کو خراج تحسین پیش کرتا ہے کہ:

” آپ اندازہ بھی نہیں کر سکتے کہ وہ کتنا بہادر تھا”

مقامی نوجوانوں نے ‘فری دی چلڈرن’ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی ،اسی اثناء میں ‘اقبال مسیح شہید چلڈرن فاؤنڈیشن’ کا بھی افتتاح ہوا جس کے زیر نگرانی ایسے بچوں کی تعلیمی نگہداشت کی جاتی ہے جو جبری مزدوری کرتے ہیں۔

2009 میں امریکی کانگریس نے اقبال کے اعزاز میں سالانہ اقبال مسیح ایوارڈ کا آغاز کیا۔ دنیا بھر میں بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں اور افراد میں ہر سال کسی ایک کو یہ ایوارڈ دیا جاتا ہے۔

بھارتی شہری کیلاش ستیارتھی نے بھی 2014 میں نوبل امن انعام وصول کرتے ہوئے اپنی تقریر میں اقبال مسیح کو خراج تحسین پیش کیا۔ اقبال مسیح کے قتل کے تین برس گزر جانے کے بعد اٹلی کے شہر مونزہ کے ایک پرائمری  سکول کے اساتذہ اور طالب علموں کے باہمی مشورے سے  سکول کو ایلیمنٹری کا درجہ دیتے ہوئے اقبال مسیح کے نام سے منسوب کیا گیا۔ اسی سکول کے طالب علموں نے ایک رسالہ نکالا جس میں اقبال کی تصاویر کے ساتھ ایک خط بھی تحریر کیا جو کچھ یوں تھا،

پیارے اقبال!

“ہم نے تمہاری دکھ بھری کہانی سنی اور اب ہم یہ جان گئے کہ تم ایک بہادر بچے تھے تم سارے بچوں کے حقوق کے لئے لڑے لیکن بد قسمت بھی تھے۔ ہم تمہیں یاد رکھنے کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں ہم اپنے سکول کو تمہارا نام دینا چاہتے ہیں ہم تم سے وعدہ کرتے ہیں کہ تمہارا یہ سکول ہر ایک کیلئے امن اور انصاف کا گہوارہ ہوگا”۔

صرف مونزہ کا یہی  سکول نہیں بلکہ اس کے بعد اٹلی کے متعدد  سکول اقبال مسیح کے نام سے منسوب ہیں لیکن مونزہ کے ایلیمنٹری  سکول کی خاصیت صرف اقبال کے نام سے منسوب ہونا نہیں ہے بلکہ اس اسکول کی شناخت بھی اقبال سے منسوب ہے جو اس  سکول کے طالب علموں کے لئے ایک موثر کن تصور یا نظریہ ہے۔

اقبال مسیح کی مختصر مگر دلیرانہ زندگی پر اطالوی مصنف فرانسسکو دی اڈامو (Francesco D’Adamo) نے افسانوی طرز کا  لیکن اقبال کی حقیقت سے مشابہہ  ناول لکھا ہے جس کا نام ہی “اقبال” ہے ۔ اس ناول میں مصنف نے ایک فاطمہ نامی بچی کے ساتھ اقبال کا رازدارانہ مکالمہ لکھا ہے جس میں اقبال کہتا ہے:

تم ایک راز رکھ سکتی ہوں فاطمہ؟ اقبال نے آہستہ سے کہا

کیوں نہیں ؟ تم نے مجھے کیا سمجھ رکھا ہے؟ فاطمہ بولی

تو پھر تم یہ جان لو کہ ہم ایک دن آزاد ہوجائیں گے۔ یقین کرلو،

لیکن کیسے اقبال؟ تم ہی نے تو کہا تھا کہ قرض پورا اتارنا ناممکن ہے۔

وہ تو ہے ، لیکن ہم قرض اتار کر نہیں آزاد ہوں گے’۔

پھر؟

ہم یہاں سے بھاگ جائیں گے!

تم پاگل ہو!

اس کے بعد فاطمہ کہتی ہے:

” ہم سب بچے اپنے بچپن کے دنوں میں ہی سب کچھ بھولتے جا رہے تھے اور ہمارے ذہنوں میں قالین بنانے کے سوا کچھ باقی نہ رہا تھا کہ چار سالہ اقبال ہماری زندگی میں شامل ہوا اور پھر سب کچھ بدل گیا”۔

این لیوری نے اس ناول کا انگریزی زبان میں ترجمہ کیا ہے۔

اطالوی فرانسیسی فلم پروڈکشن نے یونیسیف کے تعاون سے 2015 میں اسی کتاب کے کردار اور کہانی پر مبنی ایک اینی میشن فلم “اقبال ایک نڈر بچے کی کہانی” کے نام سے بنائی جس کو اٹلی کے ریاستی ٹی وی چینل نے ملکی سطح پر نشر کیا۔ اس اینی میٹڈ فلم کی دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے اختتام پر اقبال کو حقیقی زندگی کی طرح مرنے نہیں دیا گیا بلکہ اقبال کو بچوں کے لیے ایک ہیرو کے کردار میں زندہ رکھا ہے۔ اقبال کی آزادی کے لیے جدوجہد اور جواں مردی پر برطانوی مصنف Andrew Crofts نے بھی “The Little Hero” کے نام سے کتاب تصنیف کی ہے جو 2006 میں شائع ہو چکی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آج بھی پاکستان میں ہزاروں نہیں لاکھوں بچے جبری مشقت کرنے پر مجبور ہیں۔ وہ پڑھنا چاہتے ہیں لیکن گھریلو پسماندگی، وڈیرانہ ، جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام ان کے بچپن اور مستقبل کے بیج آڑے آتے ہیں جس کے سبب وہ محرومی اور مشقت کی دھوپ تلے جینے پر مجبور ہیں۔ اس ظالمانہ نظام کا خاتمہ اگرچہ اتنا آسان نہیں ہے لیکن نہ صرف حکومتی سطح پر بلکہ فردی سطح پر بھی ہم پر یہ ذمہ داری ملازم ہوتی ہے کہ ہم اپنے اطراف میں ایسے بچوں کا خیال رکھیں جو تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں اور ان کے لیے آواز اٹھائیں جو جبری مشقت پر مجبور ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply