شاعر “مقبول شہزاد ” سےملاقات/ڈاکٹرشاہد ایم شاہد

ملنساری ایک فطری جذبہ ہے اور اس سے بڑھ کر ہم آہنگی، جب ان کا ملاپ ہوتا ہے تو بہت سی باتوں سے پردہ اٹھتا ہے۔ اس بات کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ  ایک دوسرے کو جاننے، سمجھنے اور پرکھنے کا موقع ملتا ہے۔ بہت سی خوبیوں اور کامیابیوں کا پتہ چلتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تخلیقی، تحقیقی اور تنقیدی جوہر بھی سامنے آتے ہیں۔بلاشبہ ماضی، حال اور مستقبل کی باتیں اور یادیں گفتگو کو دلچسپ بناتی ہیں۔کیونکہ انسانی زندگی کا مدار انہی زمانوں میں گردش کرتا ہے۔انہی میں تاریخ ، کردار اور تخلیق کی آبیاری ہوتی ہے۔جو اس کی شخصیت کا آئینہ بن کر سامنے آتی ہے۔انسان کبھی بھی باتوں سے بڑا نہیں ہوتا بلکہ اپنے کام اور فن کی بدولت عزت و توقیر پاتا ہے۔بِنا   محنت اور خداداد صلاحیت کے آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔

یہ بات سب سے بڑھ کر خوش آئند ہوتی ہے جب کوئی نام اپنی شخصیت کا ترجمان بن کر نیک نامی میں اضافہ کرے۔بلاشبہ نام پہچان اور کردار کا خوبصورت تحفہ ہے جس کا تبادلہ باتوں باتوں میں ہو جاتا ہے۔میری مراد جناب مقبول شہزاد سے ہے جن سے تقریبا ًایک سال پہلے ٹیلیفونک رابطہ ہوا جس میں انہوں نے ملنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔

خیر خدا خدا کر کے وہ وقت آگیا۔وہ جولائی کے آخری ہفتے واہ کینٹ تشریف لائے۔ یہ ملاقات تقریبا  ً دو گھنٹے جاری رہی۔بڑی گرم جوشی سے ملے اور استقبال کیا۔چہرے پہ مسکراہٹ اور دِلی محبت جذبات کے جوش میں سامنے آئی۔ ملنساری کے جذبے نے اپنا تعارف خود کروایا۔رسمی دعا سلام کے بعد گفتگو شروع ہوئی۔بات سے بات نکلتی گئی۔یہ میری پہلی ملاقات تھی جس میں انہوں نے اپنا تعارف ، شجرہ نسب ، زندگی کے اتار چڑھاؤ ، فنی اور خاندانی زندگی ، اصناف ادب سے لگاؤ پر باہمی دلچسپی کا اظہار کیا۔میں نے خاموشی کا روزہ رکھ کر بڑی دلچسپی سے ان کی گفتگو سنی جو دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ سنسنی خیز بھی تھی۔مجھے گفتگو کے دوران بہت سی باتوں کا علم ہُوا، خاص طور پر واہ کینٹ میں ان کی آب بیتی زندگی کے واقعات سن کر اور زیادہ دلچسپی پیدا ہو گئی۔

بنیادی طور پر وہ دیہی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔ان کا آبائی گاؤں چک نمبر 270 ٹی ڈی اے لیہ ہے۔زندگی آسان اور منظم بنانے کے لیے انہوں نے گوجرانوالہ ٹیکنیکل کالج سے الیکٹریکل میں ڈپلومہ پاس کیا۔ پھر روز گار اور مستقبل نے اپنی آڑ میں لے لیا ،جس کا نتیجہ خاندانی کفالت کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ یہ روز اوّل کی روایت ہے جو تاحال چلی آ رہی ہے۔پھر زندگی نشیب و فراز میں گزری۔ادب شناس اور ادب نواز دوست ہونے کے ناطے گفتگو کی روایت ادب کی ترجمان تھی جس کا آغاز اور اختتام ایک لڑی کی طرح تھا۔ان کی طبیعت میں بہت سے سوالات تھے شاید میں وقت کی کمی کے باعث کرید نہ سکا ۔لیکن اس کے باوجود بھی گفتگو میں بہت سی باتوں کا حاصل مل جاتا ہے جو پھول بن کر اپنی خوشبو کا احساس دیتا ہے۔ان کا شعر و ادب سے کئی عشروں سے تعلق ہے۔البتہ ان کی اصل اور کھری پہچان شاعری ہے۔انھوں نے جن شعرا ء کو پڑھا اور ان سے متاثر ہیں ان کی زبانی چند نام جو میری سماعت سے ٹکرائے۔ان چند بڑے ناموں میں سلطان باہو ، میاں محمد بلھے شاہ ، مرزا اسد اللہ غالب ، اکبر الہ آبادی ، الطاف حسین حالی ، ساغر صدیقی ، ڈاکٹر صغری صدف ، میر تقی میر ، قتیل شفائی اور امجد اسلام امجد ہیں۔ انہوں نے فارسی ،اردو ،پنجابی، انگریزی زبان کو پڑھا اور لکھا ہے۔
البتہ تخلیقی میدان میں اردو اور پنجابی سرفہرست ہیں جنہوں نے ان کی پہچان اور شہرت میں اضافہ کیا ہے۔

جناب مقبول شہزاد صاحب شاعری سے بے پناہ محبت رکھتے ہیں۔مقامی حلقوں سے قومی سطح تک تعلقات تو روابط کا خوب حدوداربعہ رکھتے ہیں۔وہ کئی کتابوں کے خالق ہیں۔ان کے مجموعہ کلام اردو اور پنجابی زبان میں لکھے گئے ہیں۔ان کی شائع شدہ کتب مندرجہ ذیل ہیں۔
١۔ مجھے خاموش رہنے دو ٢٠٠٨
٢۔ آج دی شام ٢٠١٨
٣۔ مقدس گیت ( اردو پنجابی ) ٢٠٢٢
۴۔ مجھے اب بولنا ہوگا ٢٠٢٢

ان کی شاعری پر ایم اے لیہ ڈگری کالج پنجاب یونیورسٹی میں ایک تھیسس بھی لکھا جاچکا ہے۔انہیں کئی ایوارڈز سے نوازا گیا ہے۔جن تنظیموں اور اداروں نے انہیں ایوارڈدیے ان کی تفصیل کچھ یوں ہے۔بیکن لائٹ کالج لیہ ایوارڈ ، لطیف فتح پوری ایوارڈ ، گورنمنٹ ڈگری کالج ایوارڈ ، انٹرنیشنل رائٹرز فورم آف پاکستان ایوارڈ ، آرٹ کونسل راولپنڈی ایوارڈ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں جناب مقبول شہزاد صاحب کو ایک شاعر، اچھا دوست اور اچھا انسان ہوتے ہوئے دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔دعا گو ہوں خدا ان کے قلم کو اسی طرح ادب کی خدمت کے لیے متحرک رکھے۔خدائے عزوجل ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو جلا بخشے۔وہ اپنی شاعری کے ذریعے اپنے جذبات اور نظریات سے لوگوں کو آگاہ کرتے رہیں۔یہ بات ہم سب کو یاد رکھنی چاہیے کہ فن فنکار تو مر سکتا ہے لیکن اس کا فن ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔وہ صدیوں تک لائبریریوں اور لوگوں کے دلوں پر راج کرتا ہے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
مصنف/ کتب : ١۔ بکھرے خواب اجلے موتی 2019 ( ادبی مضامین ) ٢۔ آؤ زندگی بچائیں 2020 ( پچیس عالمی طبی ایام کی مناسبت سے ) اخبار و رسائل سے وابستگی : روزنامہ آفتاب کوئٹہ / اسلام آباد ، ماہنامہ معالج کراچی ، ماہنامہ نیا تادیب لاہور ، ہم سب ویب سائٹ ، روزنامہ جنگ( سنڈے میگزین ) ادبی دلچسپی : کالم نویسی ، مضمون نگاری (طبی اور ادبی) اختصار یہ نویسی ، تبصرہ نگاری ،فن شخصیت نگاری ، تجربہ : 2008 تا حال زیر طبع کتب : ابر گوہر ، گوہر افشاں ، بوند سے بحر ، کینسر سے بچیں ، پھلوں کی افادیت

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply