کرتوت/حصّہ اوّل-عارف خٹک

جناب سامنا کرنا سیکھے!

میرا مدعا ہر گز یہ نہیں ہے کہ میں تاریخ کے اوراق میں اپنا آپ ڈھونڈوں بلکہ میں جس ٹاپک کی طرف لیکر جارہا ہوں اس کو سمجھنے کیلئے آپ کو یہ جزئیات ذہن میں رکھنی ہوں گی۔

اس مضمون میں کوئی ذاتی عناد شامل نہیں ہے مگر آجکل اس سیاسی جماعت کے سربراہان جس بے شرمی اور ڈھٹائی سے جھوٹ بول کر ایک دفعہ پھر سرگرم عمل ہونیوالے ہیں ان کے کچھ ڈاکیومنٹڈ کرتوت آپ کو بتاتا ہوں تاکہ یا تو اپنی ماضی کی غلطیوں سے یہ سبق سیکھ کر حقائق کا سامنا کرنا  سیکھیں یا ہم اپنے حافظے کا امتحان لیتے ہیں کہ شاید ہمیں اگر کچھ یاد نہ ہو تو اے این پی کا کوئی ذمہ دار آکر ہماری تصحیح کرسکے

ہر قوم کی ایک مجموعی نفسیات ہوتی ہے۔ اس نفسیات کو ہم اس قوم کے اجتماعی اخلاق و کردار، خصلت اور جبلت کے زیر اثر پاتے ہیں۔ جیسے سندھ کے لوگ فطرتاً شرمیلے اور دھیمے مزاج کے حامل ہوتے ہیں اور جلدی محکوم ہوجاتے ہیں۔ پنجاب کے لوگ ذات پات میں بٹے ہوئے لوگ ہیں اور برداری ازم آج بھی کہیں نا  کہیں موجود ہے۔ اس طرح ہمارے پشتون فطرتاً گرم مزاج اور خول میں بند رہنے والی قوم تصور کیجاتی ہے۔ ہمارے پشتونوں میں پشتون ولی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ مذہبی عقائد سے زیادہ پشتون ولی کا پالن کیا جاتا ہے۔ آج بھی مذہبی نظریات و عقائد میں پشتون ولی کو اول درجہ حاصل ہے۔

پشتونوں کے بارے میں معتبر مورخ خان روشن خان اس بات پر متفق ہے کہ قبل از مسیح دور میں بخت نصر کے حملے اور اسیری بابل کے بعد یہودی قبائل منتشر ہوئے اور ایک قبیلہ افغانستان کے پہاڑوں میں جا گھسا۔ جدید مورخین اور اسرائیل میں قائم یہودی قبائل پر ریسرچ کونیوالے ادارے بھی اس بات پر متفق ہیں کہ پشتون بنیادی طور پر یہودی النسل ہے۔ تحفظ اور کمزور دفاع کی جبلی کیفیت میں جب یہی قبیلہ افغانستان وارد ہوا تو اس وقت افغانستان پر زرتشت، ہندو اور بدھا کی عملداری تھی اور انہی عقائد و نظریات کے زیر اثر افغانستان میں ان کیلئے اپنے وجود کو برقرار رکھنا کافی مشکل ثابت ہوا۔ لہذا ایک گروہ کی  شکل میں یہ قبیلہ اپنی بقا کی لڑائی لڑتا رہا۔ جب تک عرب اسلام اس خطے میں داخل ہوا تو سب سے پہلے یہی قبیلہ مشرف بہ اسلام ہوا کیونکہ ان کے عقائد کے مطابق مسلمان بھی ایک معبود کو ماننے والے تھے اور مسلمان ان کے  ابراہیمی مذہب کے بھائی ہیں۔

پشتون فطرتاً کسی اور پر بھروسہ نہیں کرتے اور اپنے کزن نسل یہودیوں کی طرح سب سے الگ تھلگ رہنے پر یقین رکھتے ہیں حتی کہ اپنے کزنز کی طرح اپنے خون میں ملاوٹ بھی پسند نہیں کرتے۔ اس لئے اپنی برادری سے باہر شادی کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یہ قوم ہمشہ ایک ہجوم کی شکل میں رہنا پسند کرتی ہے۔ احساس برتری سے معمور یہ قبیلہ انتہاء پسندی کی حد تک ماضی پرست اور خودسر ہے۔

پشتون قبیلے کی اس نفسیات کو خوشحال خان خٹک نے خوب استعمال کیا۔ مغلوں کا صوبیدار جو راہداری ٹیکس لینے پر معمور تھا۔ انھوں نے قبیلے کی سربراہی سنبھالی تو سب سے پہلے باپ دادا کی روایات کے تحت یوسفزئی پشتونوں کیساتھ دشمنی کو دوام بخشا اور لاتعداد پشتونوں کو تیغ و بالا کردیا۔ پھر مغلوں کیساتھ لڑائی بھی شروع کردی۔ جب خوشحال خان خٹک کا اپنا قبیلہ بابا کی بے جا دُشمنیوں سے عاجز آجکا تو بابا کو ایک نئی راہ سوجھی۔ انہوں نے پشتون ولی کا نعرہ بلند کرکے پشتون کو مخاطب کیا
“دہ افغان پہ ننگ مے وتڑلہ تورہ
ننگیالے دہ زمانے خوشحال خٹک یم”۔
خوشحال خان خٹک کو اس قوم کی نفسیات کا بخوبی پتہ تھا اور پشتونوں نے یک زبان ہوکر خوشحال بابا کو اپنا رہنماء چنا اور کسی نے ان سے یہ پوچھنے کی ضرورت تک محسوس نہیں کی کہ آپ نے ہزاروں بیگناہ یوسفزئیوں کا خون کیوں بہایا؟

جدید قوم پرستی کا بُت بالآخر آج کی  قوم پرست سیاسی جماعتوں تک ہی  محدود  نہیں،آج بھی یہ زہریلا سانپ پشتونوں کے اندر پل رہا ہے۔ جذباتیت میں اندھے احساس برتری سے سرشار یہ نوجوان آج بھی معاشرے میں اتنے اکیلے ہیں جتنا صدیوں پہلے ان کے ابا واردات میں  اکیلے رہے ہیں۔ حالانکہ دنیا اس وقت خلاؤں میں تحقیقات کررہی ہے، اور آج بھی ہمارا نوجوان نشے میں لت پت جھوٹے  پشتون ولی کا  پالن کرکے خوش ہورہا ہے۔ ہمارے  خودساختہ پشتون ولی جن کا غلط ترجمہ کرکے ہماری نسل کو بے جا بھڑکایا جارہا ہے دراصل وہ پشتون ولی ہے ہی  نہیں، پشتون ولی ایک جذبے کا نام ہے، ایثار کا نام ہے تدبر کا نام ہے۔ پشتون ولی کی  خصوصیات بہت ساری  ہیں:

مہمان نوازی، ایثار، جفاکشی، عزت نفس، ہمدردی، ننگ،دوسروں کا احترام۔۔

اس  سب کے بغیر پشتون ولی کا تصور بھی محال ہے مگر آج پشتون ولی جو بھی ہے آپ کے سامنے ہے۔ پشتون روایات میں آپ کو ظلم، جبر  ڈھونڈنے سے نہیں ملتا ۔ پشتون ولی کے یہ اصول بننے میں صدیاں لگی  ہیں مگر جدیدیت اور نفسا نفسی میں کسی انفرادی پشتون نے یہ جرائم بہت کم کیے ہوں گے۔ روایتی خان ازم کے پیروکار یا بعد از انگریز پشتونوں کے خصوصی مصاحبین نے پشتون معاشرے میں پشتون ولی کی شکل ہی بدل ڈالی۔ جس میں سب سے بڑا تڑکا مذہبی شکل میں لگا کر معاشرے کو عین اسلامی بنانے کا نظریہ بھی یہیں  سے پنپنا شروع ہوا۔

انہی سازشی نظریات کے تحت ہمارے پڑھے لکھے پشتون نوجوانوں کو “خودترسی” کی جس بیماری میں ان قوم پرستوں نے مبتلا کیا ہے وہ اپنی جگہ ایک اٹل حقیقت ہے۔ جس میں بے جا نفرت، دلائل سے فرار اور خودساختہ معاشرتی سرحدوں نے ایک ایسی گھمبیر صورتحال پیدا کی ہے جس کا احاطہ کرنے کیلئے بھی سینکڑوں کتب ناکافی ہوں گی۔

نائن الیون کے بعد ایک بین الاقوامی خودساختہ دہشت گردی کے خلاف جنگ نے جہاں پوری دنیا کو متاثر کیا۔ وہاں ہمارے خطے کو براہ راست نشانہ بنایا گیا۔ اس وقت پاکستان پر قابض ایک فوجی جنرل کی مدد سے جس طرح امریکی خونریز جنگ اس خطے میں لڑی وہ بھی تاریک تاریخ کا پاکستان کے اشرافیہ بالخصوص پشتون سیاست دانوں کے کردار پر ایک بدنما داغ ہے۔

نائن الیون کے بعد کی  جنگ میں جہاں پاکستانی فوج نے خود کو کارپوریٹ فوجیوں کی طرح   متعارف کرایا وہاں سیاسی جماعتوں بالخصوص پشتون قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی نے امریکی فنڈ کی مد میں فوج کیساتھ مل کر جی بھر کر لوٹا۔ کہا جاتا ہے کہ افراسیاب نے عوامی نیشنل پارٹی کی مرکزی قیادت کو امریکہ کے قریب کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ جنوبی پشتون خواہ کے سیاسی جماعت میپ نے اپنا پلڑا افغان روشن خیال طبقے کے ترازو میں ڈال دیا اور خود کو افغانستان کے اندرونی حلقے میں ایک مضبوط حلیف کے طور پر متعارف کرایا۔ یہ اٹل حقیقت ہے کہ اس جنگ میں سب سے زیادہ نقصان پشتون قبیلے کا ہُوا۔ افغانستان کے پشتون کو تو براہ راست امریکی و یورپی سول این جی اوز کی مداخلت کیوجہ سے کاروبار کے مواقع میسر ہوئے مگر بدقسمتی سے ہماری  قبائلی پٹی بیس سالوں سے جلتی رہی مگر کسی بھی مذہبی اور سیاسی جماعت کو توفیق نہیں ہوئی کہ بین الاقوامی فورم پر پشتونوں کیلئے موثر پلیٹ فارم بنا کر دنیا کے سامنے ان کا مقدمہ رکھیں۔ اس دوران اے این پی نے اپنے لوگوں کو جلال آباد قونصلیٹ میں بیٹھا کر جس طرح کھلے عام رشوت کا بازار گرم کیے رکھا ،اس کا میں خود گواہ ہوں۔ اس وقت کے گورنر ننگرہار نے اپنی مدد آپ کے تحت بابائے قوم باچا خان کے  مزار کی تزئین و آرائش کی مگر ان کے پوتوں کو توفیق نصیب نہ ہوئی کہ اس تقریب میں شرکت کرتے مگر جنوبی پشتون خواہ کے محمود خان اچکزئی نے  رات کا سفر طے کرکے جلال آباد پہنچ کر بابا کے مزار پر حاضری دی۔ گورنر گل آغا شیرزئی کی یہ بات مجھے آج بھی یاد ہے کہ بابا کا نظریہ جلال آباد میں باچا خان کیساتھ ہی دفن ہوگیا ہے۔

مذہبی اور خودساختہ قوم پرستوں کے کھوکھلے نعروں سے پشتونوں کی نئی نسل ان سیاسی جماعتوں سے بد ظن ہوتی گئی اور بالآخر کراچی میں راؤ انوار جیسے پولیس اہلکار جن کو باقاعدہ پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کی مدد حاصل تھی، نے ایک ماڈل نما قبائلی نوجوان کا ماورائے عدالت قتل کرکے پشتونوں کا صبر سے لبریز پیمانہ چھلکانے میں مدد دی اور نوجوان ملک گیر احتجاج کا آغاز کرکے ایک نوجوان منظور پشتین کی قیادت میں پورے پاکستان میں پھیل گئے۔یہ پشتون نسل کا روایتی قوم پرستوں کے خلاف پہلا مظاہرہ تھا۔ بالآخر اس نوجوان منظور پشتین کی پشتون نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خائف اداروں، خفیہ ایجنسی بالخصوص اے این پی نے اس تحریک کو سبوتاژ کرنے کا جو کارنامہ انجام دیا ہے وہ میری کتاب “سرحد کے اس پار” میں تفصیلی جزئیات کیساتھ درج ہے۔

سال 2008 میں جب اسفندیار  امریکہ کا دورہ کرکے امریکی فوجی اہلکاروں کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگئے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں ان کا مضبوط سیاسی اتحادی ہے۔ تو امریکیوں نے ان کو گڈ لسٹ میں ڈال دیا۔ یاد رہے یہ اسفندیار ولی کا دوسرا امریکی دورہ تھا۔

سب کو معلوم ہے کہ نائن الیون کے بعد افراسیاب خٹک وہ واحد شخصیت تھے جنہوں نے عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماؤں کو امریکیوں سے متعارف کروایا اور اس کے بعد عوامی نیشنل پارٹی کے موجودہ رہنماؤں کو پیسے کی اہمیت کا اندازہ ہوگیا۔ اس سے پہلے بھی عوامی نیشنل پارٹی صوبہ سرحد میں برسر اقتدار آئی تھی مگر افغانستان میں اس وقت جاری خانہ جنگی کیوجہ سے وہ کوئی خاص فائدہ نہیں اٹھا سکے۔ اب کا افغانستان ان کیلئے ایک بلینک چیک تھا جس کو کیش کرنا ان کیلئے چنداں مشکل نہیں تھا۔ پارٹی کے مرکزی سربراہوں کے اندھے لالچ میں کافی سارے پشتون نوجوانوں کو ہدفی کاروائیوں میں ہلاک کردیا اور کراچی میں کسی پشتون رکشہ ڈرائیور کی گولیوں سے چھلنی لاش نے اس پارٹی کی سیاسی ووٹ بنک میں بے تحاشا اضافہ کیا۔

باچا خان کے نام پر بنی ہوئی اس پارٹی میں باچا خان بابا کا کوئی کردار نہیں تھا یہ سیاسی جماعت ان کے بیٹے ولی خان بابا اور بہو نسیم ولی خان کی اپنی کوششیں تھیں۔ باچا خان خدائی خدمتگار کے سرکردہ رہنما تھے اور مکمل طور  پر غیر سیاسی تھے۔ باچا خان کے نظریات پشتونوں کیلئے مشعل راہ ہیں حتی کہ ہم ولی خان بابا پر بھی انگلی اٹھانے کی جرات نہیں کرسکتے کیونکہ وہ ایک سیاسی استاد کیساتھ ساتھ پشتون سیاست کے سرخیل بھی تھے جنہوں نے  پاکستان میں جمہوریت کیلئے لازوال قربانیاں دیں۔ ہمیں عوامی نیشنل پارٹی کو سمجھنے کیلئے تھوڑا سا پیچھے جانا پڑیگا مگر مضمون کی طوالت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم عوامی نیشنل پارٹی کے چیدہ چیدہ کارناموں پر توجہ مرکوز رکھیں گے تاکہ موجودہ حالات کا تجزیہ کرنے میں ہمیں آسانی ہو۔

کہتے ہیں کہ پاکستان میں جس سیاسی پارٹی میں جہانگیر ترین، پرویز خٹک، آصف علی زرداری، اسحاق ڈار اور اعظم ہوتی جیسے کردار نہ ہوں، وہ پارٹی بھوکوں مرتی ہے،سو اے این پی کو اعظم ہوتی کی شکل میں یہ کردار ملا۔ جنہوں نے سال 2007سے لیکر  2011تک کرپشن کے وہ ریکارڈ بنا ڈالے کہ آج بھی مردان میں ان کا نام “ایزی لوڈ بابا” کے نام سے مشہور ہے۔ بات اتنی سادہ بھی نہیں تھی کہ اعظم ہوتی نے صرف کرپشن کی ہے بلکہ اس کو سایہ بنا کر جو کارنامے ان کے مرکزی رہنماؤں نے کئے وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ کراچی میں پہلی بار پشتون سیاست میں ایم کیو ایم کے مقابلے میں ایک دیہاڑی دار مزدور پشتون کو کھڑا کردیا گیا۔ سندھ کے صوبائی صدر کیساتھ اسفندیار کی رشتہ داری نے سندھ بالخصوص کراچی اور حیدرآباد میں خونریزی کا وہ باب تحریر کیا جو شاید ستر کی دہائی میں “پختون زلمی” بھی تحریر نہ کرسکے تھے۔ کراچی میں اے این پی نے باقاعدہ ایم کیو ایم کی طرز پر باقاعدہ ٹارچر سیل قائم کئے اور نوجوان نسل کو لسانیت،جذباتیت اور طبقاتی نظام کا زہریلہ انجکشن لگا کر ایم کیو ایم کے خلاف میدان میں اتار دیا گیا۔ جہاں 15سال سے لیکر 25 سال تک کے منشیات کے عادی جذباتی نوجوانوں نے اسلحہ تھام شہر بھر میں منظم بھتہ خوری کو رواج دیا، اور بھتہ نہ دینے کی صورت میں پشتونوں کے ہی گھروں کو بم سے اڑانا اور قتل کرنا گویا معمول بن گیا۔ نتیجتاً پشتون علاقوں میں مقیم غیر پشتونوں نے اپنی جائیدادیں اونے پونے بیچ کر جان بچائی یا زبردستی ان کی  املاک پر قبضے کیے گئے۔ بعد میں یہ جائیدادیں کراچی میں موجود پاکستانی ایجنسیوں کے پروردہ افغان وار لارڈز کو بھاری قیمتوں پر بیچی گئیں۔

خیبر پختون خوا میں چونکہ حالات مختلف تھے اس لیے  وہ یہاں بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ جیسے واقعات تو نہیں کرسکے کیونکہ ان کے مضبوط نظریاتی حریف پاکستان تحریک طا ل بان کی پوزیشن مضبوط تھی سو ان کے رہنماؤں نے فوجی اور امریکیوں کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر کرپشن کا وہ بازار گرم کرکے رکھا جو تاریخ کا بدترین دور کہلاتا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حامی اور روشن خیالی کے تصور نے امریکہ اور پاکستانی فوج کو اپنی آنکھیں بند کرنے پر مجبور کردیا کہ قبائلی علاقوں میں جاری آپریشن میں اے این پی کی حکومت ان کی اتحادی تھی اور زیادہ تر وہ فوج کے ترجمان بن کر بات کرتے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply