نیلم ایک افسانوی اور رومانوی وادی۔۔عبدالکریم

اسلام آباد کی فضا سے مون سون کے بادل چھٹ چکے تھے ۔ سڑکوں پر ٹریفک رواں دواں تھی ۔ سورج کی کرنیں تیز پڑ رہی تھیں۔ کہیں کہیں سڑک پر سراب ہماری آنکھوں کوخیرہ کردیتا۔ یہ منظر ہمارے قریب پہنچنے پر  نظروں سے اوجھل ہوجاتا۔ ہماری منزل اڑنگ کیل وادی نیلم آزاد جموں و کشمیر کا ایک چھوٹا سا مگر دلفریب گاؤں تھا۔

ہم نے اسلام آباد سے سفر کا آغاز صبح ۱۲بجے کیا اور تین گھنٹے کی مسلسل مسافت کے بعد ہم دن کے تین بجے آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد پہنچے۔

مظفرآباد میں ہمیں  موبائل کیلئے ایک مخصوص سم کارڈ لینا پڑا جو کہ صرف آزاد کشمیرکی  حدود میں کام کرتا ہے۔ اور ملک کے دیگر موبائل نیٹ ورک کچھ مخصوص علاقوں کے علاوہ کشمیر میں اس کا نیٹ ورک نہیں ہوتا۔ اس لیے اپنوں سے جُڑے رہنے کیلئے اپنے ساتھ کشمیر کا یہ مخصوص سم کارڈ  اپنے ساتھ رکھنا لازمی ہوتا ہے۔

مری سے نکلنے کے بعد دریائے نیلم نے بھی ہمارا ساتھ غرور کے ساتھ دیا ۔ بل کھاتی سڑک کے کنارے رواں دریائے نیلم کی حفاظت کیلئےبلند قامت کائل کے لاکھوں درخت بھی صدیوں سے سینہ تان کر کھڑے ہیں۔ اس کے ساتھ وادی نیلم کے بلند وبالا سرسبزپہاڑوں کے سینے کو چاک کرکے جھرنوں کے نیلگوں پانی بھی دریائے نیلم سے کچھ اس اپنائیت سے بغل گیر ہوتے  نظر آتے جیسے کوئی مسافر سالوں بعد گھر پہنچنے کے بعد اپنی ماں سے فرط محبت سے گلے ملتا ہے۔

آبشار اور دریائے نیلم کے ملاپ کا یہ منظر آنکھوں کو خیرہ کردینے والا تھا۔ ان مناظر کو دیکھ کر انسان سوچتا ہے کہ زندگی کچھ پل کیلئے رک جائے اور وہ ملاپ کے خوبصورت مناظر کو بس دیکھتا ہی رہے۔

تقریبا ً۶۴ کلومیٹر کی مسافت مظفرآباد شہر سے طے کرنے کے بعد ہم ضلع نیلم کی حدود میں داخل ہوئے ۔ داخل ہونے سے پہلے ہمیں چیک پوسٹ پر روکا گیا۔ یہاں پر داخل ہونے کیلئے انٹری کرنی ہوتی  ہے۔ دوسری جانب چیک پوسٹ پر موجود کشمیر کی  سیاحتی پولیس نے حال احوال پوچھا اور پھر ہدایات دیں کہ اگر کوئی بھی مشکل ہو،یہاں تک کہ اگر کسی نے ہراساں کرنے کی بھی کوشش کی توآپ لوگوں نے ہمیں بروقت اطلاع دینی ہے۔ تاکہ ہمارے اہلکار جلد ہی موقع پر پہنچ جائیں ۔اس کیلئے انہوں نے ہمیں اپنا نمبر لکھنے کو کہا، نمبرلکھنے کے بعد مسافر اپنی منزل کی جانب چل دیے۔

اس وقت سورج اپنے دن بھر کی تھکان سمیٹ کروادی نیلم کے پہاڑوں کی اوٹ میں ایسے  چُھپ رہا تھا۔ جیسے ایک شریر بچہ باپ کی ڈانٹ سے بچنے کے لیے ماں کے آنچل میں چھپنے کی کوشش کرے۔ کچھ دیربعد ہی ہم چلہانہ پہنچ گئے۔ چلہانہ میں سورج اپنی افقی لکیر پر چل کر مکمل طور پرفنا ہونے کے قریب تھا ۔ شام کے دھندلکے کی سیاہی نیلم کے نیلگوں پانی پر اپنی  چادر پھیلا رہی تھی۔ کائل ، درے وا اور بند کوڑ کے درخت اور سڑک کے کنارے گھاس دریائے نیلم کے پانی کے بہاؤ سے پیدا ہونے والی مسحورکن موسیقی کی مدہم آواز پر دائرے میں ناچ رہی تھی۔ دریا کے دوسرے کنارے ہندوستانی پرچم کے نیچے میدان میں بچے جو کہ ایک سکول کی چار دیواری لگ رہی تھی میں کرکٹ کھیل رہے تھے۔

کچھ کشمیری دوشیزائیں برتنوں میں اسی میدان سے متصل ایک نلکے سے پانی بھر رہی تھیں۔ جس مقام پر کھڑے ہوکر ہم یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ یہاں کا منظر بھی کچھ مختلف نہیں تھا۔ کچھ خواتین پانی کے برتن اٹھائے پانی بھرنے کے لیے قریبی پہاڑ سے بہنے والے شفاف پانی کا رخ کررہی تھیں۔

چند بزرگ خواتین اسی پہاڑ میں خشک لکڑیاں چن رہی تھیں۔ اس دوران دو بچے ہمارے قریب آ کر رکے میں نے معصومانہ سوال ان بچوں سے پوچھا کہ ہم ہندوستان جانا چاہتے ہیں کس راستے سے جائیں۔

دونوں بچوں نے یک زبان ہوکر کہا آپ نہیں جاسکتے ، میں نے کہا کیوں ؟۔ ایک بچہ گویا ہوا کہ کیونکہ ہندوستان ہمارا دشمن ہے۔ انہوں نے نیچے ایک پل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ پہلے ادھر سے لوگ اپنوں سے ملنے راہداری پر جاتے تھے۔ لیکن اب اس راستے سے بھی لوگوں کو نہیں چھوڑا جاتا۔ بچوں کا جواب سن کر میں سوچ میں پڑگیا کہ نفرت کا بیانیہ کتنا طاقتورہے کہ ایک قوم کے معصوم بچوں کے سینے میں بھی نفرت کی ہوا بھر دیتی ہے۔

ہندوستان اور پاکستان میں منقسم محبتوں کا وطن کشمیریوں پریکساں روشنی بکھیرنے والا سورج بھی نفرت کے ان مناظر کو دیکھ کر ناامیدی سے روزانہ غروب ہوتا ہے۔ لیکن زندگی میں پہلی بار ہم نے بھی سورج کو ناامیدی کے سیاہ غلاف میں دیکھا۔

چلہانہ لائن آف کنٹرول پر ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ یاد رہے یہاں مشرف کے دور ۲۰۰۵ میں راہداری کراسنگ پوائنٹ تھا۔ دریا پر ایک پل قائم ہے۔ جس پر مقامی لوگ راہدری سے ایک ملک سے دوسرے ملک اپنوں سے ملنے کے لیے جاسکتے تھے۔ لیکن گزشتہ پانچ سال سے یہ کراسنگ پوائنٹ آمدورفت کیلئے بند ہے۔ اس کراسنگ پوائنٹ کو نوسیری ۔ تیتھوال کراسنگ پوائنٹ بھی کہا جاتا ہے۔

شام کا دھندلکا پوری طرح وادی میں اپنا راج قائم کرچکا تھا۔ ہماری گاڑی کے ٹائر اپنے مدارمیں گھوم رہے تھے۔ گاڑی کے اندر مدہم آواز میں پشتو زبان کی موسیقی چل رہی تھی ۔ ہماری منزل لائن آف کنٹرول پر واقع ایک اور علاقہ کیرن تھی۔ کیرن ہم رات کے ۱۰ بجے پہنچے۔ کیرن میں اپنے صحافی دوست جلال الدین مغل کے توسط سے ایک ریسٹ ہاؤس میں مناسب قیمت پر کمرہ بک کرکے رات گزاری۔ کیرن کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ صبح جاگنے کیلئے کسی انسان یا الارم کی آواز کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ دریائے نیلم کا شور آپ کو نیند سے بیدار کرنے کیلئے کافی ہے۔

صبح کی کرنیں اپنی سنہری رنگت، بلند قامت کائل کے درختوں پر پھیلا چکے تھے ۔ ہم نے اڑنگ کیل کیلئے رخت سفر باندھ لیا۔ کیرن سے آگے چونکہ کچی اور قدرے خطرناک سڑک ہے۔ اس سڑک پر محتاط ہوکر گاڑی چلانی پڑتی ہے ۔ لیکن اب اس سڑک پر کام ہورہا تھا ۔ دن کے دس بج رہے تھے کہ ہم وادی نیلم کے ایک اور خوبصورت اور پُرفضا مقام شاردہ پہنچے ۔ شاردہ میں سیاحوں کو دریائے نیلم میں کشتی رانی سے بھی لطف اندوز ہوتے ہوئے دیکھا۔ شاردہ میں دریائے نیلم اور سرگن کے پہاڑوں سے نکلنے والی ایک چھوٹے  سے  دریا کا سنگم ہے ۔ دونوں دریاؤں کے ملاپ کا منظر سیاحوں کو اپنے سحرمیں جکڑ لیتا ہے۔ یاد رہے دریائے نیلم کو ہندوستان میں کشن گنگا کہا جاتا ہے۔ شاردہ کے پہاڑوں میں دیار کے قیمتی درخت بھی سینہ تان کے کھڑے ہماری نظروں کو حیرت زدہ کررہے تھے ۔

دیار پاکستان میں سب سے مہنگی لکڑی ہے ۔ یہاں ہم نے مقامی لوگوں کو دیکھا جو سڑک کنارے گرے ہوئے درختوں کو کاٹ رہے تھے۔ مقامی لوگوں سے درخت کاٹنے کی وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ ہمیں درخت کاٹنے کی اجازت نہیں ہے۔ لیکن گرے ہوئے درختوں کو بروئے کار لاسکتے ہیں ۔ مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ پہلے یہاں سے دیار کے درخت اسمگل ہوتے تھے لیکن اب ایسا ممکن نہیں ہے۔ حکومت نے سخت پابندیاں عائد کی ہیں ۔

شاردہ میں شکم سیری کے بعد ہماری اگلی منزل کیل تھی ۔ کیل شاردہ سے ۲۱ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ دشوار گزار راستوں کی وجہ سے یہ مختصر راستہ ہم نے ایک گھنٹے سے زیادہ وقت میں طے کیا۔ کیل پہنچنے کے بعد ہم نے گاڑی پارکنگ میں کھڑی کی کیونکہ کیل سے آگے اڑنگ کیل تک گاڑی نہیں جاسکتی۔ وہاں سے دریا پار کرنے کیلئے چیئرلفٹ کے ذریعے جانا پڑتا ہے ۔ چیئرلفٹ کی طرف جب چل پڑے تو ایک دکان کے سامنے بچے ملے انہوں نے ہمیں ہائیکنگ کیلئے مضبوط لکڑیاں تھما دیے اور ہم سے ایک لکڑی کا پچاس روپیہ طلب کیا ۔ یہ لکڑی ہم نے واپسی پر جمع بھی کروانی تھی۔ ہائیکنگ اسٹک چیئرلفٹ کے راستے میں آنے والی اکثر دکانوں میں کرائے پر دستیاب ہیں ۔ چیئرلفٹ میں سوار ہونے کیلئے فی فرد دو سو روپیہ ادا کرنا پڑتا ہے۔

چیئر لفٹ میں سوارہوتے ہی اڑنگ کیل کی  جانب بیٹھے شخص نے سرخ جھنڈی لہرا دی یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ چیئرلفٹ کو روانہ کردیا جائے ۔ چیئرلفٹ نے دریائے نیلم کے اوپر سفرشروع کردیا۔ ہوا نے بھی ایک دم انگڑائی لی اور تیزی سے چلنا شروع کیا لیکن یہ ہوا خطرناک نہیں بالکل خوشگوارتھی ۔ جب نگاہیں نیچے دریاسے ٹکرائیں تو ہمیں نیلے پانی کے  اوپر ترتیب سے رواں دواں لہروں کے سرے پر سفیدی ایسے  نظر آرہی تھی جیسے نیلے آسمان پر سفید بادلوں کے  ٹکڑے ہوا کے دوش پر اکیلے سفرپر نکلے ہوں ۔

کیل سے اڑنگ کیل تک سفر تقریباً دو منٹ میں طے کیا ۔ مقامی زبان میں اڑنگ کے معنی ہموار جگہ کے ہیں۔ جبکہ کیل کا مطلب مقامی لوگوں کے مطابق مارخور ہے۔ جو کہ پہلے یہاں موجود تھے لیکن اب ان کی نسل معدوم ہوچکی ہے۔ چیئرلفٹ سے اترنے کے بعد ہمارا سفر ختم نہیں ہوا بلکہ ہموار جگہ تک پہنچنے کیلئے پیدل جانا تھا اور یہ سفر تیس سے چالیس منٹ کا تھا۔ ہائیکنگ ٹریک پر ہم نے سفر کا آغاز کیا اور بھی بہت سے سیاح جس میں بچے بوڑھے اور جوان شامل تھے۔ اس ٹریک پر ہائیکنگ سٹک کے سہارے چڑھ رہے تھے ۔ راستے میں مقامی لوگوں کو دیکھا جو سیاحوں کا سامان پیسوں کے بدلے کندھے پر وزن کی پرواہ کیے بغیر اٹھائے بہت تیزی سے پہاڑپر چڑھ رہے تھے ۔ لیکن سیاح ہر دس منٹ کے بعد تھک کر سستانے کیلئے بیٹھ جاتے تھے ۔

جب اللہ اللہ کرکے ہم اڑنگ کیل کے پہاڑ کی چوٹی تک پہنچے تو دیکھا کہ ہم نے یہاں تک جتنا سفر کیا وہ بے معنی نہیں تھا بلکہ یہاں ایک ایسی دنیا آباد تھی۔ جس کی نظیر اس کائنات میں کہیں بھی نہیں ملتی۔ ہماری نگاہوں کو یقین نہیں آرہا تھا کہ ہم ایک خوبصورت اور رومانوی جہان  میں حقیقی طور پر موجود ہیں ۔ جس کے بارے میں ہم تصور ہی کرسکتے ہیں ۔ قدرت کی تخلیق کو دیکھ کر ہم دم بخود رہ گئے۔ اڑنگ کیل کا گاؤں ایک پہاڑ کی چوٹی پر آباد ہے۔ اس خوبصورت گاؤں کے ساتھ ہی ایک اور پہاڑی سلسلہ شروع ہوتا ہے جو اس گاؤں کی خوب صورتی کو چار چاند لگادیتا ہے ۔

اڑنگ کیل کے اس پورے گاؤں میں کُل سو مکان ہیں جس میں ستر مکانوں میں مقامی لوگ رہتے ہیں۔ جبکہ باقی تیس مکان مقامی لوگوں نے سیاحوں کی اڑنگ کیل میں آمد میں اضافہ کے بعد ریسٹ ہاؤسز بنا دیے ہیں۔ یاد رہے اڑنگ کیل میں زراعت نہ ہونے کے برابر ہے یہاں صرف مکئی کی فصل کاشت ہوتی ہے وہ بھی بہت کم ۔ اکثر مقامی لوگوں کا ذریعہ معاش سیاحت ہے۔ جبکہ چند   افراد سرکاری نوکری کرکے گھر کے اخراجات پورے کرتے ہیں ۔ یہاں ہندکو زبان بولی جاتی ہے جس کو مقامی لوگ پہاڑی زبان بھی کہتے ہیں ۔ یاد رہے کہ کشمیری زبان صرف نیلم ویلی میں دو ہی گاؤں میں بولی جاتی ہے جس میں ایک خواجہ سری کا علاقہ ہے ۔ باقی پوری  ویلی میں ہندکو زبان بولی جاتی ہے ۔

اڑنگ کیل سطح سمندر سے ۸۳۷۹ فٹ بلندی پر واقع ہے۔ یہاں سردیوں میں ۸ سے ۱۰ فٹ تک برف گرتی ہے جبکہ گرمیوں کے موسم میں دھوپ بہت تیز پڑتی ہے۔ موسم اور غربت کے اثرات ہم نے مقامی خواتین کے چہرے پرواضح دیکھے۔ مقامی خواتین سخت جان تھیں۔ جن کو ہم نے سارا دن کام میں مگن دیکھا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ اکثر خواتین نے ایک ہی رنگ اور ایک قسم کے کپڑے زیب تن کئے ہوئے تھے ۔ سیاہ مخمل کے موٹے کپڑے جن پر سرخ رنگ کی پٹیاں اس پر سی گئیں تھیں۔

یہاں کے تمام مکان بہت خوبصورتی اور مہارت سے کائل کی لکڑی سے بنائے گئے ہیں۔ ۔چار دیواری کا تصور اڑنگ کیل میں نہیں ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق یہ مکان کافی مضبوط ہوتے ہیں ۔ اڑنگ کیل تک راشن اور ضرورت کا دیگر سامان خچروں کے ذریعے کیل سے لایا جاتا ہے ۔ خزاں سے پہلے یہاں کے مکین پورے موسم سرما کا راشن ذخیرہ کرلیتے ہیں کیونکہ برف باری کے موسم میں راستے بند ہوجاتے ہیں ۔

رات گزارنے کیلئے یہاں ریسٹ ہاؤسز کے ساتھ خیمے بھی بڑی تعداد میں لگے ہوتے ہیں جس کی قیمت مناسب ہے یعنی ایک ہزار روپے ایک رات کیلئے ہے ۔ لیکن ہم نے خیمے کی بجائے گیسٹ ہاؤس میں کمرہ ایک رات کیلئے پندرہ سو روپے پر بک کیا ۔ اپنا سامان رکھنے اور تازہ دم ہونے کے بعد اڑنگ کیل کے خوبصورت نظاروں کو اپنی یادوں کا حصہ بنانے کیلئے ہم نے اڑنگ کیل کی پگڈنڈی کے مانندراستوں پر چلنا شروع کیا ۔ ہمیں ہر قدم پر رومانیت کا احساس ہورہا تھا ۔ گاؤں کے لوگ اپنے کاموں میں مگن نظر آرہے تھے۔ مال مویشی اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کیلئے گھاس جس سے شفاف شبنم کی بوندیں ٹپک رہی تھیں، چبا رہے تھے۔ ایک مکان کے قریب سے گزر رہے تھے تو ایک کشمیری دوشیزہ جس کی گہری بھوری آنکھیں اس کے  ایک ہاتھ میں کشیدہ  کاری کرتے کپڑے اور سوئی پر مرکوز تھی اور اس کی سنہری  زلفوں کی گستاخ لٹ اڑنگ کیل کی شرارتی ہوا سے اس کے خوبصورت رخسار پر بار بار گر رہی تھی۔ جو کہ اس کے کام اور خیال میں خلل کا باعث بن رہی تھی ۔

اڑنگ کیل کا چپہ چپہ چھان مارنے کے بعد واپس اپنے کمرے کی طرف آرہے تھے کہ گھپ اندھیرا چھانے لگا ۔ یہ اندھیرا اتنا گہرا تھا کہ کچھ لمحوں کے بعد ہر چیز نظروں سے اوجھل ہونے لگی۔ ریسٹ ہاؤسز اور فاصلوں پر واقع مکانوں میں بلب روشن ہونے لگے ۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ہم کسی کہکشاں میں آ گئے ہیں ۔ بالکل خاموشی ، خاموشی بھی کیا! گہرے اندھیرے کی طرح بہت گہری خاموشی، کسی پتے کے  ہلنے کی آواز تک بھی سنائی دی رہی تھی ۔

جب ریسٹ ہاؤسز کے ایریا تک پہنچے تو ہمیں شہر کے شور سے دور بھاگتے ہوئے شہر کے باسیوں کا شور سنائی دینے لگا ۔ لوگ ایک دوسرے سے گپ شپ لگا رہے تھے۔ کہیں پر لکڑیاں جلا کر سیاح دائرے میں بیٹھے دل کا غبار ہلکا کرنے کیلئے زور زور سے قہقہے لگا رہے تھے۔ تو کہیں چائے کی چسکیوں سےسکون کے لمحات کو مزید پُرسکون اور خوشگوار بنایاجارہا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اپنے کمرے تک پہنچتے پہنچتے آڑنگ کیل میں موجود انسانی آوازوں پر نیند غالب آگئی تھی ۔ ہم بھی تھک چکے تھے۔ بستر تک پہنچتے ہی نیند نے اپنی  آغوش میں لے لیا ۔ نیند بھی کیا نیند تھی یقین جانیے پوری رات سوتے رہے جب صبح آنکھ کھلی تو ایسا لگ رہا تھا کہ ابھی ہی تو پلکیں جھپکی تھیں ۔ جب کمرے کے دریچے سے پردہ ہٹایا تو سامنےکا منظر افسانوی تھا۔ ہمیں یقین ہی نہیں آرہا تھا اپنی آنکھوں پر کئی  بار آنکھیں ملتا رہا تاکہ یقین آ جائے کہ میں خواب نہیں دیکھ رہا بلکہ جو منظر آنکھوں کی پردے پر محوگردش ہے وہ حقیقی دنیا ہے۔ سورج کی سرخی مائل کرنیں اڑنگ کیل کے بلند ایستادہ کائل کے درختوں اور سبزے کی چادر  میں لپٹی  ہوئی پہاڑی چوٹی کی اوٹ سے پھوٹ کر اڑنگ کیل کی خوبصورتی کو اپنے رنگ میں رنگ چکی تھی۔۔ وادی کے مقامی لوگ اپنی دکانوں اور ہوٹلوں کی صفائی میں مگن تھے۔ یہاں کے لوگ روز مرہ زندگی کا آغاز صبح سویرے کرتے ہیں۔ اور شام کو جلدی اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں ۔ اڑنگ کیل میں ایک سکول ہے جس کی دو عمارتیں ہیں۔ ایک میں بچے اور ایک میں بچیاں پڑھتی ہیں وہ بھی سورج نکلنے سے پہلے سکول پہنچ چکے تھے۔ سورج جب مکمل طور پر نمودار ہوا تو ہم نے بھی واپسی کیلئے رخت سفر باندھ لیا، اڑنگ کیل سے نکل کر کیل کی طرف آئے۔ یہ ایک مکمل رومانی اور افسانوی سفر تھا جو ہم نے حقیقت میں طے کیا ۔اگر زندگی میں کوئی بھی رومانیت سے روشناس ہونا چاہتا ہے وہ اڑنگ کیل کا سفر لازمی کرے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply