آخری شرلہ۔۔محسن علی خان

2007ء میں دوستوں کے ساتھ مری سیر و تفریح، آب و ہوا کی تبدیلی کے لیے گیا۔ مال روڈ، کشمیر و پنڈی پوائنٹ، نتھیا گلی، اپرٹوپہ،لوئر ٹوپہ، بھوربن، پتریاٹہ، ایوبیہ کی جی بھر کے سیر کی۔ بائیں کندھے پر جعلی عقاب بٹھا کر تصویر بھی بنائی۔ نیچی پرواز سے تیرتے بادلوں کو آغوش میں لینے کے لیے پیٹ سے ٹی شرٹ اُٹھا کر ایک دم سے واپس فولڈ بھی کی تاکہ بادل کا کوئی آوارہ ٹکڑا گلے لگ جاۓ اور سینے میں اپنی نمی کا احساس دے لیکن یہ تجربہ ناکام رہا، اُلٹا پسلیوں کو ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں نے ضرب لگائی۔ اوپر سے اُس وقت میں تھا بھی سنگل پسلی۔

سنسان نگر، انجان ڈگر کا پیارا ہوں، آوارہ ہوں، گیت گاتے ہوۓ دوست یار ہر سڑک، ہر پگڈنڈی، پہاڑوں کی چڑھائی و اُترائی پر اپنے قدموں کی چھاپ چھوڑ رہے تھے۔ وہیں ایک سڑک کنارے پہاڑ کے ساتھ ایک بہت بڑا لکڑی کا تختہ، جس پر رنگ برنگے غبارے باندھے ہوۓ تھے۔ جو کہ ٹھاہ ٹھاہ کی آوازوں کے ساتھ پھٹتے جا رہے تھے۔ شرلوں والی بندوق سے غباروں کا نشانہ لیتے سیاحوں کو دیکھ کر میری بھی شکاری روح بیدار ہوئی۔ تختے کے ساتھ ایک گتے کے ٹکڑے پر مارکر سے لکھا ہوا تھا کہ پورے نشانے لگانے والے کو موقع پر نقد 100 روپے انعام۔ یہ عبارت پڑھ کے نقد سو روپے حاصل کرنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ ایک دو دوستوں نے بھی ہلہ شیری دی۔ بالآخر دل نے میدان میں اتار دیا۔

بھاؤ تاؤ کے بعد پتہ لگا کہ پانچ روپے میں دس غبارے پھاڑنے ہیں، اگر کامیابی مل گئی تو پانچ چاک نشانے لگا کر توڑنے ہوں گے، اگر مسلسل پانچ چاک گرا لیے تو دس ماچس والی تیلیاں نشانہ بازی کے لیے لگائی جائیں گی۔ اگر وہ بھی کامیابی سے مار گرائی تو پچاس روپے ملیں گے۔ لیکن اگر مقابلہ جاری رکھنا ہے تو ایک سوئی اس تختے پر لگائی جاۓ گی۔ اگر اُس سوئی پر نشانہ لگ گیا تو پورے سو روپے نقد، اگر نشانہ چُوک گیا تو پچاس روپے ہمیں  نے ادا کرنے ہوں گے۔

یہ سب شرائط تسلیم کر لی گئیں۔ دوست زبیر نے پانچ روپے انویسٹ کیے۔ اس شرط پر کہ مقابلہ جیت کر پچاس روپے اُس کے اور یہ پانچ روپے بھی واپس یعنی کہ کُل ملا کر پچپن روپے واپس اُس کو باقی پینتالیس روپے میرے۔ یعنی کہ عظیم الشان فاتح کے حصے میں کم رقم اور موٹیویشن دینے والے کے پاس زیادہ۔۔ بہرحال نشانے والے پٹھان کے ساتھ ساتھ اپنے دوست زبیر کی بھی شرائط من و عن قبول کیں۔

نشانہ بازی شروع کی، دس غبارے تو آناً فاناً چلتے کیے۔ اگلے مرحلے کے پانچ چاک بھی چند لمحات میں راستے سے ہٹا لیے۔ اب کچھ مشکل مرحلہ شروع ہو گیا۔ ماچس کی دس تیلیاں ایک ایک کر کے اُڑانی شروع کیں۔ دَم سادھ کے مکمل فوکس رکھتے ہوۓ تیلیاں نشانے کی زد پر آرہی تھیں۔ ہر اگلے نشانے سے پہلے سردی میں بھی ہتھیلی پر آۓ پسینے کو صاف کر رہا تھا۔ پریشر بڑھ رہا تھا۔ دوست اور کچھ شائقین حوصلہ افزائی کر رہے تھے۔ آخری یعنی کہ دسویں ماچس کی تیلی کا نشانے لیتے ہوۓ پٹھان نے ایک بار پھر تمام شرائط کی یاد دہانی کروانا شروع کی تو اُس کو کہا خان صاحب ہاتھ پر نہ بولیں، توجہ نہ ختم کروائیں، لیکن باز وہ بھی نہیں آیا، سانس روک کر میں نے بھی نشانہ لگا کر آخری تیلی بھی راستے سے چلتی کی۔

اب آخری مرحلہ تھا۔ دلچسپ بھی تھا۔ لیکن ہلکی سی گھبراہٹ بھی ہو رہی تھی۔ پٹھان نے تختے کی ایک طرف سوئی لگائی۔ میں نے دوستوں کی طرف دیکھ کر آنکھوں سے پیغام دیا کہ جشن کی تیاری پکڑیں۔ مجھے سوئی بالکل واضح نظر آرہی تھی۔ پٹھان نے بندوق میں شرلہ ڈالا۔ مجھے پکڑائی۔ میں نے پوزیشن لی۔ دل کی رفتار قابو میں رکھی، ہاتھ کی گرفت مضبوط کی، پوری توجہ نشانے پر مرکوز کی، پھر وہ لمحہ آن پہنچا جہاں مجھے اب کچھ سوچنے کی ضرورت نہیں تھی۔ میں نے بندوق کا گھوڑا دبایا۔ ٹھک کی آواز آئی۔ لیکن سوئی اپنی جگہ پر ہی قائم تھی۔ یعنی کہ نشانہ چُوک گیا۔ اوہ۔ نا ممکن یہ کیسے ہو گیا۔ روکی ہوئی سانس اور دل کی دھڑکن کو آزاد چھوڑا۔ انتہائی مایوسی ہوئی اور یقین بھی نہ آۓ کہ آخر یہ کیسے ہوا کہ نشانہ چُوک گیا۔

مقابلہ میں شکست ہوئی۔ ۔یعنی کہ اب ہم نے پچاس روپے ادا کرنے تھے۔ ابھی اسی سوچ میں تھے کہ دوست زبیر نے پٹھان سے کہا، اوہ لالہ آپ نے بے ایمانی کی ہے۔ آپ نے بندوق میں شرلہ ہی نہیں ڈالا۔ پٹھان کہتا، الزام تراشی مت کرو۔ پچاس روپے نکالو۔ تب ہی زبیر نے پٹھان سے کہا، اگر نشانہ نہیں لگا تو آخر شرلہ لگا کہاں ہے۔ یہاں تو سوئی کے اردگرد بھی کوئی نشان نہیں ہے کہ ہم کہیں نشانہ چوک گیا ہے۔ پٹھان کہتا اوپر کو نکل گیا ہے شرلہ۔ اس تختے پر نہیں لگا۔

اب ہمیں پوری گیم سمجھ آگئی  کہ پٹھان نے ہمیں بِنا شرلہ ڈالے بندوق دی۔ جب شرلہ ہی موجود نہیں تو نشانہ کہاں سے لگنا تھا۔ اسی بات پر تکرار شروع ہو گئی۔ پانچ منٹ کے اندر اُس پٹھان کی حمایت میں مقامی لوگ بھی اکھٹے ہو گئے۔ ہم نے شرط رکھی کہ سب کے سامنے دوبارہ نشانہ لگا دیتے ہیں۔ وہ مانے ہی نہ ۔ بحث بڑھ کے اس نتیجہ پر اختتام پذیر ہوئی کہ ہمارے ساتھ چار سو بیس ہوا ہے۔ ہم پچاس بھی نہیں دیں گے۔ اور پٹھان سے سو روپے بھی نہیں لیں گے۔

میرا خیال ہے شاید یہی وہ آخری شرلہ تھا جس کے بعد نشانہ بازی کبھی کی ہی نہیں۔

الکیمسٹ سے شہرت حاصل کرنے والے شاندار مصنف پاؤلو کوہلو کا ایک مختصر سا فکر کو جلا بخشنے والا ناول ” تیر انداز ” ہے۔ تتسوئیا کا مرکزی کردار ایک ایسے ماہر تیرانداز کا ہے جو اپنا فن ایک نوجوان میں منتقل کر رہا ہے۔ مجھے لگ رہا ہے اس ناول میں تمام موٹی ویشنل سپیکر حضرات کے کشید کیے ہوۓ فلسفے کا نچوڑ ہے۔ مختصر عبارت لیکن اتنی جامع کہ آپ ایک سطر کے بعد جب تک اُس کا اثر محسوس نہ کر لیں آپ سے آگے بڑھا ہی نہیں جاۓ گا۔ یہ فن چند ایک مصنفین کے پاس ہے۔

اگر آج کے تیز رفتار وقت میں آپ چاہتے  ہیں کہ آپ کا آخری شرلہ نشانے پر لگ جاۓ تو اُس سے پہلے آپ یقین کر لیں کہ آپ کی بندوق میں شرلہ ہے بھی یا نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

” زندگی کے جس دن تُم محبت سے خالی ہو گے، تمھارا نشانہ چُوکے گا اور تمھیں مشکل ہو گی۔”

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply