ہماری عدلیہ کو آزادی چاہیے۔۔نسرین چیمہ

انصاف کی مسند پر بیٹھے جج صاحبان عوام کی امیدوں کا مرکز ہوتے ہیں۔ تمام در بند ہونے کے بعد دکھی اور بے بس شہری بڑی عدالتوں سے حق و انصاف کی امیدیں وابستہ کر بیٹھے ہیں ۔ عدلیہ کی طاقت کا تقاضا تو یہ ہے کہ وہ کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہونے دے ۔ غیر جانبداری سے فیصلے کرے۔ مگر کیا وجہ ہے کہ مہینوں بلکہ سالہا سال ٹھوکریں کھانے کے بعد بھی شہری انصاف سے محروم رہتے ہیں ۔ آخر وہ کون سی بڑی قوتیں ہیں جنہوں نے سارا ظالمانہ نظام اپنے ہاتھ میں لیا ہوا ہے۔ انہوں نے ملک کے امن و امان اور سکون کو درہم برہم کر دیا ہے ۔ ان مگرمچھوں نے انصاف کی جڑیں کاٹ دی ہیں ۔ انہوں نے اپنے خونی پنجے عوام کی گردنوں پر گاڑے ہوئے ہیں۔

ان کی اتنی دہشت ہے کہ عدالتیں بھی ان کے آگے مجبور و بےبس ہیں۔ مجرم کھلے عام پھر رہے ہیں ۔ یہ کالے کرتوتوں والے برائیوں میں ملوث ہونے کے باجود قانون کی گرفت سے آزاد ہیں ۔ شریف لوگ ان کا نام بھی لینے سے گھبراتے ہیں۔ مجبور لوگوں کی عزت و ناموس ان کے ہاتھ میں ہے۔ ہمارا قانون چوروں لٹیروں اور کالے دھندے کرنے والوں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بےخوف ہو کر لوگوں کی جان و مال اور عزت سے کھیل رہے ہیں ۔ اس ملک کی ہر چیز ان کی ملکیت ہے ۔ عوام ذلت کے گڑھے میں گر جائیں، ان پر آفتیں ٹوٹ پڑیں ، دنیا برباد ہو جائے ۔ ان کی عزتیں لٹ جائیں، کوئی پُرسان حال نہیں ۔ ہر محکمے میں ضمیر فروشوں کی بولی لگ چکی ہے ۔

ستم ظریفی تو یہ ہے کہ سالہا سال عدالتوں کی ٹھوکریں کھا کھا کر جوانی بڑھاپے کی دہلیز پر جا کھڑی ہوتی ہے مگر بے سود ۔ بڑھایا بھی انصاف کے دروازے کھٹکھٹا   کھٹکھٹا کر اپنی موت آپ مر جاتا ہے  مگر کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔

ہم ایک اسلامی مملکت میں رہتے ہیں ۔ جہاں کا ایک ایک چپہ ہمارا ہے ۔ یہاں کی مٹی کا ایک ایک ذرہ ہمارا ہے ۔ جہاں کی ہوائیں اور فضائیں ہمیں اپنے دیس میں ہونے کا احساس دلاتی ہیں ۔ مگر دیس ہمارا نہیں ۔
یہ دیس تو ان کا ہے جن کے ہاتھوں میں زنجیریں ہیں جو قوم کی قسمت سے کھیل رہے ہیں ۔ جو گھناؤنے سے گھناؤنا جرم کرنے کے بعد بھی باعزت اور آزاد ہیں ۔ کیا مجبور اور بےبس لوگ یونہی زندہ درگور ہوتے رہیں گے ؟
آخر کب تک !
زہرا کاظمی اور اس جیسی قوم کی بیٹیاں کب تک بےآسرا رہیں گی ۔

زہرا کاظمی کو چھ ماہ ہو گئے ہیں بےگھر ہوئے ، مگر اس کے کیس کا فیصلہ نہیں ہو رہا ۔ تمام شواہد مکمل ہونے کے باوجود ، تمام ثبوت ملنے کے بعد اور مجرموں کے اعتراف جرم کے باوجود کوئی حوصلہ افزا قدم نہیں اٹھایا گیا

ظہیر اور شبیر نے کہا کہ مہدی کاظمی اور اس کے سہولت کاروں کو ہماری طاقت کا اندازہ نہیں۔ ہم زیادہ دن جیل میں نہیں رہیں گے ۔ وہی ہوا پندرہ دن کے اندر اندر دونوں بھائیوں کی ضمانت ہو گئی۔
وہ فتح کا سہرا اپنے ماتھوں پر سجائے دندناتے پھر رہے ہیں ۔ جس ملک میں قانون کے ہاتھ ٹوٹے ہوں ، انصاف کا ترازو اپنا توازن کھو بیٹھے ۔ قانون کی زنجیروں میں کمزوروں کو جکڑ دیا جائے وہاں طاقت صرف ظالم سماج کے پاس ہوتی ہے ۔ گویا کہ عدلیہ نے اپنی آزادی نہیں، غلامی کا اقرار کر لیا ہے ۔ دو دو لاکھ کے بدلے جن مجرموں کو آزاد کر دیا گیا وہ پچیس کروڑ عوام کو جوابدہ ہیں۔

کیا یہ قیمت تھی پچیس کروڑ عوام کے ابلتے ہوے جذبات کی۔؟ مہدی کاظمی کے خاندان کی عزت کی، زہرا کاظمی کے ماں باپ کے آنسوؤں کی ، وکلاء، اینکرز، صحافیوں کی محنت  کی، اس درد کی جو اس وقت پوری قوم کا درد بن چکا ہے ۔

اس قاتلانہ فیصلے سے والدین کے احساسات مجروع ہوئے ہیں اور انہوں نے اپنی بیٹیوں کو کتنا غیر محفوظ سمجھنا شروع کر دیا ہے ۔ اس کا اندازہ شاید زمین والوں کو نہ ہو لیکن یہ فیصلہ سن کر آسمانی مخلوق نے ضرور اشک بہائے ہوں گے ۔

وہ مجرم جن کے بارے میں قوم کو توقع تھی کہ ان کو سزائے موت ہو جائے گی، نا صرف مرکزی مجرم بلکہ اس گینگ کے لئے بھی سخت سزا متوقع تھی ،مگر سب کی امیدوں پر پانی پھر گیا  ۔ یہ قیامت نہیں تو اور کیا ہے ۔ قیامت صغریٰ تو یہاں روز ٹوٹتی ہے۔ کبھی انسانی جانوں سے کھیل کر، کبھی دوسروں کے حقوق پر غاصبانہ قبضہ کر کے، کبھی گھروں کو لوٹ کر ، کبھی بےبسوں کو تماشا بنا کر ، کبھی دکھی قوم کی بیٹیوں کی عزت کا جنازہ نکال کر، کبھی جاگتے میں نصیب سو جاتے ہیں اور کبھی سوتے میں آفتیں ٹوٹ پڑتی ہیں ۔

اگر ہماری عدلیہ آزاد ہو، کالے ہاتھوں سے خود کو محفوظ کر لے، تو جس قانون کے شکنجے میں کمزور عوام کو جکڑ دیا جاتا ہے وہی قانون طاقتور پر بھی لاگو کر کے اپنے ضمیر کے فیصلوں کئ پابند ہو جائے تو ملک  ایسی اندھیر نگری نہ ہو ۔
حکمران تو صرف اپنی حاکمیت کی فکر میں ہیں ۔ اور تمام پارٹیاں صرف وزارت عظمی کے لئے برسر پیکار ہیں۔

لمحہ فکریہ تو یہ ہے کہ عوام کے بنیادی مسائل روٹی کپڑا اور مکان کی فراہمی کے ساتھ ساتھ انہیں درندوں سے کیسے محفوظ رکھنا ہے اور باعزت زندگی گزارنے کے قابل کس طرح بنانا ہے۔

حکومتیں تو آتی اور جاتی رہیں گی ۔ وہ اپنے ذاتی مقاصد کے حصول سے کبھی غافل نہیں ہوں گی ۔ وہ غافل ہوں گی تو قوم کے اہم اور ناگزیر معاملات سے۔
اس قوم کے انصاف کے تقاضے کون پورے کرے گا اس کا جواب نہ کسی حکمران کے پاس ہے ، نہ سیاستدانوں کے پاس، نہ اداروں کے پاس ہے اور نہ ہی عدلیہ کے پاس۔۔

آخر ہم جائیں تو جائیں کہاں ؟

وہ ملک جس میں جھوٹ کی جیت اور کبریائی ہے جہاں سچائی ہار جاتی ہے وہ ہمارا ملک ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اے ظلم کی چکی میں پسنے والو، وطن کے مجاہدو، قیامت کبری ٰکا انتظار نہ کرو۔ یہ جنگ پوری قوم کی عزت و ناموس کی جنگ ہے۔ شرپسندوں کے مقابلے کے لئے باہر نکلو۔ شریف لباس میں چھپے ہوئے غلیظ چہروں کو بےنقاب کرو ورنہ ظہیر ، شبیر اور نور منیر جیسی گندی مچھلیاں آپ کو بےموت مار دیں گی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply