ٹرانس جینڈرز ایکٹ پر اعتراضات۔۔چوہدری عامر عباس

گزشتہ دنوں ٹرانس جینڈرز ایکٹ کافی زیادہ تنقید کی زد میں رہا۔ مجھے بھی اس پر رائے دینے کیلئے کہا گیا مگر میں نے اس وقت مذکورہ ایکٹ کو چونکہ پڑھا نہیں تھا اس وجہ سے رائے نہ دے سکا۔
میرے مطالعہ کے مطابق ٹرانس جینڈر ایکٹ میں دو بہت بڑے مسائل ہیں جن پر تنقید بالکل بجا ہے۔ سب سے پہلا سُقم اس ایکٹ کا نام “ٹرانس جینڈرز ایکٹ” رکھا   گیا ہے۔

یاد رہے کہ یہ ایکٹ خواجہ سراؤں کے حقوق کیلئے بنایا گیا ہے۔ خواجہ سرا قدرتی طور پر پیدا ہونے والے مرد اور عورت کی  درمیانی جنس کو کہا جاتا ہے جبکہ ٹرانس جینڈر ایسے مرد یا عورت کو کہا جاتا ہے جس نے اپنی جنس تبدیل کروا لی ہو  یعنی اگر وہ پہلے مرد تھا تو اب وہ کسی طبی خرابی کی وجہ سے یا اپنی مرضی سے جنس تبدیل کروا کر مکمل طور پر خاتون بن چکا ہو یا اگر پہلے وہ عورت تھی تو اب وہ کسی طبی خرابی کی بناء پر یا اپنی مرضی سے جنس تبدیل کروا کر مکمل طور پر مرد بن چکی ہو۔ گویا ٹرانس جینڈر یا تو مرد ہوتا ہے یا عورت، قدرتی طور پر پیدا ہونے والے خواجہ سرا کو ٹرانس جینڈر نہیں کہا جا سکتا۔

حیرت اس بات پر ہے کہ خواجہ سراؤں کے تحفظ کیلئے بنائے جانے والے ایکٹ کو ٹرانس جینڈرز سے مخصوص کر دیا گیا ہے۔ شاید یہ ایکٹ بنانے سے قبل میڈیکل ایکسپرٹس سے رجوع ہی نہیں کیا گیا یا دانستہ طور پر یہ سقم چھوڑا گیا ہے۔ لہٰذا اس ایکٹ کا نام ہی اس کا سب سے بڑا سقم ہے۔

اس ایکٹ کا دوسرا بڑا سقم اس کے سیکشن 3 کی ذیلی دفعہ 3 میں ہے جس کے تحت کوئی بھی شخص بغیر کسی قسم کے میڈیکل سرٹیفکیٹ اپنی مرضی سے نادرا دفتر میں جا کر کہہ دے کہ میں عورت ہوں یا میں مرد ہوں تو اسکی مرضی کے مطابق جنس کے خانے میں اسکی جنس کا تعین کر دیا جائے گا۔ حیرت ہے کہ اس بارے دانستہ یا نادانستہ طور پر میڈیکل ایگزامینیشن کو سرے سے نظر انداز   کر دیا گیا۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جنس کے تعین کیلئے میڈیکل بورڈ سے طبی معائنہ کے بعد ایک سرٹیفکیٹ طلب کیا جائے مگر ایکٹ میں کہیں ایسا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ لہٰذا یہ ایک بہت بڑا سقم ہے جس کا سب سے بڑا نقصان معاشرتی عدم توازن کا پیدا ہونا ہے۔ یہی سقم اس   پورے ایکٹ کو پاکستان جیسے معاشرے کیلئے غیر فطری قانون بنا دیتا ہے۔ مثال کے طور پر  کوئی شخص نادرا ریکارڈ میں اپنی جنس مرد سے عورت کروا کر کسی بھی مرد سے شادی بھی کر سکتا ہے۔ مزید یہ کہ کوئی عورت نادرا ریکارڈ میں اگر اپنی جنس تبدیل کروا کر مرد کر لے تو لامحالہ وراثت کے بیشمار مسائل کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو جائے گا جو قتل و غارت گری پر منتج ہو گا۔ اس شق کی وجہ سے اس کے علاوہ بھی بہت سے دیگر معاشرتی مسائل جنم لیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

کچھ دوستوں کے توسط سے معلوم ہوا ہے کہ وفاقی شرعی عدالت میں اس ایکٹ کو چیلنج کر دیا گیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ سپریم کورٹ اس پر سوموٹو ایکشن لے گی تاکہ اس ایکٹ میں مجوزہ ترامیم کرکے اسے پاکستان جیسے معاشرے کیلئے بہتر اور قابلِ عمل بنایا جا سکے۔

Facebook Comments

چوہدری عامر عباس
کالم نگار چوہدری عامر عباس نے ایف سی کالج سے گریچوائشن کیا. پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی. آج کل ہائی کورٹ لاہور میں وکالت کے شعبہ سے وابستہ ہیں. سماجی موضوعات اور حالات حاضرہ پر لکھتے ہیں".

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply